Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 20
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۚ
قُلْ : فرما دیں سِيْرُوْا : چلو پھرو تم فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ بَدَاَ : کیسے ابتدا کی الْخَلْقَ : پیدائش ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ يُنْشِئُ : اٹھائے گا النَّشْاَةَ : اٹھان الْاٰخِرَةَ : آخری (دوسری) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
آپ کہیے تم لوگ زمین میں چلو پھرو، پھر اس پر نظر کرو اللہ نے کس طرح مخلوق کو اول بار پیدا کیا، پھر اللہ پچھلی بار بھی پیدا کرے گا بیشک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،20۔
20۔ (خلق اول پر بھی اور عادہ خلق پر بھی) (آیت) ” اولم یروا۔ دعوت استدلال غور وفکر سے ہے۔ انسان اگر صرف اپنی ذات ہی میں، اپنے نیست سے ہست ہوجانے ہی پر غور کرے تو یہ حق تعالیٰ کی قوت ایجاد وابداع پر اعتقاد پیدا کردینے کے لیے کافی ہے۔ (آیت) ” سیروا فی الارض “۔ دعوت استدلال مشاہدات مادی سے ہے۔ انسان اگر دوسری مخلوقات کے عجائبات پر نظر کرتا رہتے تو اللہ تعالیٰ کی ہر قدرت کا کلمہ پڑھ اٹھے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ (آیت) ” سیروا فی الارض “۔ ان اہل طریق کا مستدل ہے جنہوں نے راہ سیاحی اختیار کی ہے۔ یہ گھوم پھر کر احوال خلق سے عبرت حاصل کرتے ہیں اور اس میں ان کی اور بھی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ مثلا یہ کہ مخلوق سے تعلقات میں کمی ہو اور زندگی، گمنامی، کسمپرسی، بےنشانی میں بسر ہو اور معصیتوں کے اسباب ہی پر دسترس کم سے کم ہوجائے۔
Top