Maarif-ul-Quran - At-Tahrim : 4
اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا١ۚ وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ
اِنْ تَتُوْبَآ : اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف فَقَدْ صَغَتْ : تو تحقیق کج ہوگئے ۔ جھک پڑے قُلُوْبُكُمَا : تم دونوں کے دل وَاِنْ تَظٰهَرَا : اور اگر تم ایک دوسرے کی مدد کرو گی عَلَيْهِ : آپ کے خلاف فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ : وہ مَوْلٰىهُ : اس کامولا ہے وَجِبْرِيْلُ : اور جبرائیل وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور صالح اہل ایمان وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد ظَهِيْرٌ : مددگار
اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو تو جھ پڑے ہیں دل تمہارے اور اگر تم دونوں چڑھائی کرو گی اس پر تو اللہ ہے اس کا رفیق اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے اور فرشتے اس کے پیچھے مددگار ہیں
(آیت) اِنْ تَتُوْبَآ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا، ازواج مطہرات میں سے جن دو کا اجمالی ذکر اوپر آیا ہے کہ انہوں نے باہم مشورہ کرکے آنحضرت ﷺ کے شہد پینے پر ایسا طرز اختیار کیا جس سے آپ نے شہد پینے سے قسم کھالی اور پھر آپ نے اسکے اخفاء کے لئے فرمایا تھا وہ اخفاء نہیں کیا بلکہ ایک نے دوسری پر بات کھول دی۔ یہ دو کون ہیں انکے متعلق صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس کی ایک طویل روایت ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ عرصہ تک میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ میں ان دو عورتوں کے متعلق عمر بن خطاب سے دریافت کروں جن کے متعلق قرآن میں آیا ہے اِنْ تَتُوْبَآ اِلَى اللّٰهِ ، یہاں تک ایک موقع آیا کہ عمر بن خطاب حج کے لئے نکلے اور میں بھی شریک سفر ہوگیا۔ دوران سفر میں ایک روز عمر بن خطاب قضاء حاجت کے لئے جنگل کی طرف تشریف لے گئے اور واپس آئے تو میں نے وضو کے لئے پانی کا انتظام کر رکھا تھا میں نے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ اور وضو کراتے ہوئے میں نے سوال کیا کہ یہ دو عورتیں جن کے متعلق قرآن میں ان تتوبا آیا ہے کون ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا آپ سے تعجب ہے کہ آپ کو خبر نہیں یہ دونوں عورتیں حفصہ اور عائشہ ہیں۔ اسکے بعد حضرت عمر نے اپنا ایک طویل قصہ اس واقعہ سے متعلق ذکر فرمایا جس میں اس واقعہ کے پیش آنے سے پہلے کے کچھ حالات بھی بیان فرمائے جن کی پوری تفصیل تفسیر مظہری میں ہے۔ آیت میں مذکورہ میں ان دونوں ازواج مطہرات کو مستقل خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ اگر تم توبہ کرو جیسا کہ اس واقعہ کا تقاضا ہے کہ تمہارے دل حق سے مائل ہوگئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی محبت اور آپکی رضا جوئی ہر مومن کا فرض ہے مگر تم دونوں نے باہم مشورہ کرکے ایسی صورت اختیار کی جس سے آپ کو تکلیف پہنچی یہ ایسا گناہ ہے کہ اس سے توبہ کرنا ضروری ہے اور آگے فرمایا۔
وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ الآیة، اس میں یہ بتلادیا کہ اگر تم نے توبہ کرکے رسول اللہ ﷺ کو راضی نہ کیا تو یہ نہ سمجھو کہ آپ کو کوئی نقصان پہنچے گا کیونکہ آپ کا تو اللہ مولیٰ اور کفیل ہے اور جبرئیل امین اور سب نیک مسلمان اور ان کے بعد سب فرشتے، جس کی رفاقت واعانت پر سب لگے ہوں اس کو کوئی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نقصان وضرر جو کچھ ہے تمہارا ہی ہے آگے انہیں کے متعلق فرمایا۔
Top