Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 62
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا١٘ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا
فَلَمَّا : پھر جب جَاوَزَا : وہ آگے چلے قَالَ : اس نے کہا لِفَتٰىهُ : اپنے شاگرد کو اٰتِنَا : ہمارے پاس لاؤ غَدَآءَنَا : ہمارا صبح کا کھانا لَقَدْ لَقِيْنَا : البتہ ہم نے پائی مِنْ : سے سَفَرِنَا : اپنا سفر هٰذَا : اس نَصَبًا : تکلیف
پھر جب وہ دونوں وہاں سے آگے چلے گئے، تو موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا کہ لاؤ ہمارا ناشہ، ہم تو اس سفر میں بری طرح تھک گئے ہیں،
113۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تھکاوٹ اور صورت حال سے اطلاع و آگہی :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ہم تو اپنے اس سفر میں سخت تھگ گئے ہیں “۔ روایات میں وارد ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب اس مقام پر آگے گذر گئے تو ان کو تکان محسوس ہونے لگی۔ اس سے پہلے ایسے نہیں تھا۔ تب آپ نے اس طرح فرمایا۔ اور یوں یہ سفر تھا بھی کافی لمبا اور مشقت طلب۔ کیونکہ ” مجمع البحرین “ کے اس مقام مقصود سے گزرنے کے بعد وہ دونوں بقیہ پورا دن چلتے رہے اور اگلی رات بھی۔ اور اگلے روز صبح کے وقت جب سورج کافی اوپر چلا گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھوک محسوس ہوئی اور آپ نے اپنے خادم سے کھانا لانے کو کہا تو تب ان کو یاد آیا کہ وہ مچھلی تو زندہ ہو کر پانی میں چلی گئی تھی۔ (المراغی، المعارف وغیرہ ) ۔ سو اس سے یہ حقیقت مزید ظاہر اور واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں نہ مختار کل۔ اور نہ ہر جگہ حاضر وناظر۔ ورنہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر کو یہ ساری صورت حال پیش نہ آتی۔
Top