Maarif-ul-Quran - An-Noor : 19
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ١ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحِبُّوْنَ : پسند کرتے ہیں اَنْ : کہ تَشِيْعَ : پھیلے الْفَاحِشَةُ : بےحیائی فِي الَّذِيْنَ : میں جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے (مومن) لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
جو لوگ چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں ان کے لئے عذاب ہے درد ناک دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ، اس آیت میں پھر ان لوگوں کی مذمت اور ان پر دنیا و آخرت کے عذاب کی وعید ہے۔ جنہوں نے اس تہمت میں کسی طرح کا حصہ لیا۔ اس آیت میں یہ بات زیادہ ہے کہ جو الگ ایسی خبریں مشہور کرتے ہیں گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بدکاری اور فواحش پھیل جائیں۔
انسداد فواحش کا قرآنی نظام اور ایک اہم تدبیر جس کے نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج کل فواحش کی کثرت ہے
قرآن حکیم نے فواحش کے انسداد کا یہ خاص نظام بنایا ہے کہ اول تو اس قسم کی خبر کہیں مشہور نہ ہونے پاوے اور شہرت ہو تو ثبوت شرعی کے ساتھ ہو تاکہ اس شہرت کے ساتھ ہی مجمع عام میں حد زنا اس پر جاری کر کے اس شہرت ہی کو سبب انسداد بنادیا جائے اور جہاں ثبوت شرعی نہ ہو وہاں اس طرح کی بےحیائی کی خبروں کو چلتا کردینا اور شہرت دینا جبکہ اس کے ساتھ کوئی سزا نہیں طبعی طور پر لوگوں کے دلوں سے بےحیائی اور فواحش کی نفرت کم کردینے اور جرائم پر اقدام کرنے اور شائع کرنے کا موجب ہوتی ہے جس کا مشاہدہ آج کل کے اخبارات میں روزانہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں ہر روز ہر اخبار میں نشتر ہوتی رہتی ہیں۔ نوجوان مرد اور عورتیں ان کو دیکھتے رہتے ہیں روزانہ ایسی خبروں کے سامنے آنے اور اس پر کسی خاص سزا کے مرتب نہ ہونے کا لازمی اور طبعی اثر یہ ہوتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ فعل خبیث نظروں میں ہلکا نظر آنے لگتا ہے اور پھر نفس میں ہیجان پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے ایسی خبروں کی تشہیر کی اجازت صرف اس صورت میں دی ہے جبکہ وہ ثبوت شرعی کے ساتھ ہو اس کے نتیجہ میں خبر کے ساتھ ہی اس بےحیائی کی ہولناک پاداش بھی دیکھنے سننے والوں کے سامنے آجائے اور جہاں ثبوت اور سزا نہ ہو تو ایسی خبروں کی اشاعت کو قرآن نے مسلمانوں میں فواحش پھیلانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ کاش مسلمان اس پر غور کریں۔ اس آیت میں ایسی خبریں بلا ثبوت مشہور کرنے والوں پر دنیا و آخرت دونوں میں عذاب الیم ہونے کا ذکر ہے۔ آخرت کا عذاب تو ظاہر ہے کہ قیامت کے بعد ہوگا جس کا یہاں مشاہدہ نہیں ہوسکتا مگر دنیا کا عذاب تو مشاہدہ میں آنا چاہئے سو جن لوگوں پر حد قذف (تہمت کی سزا) جاری کردی گئی ان پر تو دنیا کا عذاب آ ہی گیا اور اگر کوئی شخص شرائط اجراء حد موجود نہ ہونے کی وجہ سے حد قذف سے بچ نکلا تو وہ دنیا میں بھی فی الجملہ مستحق عذاب تو ٹھہرا آیت کے مصداق کے لئے یہ بھی کافی ہے۔
Top