Bayan-ul-Quran - An-Noor : 35
اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا١ۚ وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ
اِنْ تَتُوْبَآ : اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف فَقَدْ صَغَتْ : تو تحقیق کج ہوگئے ۔ جھک پڑے قُلُوْبُكُمَا : تم دونوں کے دل وَاِنْ تَظٰهَرَا : اور اگر تم ایک دوسرے کی مدد کرو گی عَلَيْهِ : آپ کے خلاف فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ : وہ مَوْلٰىهُ : اس کامولا ہے وَجِبْرِيْلُ : اور جبرائیل وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور صالح اہل ایمان وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد ظَهِيْرٌ : مددگار
اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل کج ہوگئے ہیں اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبرئیل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں اور (انکے علاوہ اور) فرشتے بھی مددگار ہیں
ان تتوبا الی اللہ مراد حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ صدیقہ ہیں۔ ان دونوں کو توبہ پر برانگیختہ کیا کیونکہ ان سے ایسا امر واقع ہوا جو رسول اللہ ﷺ کی محبت کے خلاف میلان رکھتا تھا۔ فقد صغت قلوبکما یعنی تمہارے دل حق سے پھرگئے (1) ۔ یہ امر تھا کہ دونوں نے اس بات کو پسند کیا کہ وہ چیز پسند کریں جسے نبی کریم ﷺ نے ناپسند کیا تھا جیسے لونڈی سے اجتناب کرنا اور شہد سے اجتناب کرنا جبکہ نبی کریم ﷺ شہد اور عورتوں سے محبت رکھتے تھے۔ ابن زید نے کہا : دونوں کے دل اس طرف مائل ہوئے کہ انہیں اس چیز نے خوش کیا کہ آپ ﷺ ام ولد سے رک جائیں تو انہیں اس چیز نے خوش کیا جسے نبی کریم ﷺ نے پسند کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، ان دونوں کے دل توبہ کی طرف مائل ہوئے۔ فرمایا : فقد صغت قلوبکما یہ نہیں فرمایا فقد صغی قلباکما۔ عربوں کا معمول ہے جب وہ تثنیہ ذکر کرتے ہیں تو ایک کو جمع لاتے ہیں کیونکہ یہ اشکا کا باعث نہیں ہوتا۔ یہ بحث سورة مائدہ آیت 38 میں اللہ تعالیٰ کے فرمان فاقطعوا ایدھما میں گزر چکی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب بھی تثنیہ کے ساتھ اضافت واقع ہو تو وہاں جمع کے ساتھ وضاحت کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ یہ زیادہ باوقار اور تخفیف کا باعث ہے۔ فقد صغت قلوبکما یہ جزا کی شرط نہیں کیونکہ صغو (میلان) پہلے ہوچکا تھا۔ جو اب شرط مخدوف ہے۔ حذف کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر کسی کو معلوم ہے یعنی اگر تم توبہ کرو تو تمہارے لئے یہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ تمہارے دل حق سے مائل ہوچکے تھے۔ وان تظھرا علیہ یعنی تم معصیت اور ایذا کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے خلاف باہم معاونت کرو۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے (2): میں ایک سال تک رکا رہا جبکہ میں ارادہ رکھتا تھا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے ایک آیت کے بارے میں پوچھوں۔ آپ کی ہیبت کی وجہ سے نہ پوچھ سکا یہاں تک کہ آپ حج کے لئے روانہ ہوئے تو میں بھی حج کے لئے روانہ ہوا۔ جب آپ واپس لوٹے تو ہم ایک راستہ پر تھے آپ اپنی ضرورت کے لئے ایک درخت کی طرف ہو لئے۔ میں رک گیا یہاں تک کہ آپ فارغ ہوگئے۔ پھر میں آپ کے ساتھ چل پڑا۔ میں نے عرض کی : اے امیر المومنین ! وہ دو بیویاں کون سی تھیں جنہوں نے رسول اللہ کے معاملہ میں باہم ایک دوسرے کی مدد کی تھی ؟ فرمایا : وہ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ تھیں۔ میں نے عرض کی : اللہ کی قسم ! میں ایک سال سے آپ سے یہ پوچھنا چاہتا تھا آپ کی ہیبت کی وجہ سے پوچھ نہ سکا۔ فرمایا : ایسا نہ کیا کر، تجھے جو گمان ہو کہ میرے پاس علم ہے تو مجھ سے پوچھ لے۔ اگر مجھے علم ہوا تو میں تجھے بتا دوں گا۔ فان اللہ ھو مولٰہ اللہ آپ کا ولی اور مددگار ہے ان کا باہمی تعاون آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ وجبرئیل و صالح المومنین عکرمہ اور سعید بن جبیریل نے کہا : صالح المومنین سے مراد حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق تھے کیونکہ حضرت ابوبکر حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت عمر حضرت حفصہ کے والد تھے۔ دونوں ان دونوں کے خلاف رسول اللہ ﷺ کے مددگار تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد نیک مومن ہیں۔ صالح اسم جنس ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : والعصر۔ ان الانسان لفی خسر۔ (العصر) یہ طبری کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : صالح المومنین سے مراد انبیاء ہیں، یہ علاء بن زید، قتادہ اور سفیان کا قول ہے۔ ابن زید نے کہا : مراد ملائکہ ہیں۔ سدی نے کہا : مراد حضرت محمد ﷺ کے صحابہ ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : صالح المومنین اصل میں واحد کا صیغہ نہیں۔ اصل میں صالحوا المومنین تھا۔ صالحین کو مومنین کی طرف مضاف کیا اسے وائو جمع کے بغیر لکھا گیا کیونکہ اس صورت میں واحد اور جمع کا صیغہ ایک ہے جس طرح مصحف میں ایسی اشیاء آتی ہیں جن میں لفظ کا حکم متنوع ہوتا ہے، خط کی وضع متنوع نہیں ہوتی۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے مجھے بیان کیا جب نبی کریم ﷺ نے اپنی عورتوں سے علیحدگی اختیار کی (1) ۔ حضرت عمر نے کہا : میں مسجد میں داخل ہوگیا تو لوگ زمین پر کنکریاں مار رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ یہ حکم حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔ میں نے کہا : آج میں ضرور جانوں گا۔ میں حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس گیا، میں نے کہا : اے ابوبکر کی بیٹی ! کیا تجھے اپنے عمل کے بارے میں یہ خبر پہنچی ہے کہ تو رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیتی ہے۔ حضرت عائشہ نے کہا : اے ابن خطاب ! تیرا مجھ سے کیا واسطہ ! تجھے اپنی بیٹی کی خبر لینی چاہئے۔ حضرت عمر نے کہا : میں حضرت حفصہ کے پاس گیا۔ میں نے اس سے کہا : اے حفصہ ! کیا تجھے اپنے عمل کے بارے میں یہ خبر پہنچی ہے کہ تو رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیتی ہے۔ اللہ کی قسم ! تو خوب جانتی ہے کہ رسول اللہ تجھ سے محبت نہیں کرتے۔ اگر میں نہ ہوتا تو آپ ﷺ تجھے طلاق دے دیتے۔ حضرت حفصہ بڑی شدت سے روئیں۔ میں نے اس سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کہاں ہیں ؟ حضرت حفصہ نے کہا : وہ اپنے چوبارہ میں ہیں۔ میں داخل ہوا تو میں رسول اللہ ﷺ کے غلام رباح کے پاس تھا جو چوبارہ کی دہلیز پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنی دونوں ٹانگیں اس لکڑی پر لٹکائے ہوئے تھا جس میں سوراخ کیا گیا تھا۔ یہ ایسی لکڑی تھی جس کے سہارے سے رسول اللہ ﷺ اوپر چڑھتے اور نیچے اترتے تھے۔ میں نے آواز دی : اے رباح ! رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی مجھے اجازت لے دو ۔ رباح نے کمرہ کی طرف دیکھا، پھر میری طرف دیکھا اور کچھ بھی نہ کہا۔ پھر میں نے کہا : اے رباح ! میرے لئے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت طلب کرو۔ رباح نے کمرے کی طرف دیکھا، پھر میری طرف دیکھا اور کچھ بھی نہ کہا۔ پھر میں نے بلند آواز سے کہا : اے رباح ! میرے لئے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت طلب کرو۔ میں گمان کرتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیال فرمایا : میں حضرت حفصہ کے مسئلہ میں بات کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ اللہ کی قسم ! اگر رسول اللہ مجھے حفصہ کی گردن اڑانے کا حکم دیتے تو میں اس کی گردن اڑا دیتا۔ میں نے اپنی آواز کو بلند کیا۔ رباح نے مجھے اشارہ کیا کہ میں اوپر آ جائوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا جبکہ آپ چٹائی پر پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ میں بیٹھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے تہبند کو درست کیا جبکہ آپ کے جسم پر کوئی اور کپڑا نہ تھا جبکہ چٹائی آپ کے پہلو پر نشان چھوڑ گئی تھی۔ میں نے رسول اللہ کے کمرے میں نظر دوڑائی تو وہاں صاع بھر جو پڑے تھے اور کمرہ کی ایک جانب اتنے ہی قرظ درخت کے پتے تھے اور ایسا چمڑہ لٹکا ہوا تھا جس کی دباغت مکمل نہ ہو۔ حضرت عمر نے کہا : میری آنکھوں سے جلدی آنسو رواں ہوگئے۔ فرمایا : ” اے ابن خطاب ! تجھے کیا چیز رلاتی ہے ؟ “ میں نے عرض کی : اے اللہ کے نبی ! میں کیوں نہ روئوں ؟ اس چٹائی نے آپ ﷺ کے پہلو میں نشان چھوڑے ہیں اور یہ کمرہ، میں اس میں دیکھتا ہوں جو کچھ دیکھتا ہوں وہ قیصر و کسریٰ پھلوں اور نہروں میں رہتے ہیں جبکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اس کے چنے ہوئے ہیں اور یہ آپ ﷺ کی کل جمع پونجی ہے۔ فرمایا : ” اے ابن خطاب ! کیا تو اس پر راضی نہیں کہ ہمارے لئے آخرت ہو اور ان کے لئے دنیا ہو “۔ میں نے عرض کی : کیوں نہیں۔ کہا : جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو میں نے آپ ﷺ کے چہرہ میں غصہ و غضب کے آثار دیکھے تھے۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! عورتوں کے معاملہ میں کیا چیز آپ کو پریشان کرتی ہے، اگر آپ ﷺ نے انہیں طلاق دے دی ہے تو اللہ تعالیٰ ، فرشتے، جبریل، میکائیل، میں، ابوبکر اور مومنین آپ ﷺ کے ساتھ ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں میں نے بہت ہی کم گفتگو کی مگر میں امید رکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے قول کی تصدیق فرمائے گا تو یہ آیت اور آیت تخییر نازل ہوئی : عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن (التحریم : 5) وان تظھرا علیہ فان اللہ ھو مولہ و جبریل و صالح المومنین والمئکۃ بعد ذلک ظہیر۔ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ دوسری ازواج مطہرات کے خلاف باہم تعاون کیا کرتی تھیں۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! کیا آپ ﷺ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ فرمایا : ” نہیں “۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! میں مسجد میں داخل ہوا جبکہ لوگ کنکریاں زمین پر مار رہے تھے۔ وہ کہہ تھے : رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ کیا میں نیچے اتروں اور انہیں خبر دوں کہ آپ ﷺ نے انہیں طلاق نہیں دی ؟ فرمایا : ” ہاں اگر تو چاہے “۔ میں لگاتار آپ ﷺ سے باتیں کرتا رہا یہاں تک کہ غصہ آپ ﷺ کے چہرے سے دور ہوگیا۔ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوئے اور آپ ﷺ ہنس پڑے۔ آپ ﷺ کے دندان مبارک سب سے حسین تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ نیچے اترے اور میں بھی نیچے اترا۔ میں نیچے اتراجب کہ اس لکڑی کا سہارا لے رہا تھا اور رسول اللہ ﷺ اترے گویا آپ زمین پر چل رہے ہوں۔ آپ اس کے ساتھ ہاتھ کا سہارا نہیں لے رہے تھے۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! آپ ﷺ کمرہ میں انتیس دن رہے۔ فرمایا : مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔ میں مسجد کے دروازے پر کھڑا ہوگیا تو میں نے بلند آواز سے ندا دی : رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی اور یہ آیت نازل ہوئی : واذا جائھم امر من الامن او الخوف اذا عوابہ و لو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم (النسائ : 83) میں وہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے اس امر کا استنبطاط کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے آیت تخییر کو نازل فرمایا۔ وجبریل اس میں کئی لغتیں ہیں جس کا ذکر سورة بقرہ میں ہوچکا ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس کا عطف مولہ پر ہو معنی ہوگا اللہ تعالیٰ اس کا ولی ہے اور جبریل اس کا ولی ہے۔ مولہ پر وقف نہیں کیا جائے گا جبریل پر وقف ہوگا۔ صالح المومنین مبتدا ہے اور الملئکۃ کا اس پر عطف ہے اور ظھیر اس کی خبر ہے اور جمع کے معنی میں ہے۔ صالح المومنین سے مراد حضرت ابوبکر صدیق ہیں، یہ مسیب بن شریک کا قول ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : مراد حضرت عمر ہیں۔ عکرمہ نے کہا : حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ہیں۔ شقیق نے حضرت عبد اللہ سے دو نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آیت میں صالح المومنین سے مراد حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ مراد حضرت علی شیر خدا ہیں۔ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ” صالح المومنین سے مراد حضرت علی شیر خدا ہیں “۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ جبریل مبتدا ہو ما بعد اس کا معطوف ہو اور خبر ظہیر ہو۔ یہ جمع کے معنی میں ہو۔ اس تعبیر کی بنا پر مولہ پر وقف ہوگا اور والمئکۃ بعد ذلک ظہیر مبتدا اور خبر ہو اور ظہیر کا معنی مددگار ہو، یہ ظہراء کے معنی میں ہو جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وحسن اولئک رفیقا (النسائ) ابو علی نے کہا : فعیل کا وزن کثرت کے لئے استعمال ہوا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ولا یسئل حمیم حمیما۔ یبصرونھم (المعارج) ایک قول یہ کیا گیا ہے، دونوں ازواج کا باہمی تعاون نبی کریم ﷺ سے نفقہ کے مطالبہ میں تھا، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے ایک ماہ تک الگ رہنے کی قسم اٹھائی اور آپ ﷺ الگ رہے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے (1) ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے۔ آپ رسول اللہ کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت چاہتے تھے۔ آپ نے لوگوں کو پایا کہ وہ دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔ حضرت ابوبکر صدیق کو اجازت ملی تو وہ داخل ہوگئے، پھر حضرت عمر حاضر ہوئے۔ انہوں نے اجازت لی تو آپ کو بھی اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو پایا کہ آپ کی ازواج آپ ﷺ کے گرد خاموش بیٹھی تھیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : میں ضرور ایسی بات کروں گا جس کے ذریعے حضور ﷺ کو ہنسا دوں گا۔ عرض کی : یا رسول اللہ ! اگر بنت خارجہ مجھ سے نفقہ کا مطالبہ کرتی تو میں اس کی طرف اٹھتا تو میں اس کی گردن دبوچ لیتا۔ رسول اللہ ﷺ ہنس دیئے۔ فرمایا : ” یہ میرے اردگرد جمع ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو یہ مجھ سے نفقہ کا سوال کرتی ہیں ‘۔ حضرت ابوبکر صدیق حضرت عائشہ کی طرف اٹھے تاکہ اس کی گردن دبا دیں۔ حضرت عمر حضرت حفصہ کی گردن دبانے کے لئے اٹھے۔ دونوں کہہ رہے تھے : تم رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کا مطالبہ کرتی ہو جو ان کے پاس نہیں۔ سب نے عرض کی : اللہ کی قسم ! ہم رسول اللہ ﷺ سے کبھی بھی کسی ایسی چیز کا سوال نہیں کریں گی جو ان کے پاس نہ ہو۔ پھر رسول اللہ ﷺ انتیس دن تک ان سے الگ تھلگ رہے، پھر یہ آیت نازل ہوئی یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا و زینتھا فتعالین امتعکن واسر حکن سراحا جمیلا۔ وان کنتن تردن اللہ و رسولہ والدار الاخرۃ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجرا عظیما۔ (الاحزاب) میں اس کا ذکر ہے۔
Top