Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَهٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا
فَلَمَّا : پھر جب بَلَغَا : وہ دونوں پہنچے مَجْمَعَ : ملنے کا مقام بَيْنِهِمَا : دونوں کے درمیان نَسِيَا : وہ بھول گئے حُوْتَهُمَا : اپنی مچھلی فَاتَّخَذَ : تو اس نے بنا لیا سَبِيْلَهٗ : اپنا راستہ فِي الْبَحْرِ : دریا میں سَرَبًا : سرنگ کی طرح
پھر جب وہ دونوں پہنچ گئے ان دونوں دریاؤں کے سنگم پر، تو وہ بھول گئے اپنی مچھلی کو، اور اس نے دریا میں ایک سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا،
112۔ مچھلی کو بھول جانے کا قصہ اور اس میں درس عبرت :۔ سو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم دونوں اس مچھلی کو بھول گئے جس کو وہ بھون کر علامت کے طور پر اپنے ساتھ لائے تھے کہ جس جگہ یہ زندہ ہوجائے گی اسی مقام پر وہ ہستی موجود ہوگی جس سے ملنے کیلئے آپ یہ سفر کررہے تھے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے۔ ورنہ نہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھی کو علامت کی ضرورت ہوتی اور نہ ہی بعد میں اس کے بھولنے کا سوال پیدا ہوتا۔ مگر افسوس کہ قرآن وسنت کی ایسی بیشمار صاف وصریح نصوص کے باوجود اہل بدعت کا کہنا ہے کہ پیغمبر عالم غیب ہوتے ہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر ان لوگوں کا یہ بھی کہنا اور ماننا ہے کہ ان کے پیر فقیر حضرات بھی غیب جانتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر کے اس قصہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں نہ مختار کل اور نہ ہر جگہ حاضر وناظر۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top