Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 202
اُولٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمْ : ان کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا وَاللّٰهُ : اور اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کی کمائی کے باعث ثواب کا حصہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بڑی جلدی حساب لیتا ہے3
3 پھر جب تم اپنے حج کے افعال سے فارغ ہوجائو اور اعمال حج کو پورا کرچکو تو اللہ تعالیٰ کا خوب ذکر کیا کرو یہ ذکر اسی طرح ہو جس طرح تم حج سے فارغ ہوکر اپنے آبائو اجداد کا ذکر کیا کرتے ہو بلکہ یہ ذکر ان کے ذکر سے بھی بڑھ کر ہونا چاہئے پھر ان لوگوں میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں اور ان الفاظ کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار جو کچھ تم تجھے دینا ہے ہم کو تو دنیا ہی میں دیدیے اور ایسے لوگوں کے لئے جو قیامت اور آخرت کے منکر ہیں آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور یہ وہاں کی ہر نعمت سے محروم ہیں اور لوگوں میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو یوں دعا مانگتے ہیں اور دعا میں یوں کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہم کو دنیا میں بھی بہتری اور بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ہم کو خوبی اور بھلائی مرحمت فرما اور ہم کو آگ کے عذاب یعنی دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ سو یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال و افعال کے باعث دونوں جہاں میں بڑا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی جلدی حساب لینے والا ہے۔ (تیسیر) مناسک سے مراد حج کے اعمال و افعال ہیں جیسا پہلے پارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذکر میں گذرا ہے وارنا مناسکنا حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جمعۃ الوداع میں فرمایا تھا خذدا عنی مناسککم یعنی مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ موسم حج میں عرب کا دستور تھا کہ حج سے فارغ ہوکر منا میں بازار لگاتے اور اپنے باپ دادوں کی بڑائیاں بیان کیا کرتے کوئی کہتا میرا باپ کھانا بہت کھلاتا تھا کوئی کہتا میرا باپ لوگوں کا بار اٹھا لیا کرتا تھا۔ لوگوں کا خوں بہا ادا کردیا کرتا تھا۔ سوائے اپنے آبائو اجداد کے ذکر کے ان کا اور کوئی کام نہ ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا کہ منا میں جب تک ٹھہرو خدا کا ذکر کیا کرو اور اپنے باپ داد کے ذکر کو ترک کردو۔ بہرحال اس تاریخ کو جمرئہ عقبیٰ کی رمی اور سر منڈوانے قربانی سے فارغ ہونے کے بعد طواف زیارت اور صفا و مرہ کی سعی سے فارغ ہو کر جتنے دن منا میں گذارو اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو جیسا کہ تفصیل آگے کی آیت میں آتی ہے اور یہ جو فرمایا کہ بعض لوگ دنیا ہی میں سب کچھ چھاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض کافر ذکر تو اللہ تعالیٰ کا کیا کرتے تھے لیکن آخرت پر ایمان نہ رکھتے تھے۔ اس لئے ان کا ذکر اور ان کی دعائیں صرف دنیا کے لئے ہوتی تھیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو بتادیا کہ جن لوگوں کا نصب العین دنیا ہی دنیا ہے اور آخرت کے منکر ہیں وہ قیامت میں ہر نعمت سے محروم ہوں گے اور ان کا وہاں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ دوسری آیت میں اچھے بندوں کی دعا فرمائی کہ وہ دنیا میں بھی حسنہ مانگتے ہیں اور آخرت میں بھی حسنہ طلب کرتے ہیں۔ حضرت انس ؓ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مسلمان کی عیادت کو تشریف لے گئے جو سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو نے کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے یا تو کچھ مانگا کرتا ہے۔ اس نے عرض کیا ہاں رسول اللہ ؐ میں یہ دعا کیا کرتا ہوں۔ اللھم ما کنت معاقبی بہ فی الاخرۃ فعجلہ فی الدنیا یعنی یا اللہ جو سزا تو نے میرے لئے آخرت میں تجویز کی ہے وہ مجھ کو دنیا ہی میں دے دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ مجھ کو اس سزا کی اور اس عقاب کی طاقت اور استطاعت کہاں ہے تو نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کیوں نہیں مانگی۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں اس نے یہ دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا عنایت فرمائی۔ ابن م اجہ نے ابوہریرہ ؓ سے اور امام شافعی (رح) نے ابن ابی السائب سے نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ دو رکنوں کے درمیان گذرتے تھے تو یہی دعا پڑھتے تھے۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ میں کسی رکن پر نہیں گذرا مگر میں نے وہاں ایک فرشتے کو دیکھا جو لوگوں کی دعا پر آمین کہتا ہے سو تم لوگ جب دونوں رکنوں کے درمیان گذرا کرو تو یہدعا کیا کرو۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ دنیا میں حسنۃ سے مراد بہت سی باتیں ہوسکتی ہیں یہ لفظ بہت ہی جامع ہے ہر قسم کی خیر کو شامل ہے۔ اکثر مفسرین نے اعمال خیر کی توفیق کہا ہے اور بعض حضرات نے یوں تفسیر کی ہے کہ وہ حالت جو تیرے نزدیک بہتر اور مستحسن ہو اور جس حالت کو تو پسند کرتا ہو اے پروردگار ! وہ عنایت کردے۔ اگرچہ لفظ حسنہ سے دنیوی نعمتیں اور دنیوی منافع بھی مراد لئے جاسکتے ہیں لیکن وہ مقصود بالذات نہیں ہیں اور نہ ان کو مطلوب بالذات سمجھناچاہئے اور آخرت میں حسنہ سے مراد ثواب اور رحمت ہے۔ اولک لھم نصیب مما کسبوا کے بھی دو طرح معنی کئے گئے ہیں ہم نے من کو سبیبہ قرار دے کر معنی کئے ہیں دوسری تقدیر پر معنی یوں ہوں گے یہی وہ لوگ ہیں جن کو اپنی کمائی میں سے حصہ ملنے والا ہے اسی طرح سریع الحساب کے بھی دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ عنقریب ہی حساب لینے والا ہے یعنی اگرچہ حساب قیامت میں ہوگا لیکن قیامت قریب ہی ہے اس لئے حساب جلدی ہونے والا ہے اور ایک مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حساب لینے اور حساب کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ ادھر شروع کیا اور ادھر ختم۔ واللہ اعلم (تسہیل)
Top