Al-Qurtubi - Al-Baqara : 202
اُولٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمْ : ان کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا وَاللّٰهُ : اور اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
یہی لوگ ہیں جن کے لئے ان کاموں کا حصہ (یعنی اجر نیک تیار) ہے اور خدا جلد حساب لینے والا (اور جلد اجر دینے والا) ہے
آیت نمبر 202 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اولٰئک لھم نصیب مما کسبوا یہ فریق ثانی کی طرف راجع ہے۔ یعنی اسلام کے فریق کی طرف۔ یعنی ان کے لئے حج کا ثواب ہے یا دعا کا ثواب ہے۔ بیشک مومن کی دعا عبادت ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اولٰئک کا مرجع دونوں فریق ہیں مومن کے لئے اس کے عمل اور دعا کا ثواب ہے اور کافر کے لئے اس کے شرک کی سزا اور دنیا پر اس کی نظر کا منحصر ہونے کا وبال ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مثل ہے : ولکل درجٰت مما عملوا (انعام :132) مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واللہ سریع الحساب یہ سرع یسرع سرعا وسرعة سے مشتق ہے جیسے عظم یعظم، اس کا اسم فاعل سریع ہے۔ الحساب محاسبه کی طرح مصدر ہے۔ محسوب کو حساب کا نام دیا جاتا ہے الحساب کا معنی شمار کرنا ہے : حسب یحسب حساباً وحسابة وحسبانا وحسباناً وحسباً یعنی شمار کرنا۔ ابن الاعرابی نے کہا : یاجمل اسقاک بلا حسابه سقیا ملیک حسن الربابة قتلتنی بالدل والخلابة اور الحسب، انسان کے مفاخر جو شمار کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : حسنه دینهٰ ۔ کہا جاتا ہے : حسبه ماله، اسی سے حدیث ہے : الحسب المال والکرم التقوی۔ (حسب مال ہے اور کرم تقویٰ ہے) اس حدیث کو حضرت سمرہ بن جندب نے روایت کیا ہے اور اسے ابن ماجہ نے نقل کیا ہے اور یہ الشہاب میں بھی ہے۔ الرجل حسیب وقد حسب حسابة جیسے خطب خطابة۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والا ہے۔ وہ شمار اور عقد اور فکر کو عمل میں لانے کا محتاج نہیں ہے جیسا کہ حساب لگانے والے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے فرمایا : کفیٰ بنا حسابین رسول اللہ ﷺ نے دعا کی : اللھم منزل الکتاب سریع الحساب (الحدیث) اللہ تعالیٰ بندوں کے لئے جو کچھ ان کے حق میں ہے اسے جانتا ہے اور جو ان کے خلاف ہے اسے بھی جانتا ہے اسے غورو فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے جو محاسب کے لئے ہے اور جو اس کے خلاف ہے کیونکہ حساب میں فائدہ اس کی حقیقت کا علم ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ بندوں کو ان کے اعمال کی بہت جلد جزا دینے والا ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کو ایک کام دوسرے کام سے غافل نہیں کرتا۔ وہ ایک حالت میں ان کا محاسبہ کرے گا جیسا کہ فرمایا اور اس کا قول حق ہے : ما خلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃٍ (لقمان :28) حسن نے کہا : اس کا حساب آنکھ جھپکنے سے بھی زیادہ تیز ہے۔ خبر میں ہے اللہ تعالیٰ بکری دوہنے کی دیر سے حساب لے لے گا۔ بعض نے فرمایا : وہ جب ایک حساب لے گا تو تمام مخلوق کا حساب لے چکا ہوگا۔ کسی نے حضرت علی ؓ سے پوچھا : اللہ تعالیٰ ایک دن میں بندوں کا کیسے محاسبہ فرمائے گا ؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا : جیسے ایک دن میں انہیں رزق دیتا ہے۔ حساب کا معنی ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کے مطابق جزا کی تقادیر کو جانتا ہے اور انہیں وہ چیزیں یاد دلاتا ہے جو وہ بھول چکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یوم یبعثھم اللہ جمیعا فینبئھم بما عملوا احصٰه اللہ ونسوہ (المجادلہ :6) بعض علماء نے فرمایا : آیت کا معنی ہے وہ حساب کے دن کو جلدی لانے والا ہے۔ اس آیت سے مقصود قیامت کے دن سے ٖڈرانا ہے۔ میں کہتا ہوں : ہر مفہوم کا احتمال ہے۔ انسان اپنے لئے صالحہ کے ساتھ حساب کی تخفیف کو لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں حساب میں تخفیف فرمائے گا اس پر جو دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: حضرت ابن عباس نے اولٰئک لھم نصیب مماکسبوا وہ شخص جو مال لیتا ہے اور کسی دوسرے کی طرف سے حج کرتا ہے تو اسے ثواب ملتا ہے۔ حضرت ابن عباس سے یہ اس آیت کے تحت مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا : یارسول اللہ ! میرا والد فوت ہوگیا ہے اور اس نے حج نہیں کیا میں اس کی طرف سے حج کروں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اگر تیرے والد پر فرضہ ہوتا اور تو اسے ادا کرتا تو کیا وہ جائز ہوتا ؟ اس نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا فرض ادا کرنے کا زیادہ حقدار ہے۔ اس شخص نے کہا : کیا اس میں میرے لئے اجر ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : اولٰئک لھم نصیب مما کسبوا۔ یعنی جو میت کی طرف سے حج کرے تو اس کے اور میت کے درمیان اجر ہوگا۔ ابو عبداللہ محمد بن خویز منداد نے احکام میں فرمایا : حضرت ابن عباس کا قول امام مالک کے قول کی طرح ہے کیونکہ امام مالک کے مذہب کا حاصل یہ ہے کہ جس کی طرف سے حج کیا گیا ہے اس کو خرچ کا ثواب ملے گا اور جاجی کو حج کا ثواب ملے گا، گویا اسے اس کے بدن اور اعمال کو ثواب ملے گا اور جس کی طرف سے حج کیا گیا ہے اسے مال اور خرچ کا ثواب ملے گا۔ اسی وجہ سے ہم نے کہا : اس میں جس نے پہلے حج کیا ہوا ہو یا نہ کیا ہوا ہو حکم مختلف نہیں ہے۔ (یعنی پہلے جس نے حج نہ کیا ہوا ہو وہ حج بدل کرسکتا ہے) کیونکہ وہ اعمال جن میں نیابت ہوسکتی ہے ان میں جس کو نائب بنایا گیا ہے اس کا حکم مختلف نہیں ہے۔ اس نے پہلے اپنا وہ فریضہ ادا کیا ہوا ہو نہ کیا ہوا ہو اس میں دین ودنیا کے اعمال کا ہم نے اعتبار کیا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ شخص جس پر زکوٰۃ ہو یا کفارہ ہو یا کوئی اور واجب ہو وہ کسی غیر کی طرف سے ادا کرسکتا ہے اگرچہ اپنا کفارہ ادا نہ بھی کیا ہو۔ اسی طرح جس نے دنیا میں اپنے مصالح کی رعایت نہ کی ہو اس کی مثل مصالح میں غیر کا نائب بننا صحیح ہے۔ پس وہ غیر کے لئے مکمل ہوگا اگرچہ اس کے لئے مکمل نہ ہوگا۔ آدمی دوسرے کا نکاح کرسکتا ہے اگرچہ اپنا نکاح نہ بھی کیا ہو۔ تم ترجمة الجزء الثانی من تفسیر القرطبی 29 رمضان المبارک 1427 ھ الحمدللہ رب العالیمن والعاقبة للمتقین والصلوةوالسلام علی سید المرسلین
Top