Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 49
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا
فَوَجَدَا : پھر دونوں نے پایا عَبْدًا : ایک بندہ مِّنْ : سے عِبَادِنَآ : ہمارے بندے اٰتَيْنٰهُ : ہم نے دی اسے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے علم دیا اسے مِنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے عِلْمًا : علم
(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا
فوجدا عبدا من عبادنا (وہاں) ان دونوں نے ہمارے ایک بندہ کو پایا۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ خضر تھے صحیح حدیث میں یہی آیا ہے خضر کا نام بلیا بن ملکان یا الیسع یا الیاس کہا گیا ہے ‘ خضر لقب تھا اس لقب کی وجہ بغوی نے ہمام ابن منبہ کی روایت کو قرار دیا ہے۔ ہمام راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خضر کو خضر کہنے کی یہ وجہ تھی کہ خضر جب خشک زمین یا خشک گھاس پر بیٹھ جاتے تو وہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی تھی۔ مجاہد نے کہا جس جگہ خضر نماز پڑھتے تھے اس کے گرداگرد سبزہ ہی سبزہ ہوجاتا تھا۔ بغوی نے خضر کو اسرائیلی نسل سے قرار دیا ہے کسی نے کہا شاہزادہ تھے جو تارک الدنیا ہوگئے تھے۔ حضرت مفسر نے فرمایا میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ خضر اسرائیلی نہیں تھے۔ ورنہ موسیٰ ( علیہ السلام) کا اتباع کرنا ان پر لازم ہوتا ‘ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے۔ صحیح حدیث بھی اوپر ذکر کی جا چکی ہے کہ خضر کے سوال کے جواب میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا میں موسیٰ ( علیہ السلام) ہوں خضر نے کہا بنی اسرائیل والے موسیٰ ‘ حضرت موسیٰ نے کہا جی ہاں۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے چت لیٹا ہے ‘ کپڑے کا کچھ حصہ سر کے نیچے دبا ہے اور کچھ ٹانگوں کے نیچے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس وقت خضر وسط سمندر میں ایک جھالر دار سبز مند بچھائے نماز پڑھ رہے تھے۔ اتینہ رحمۃ من عندنا جس کو ہم نے اپنی طرف سے رحمت (یعنی نبوت اور وحی) عطا کی تھی۔ وعلمنہ من لدنا علما۔ اور ہم نے اپنے پاس سے اس کو علم سکھایا تھا یعنی ایسا علم دیا تھا جو صرف ہمارے لئے خاص تھا ‘ بغیر ہماری توفیق کے اس کا حاصل ہونا ناممکن تھا ‘ اس جگہ علماً سے مراد ہے ذات وصفات کا علم۔ بغوی نے لکھا ہے اکثر علماء خضر کو نبی تسلیم نہیں کرتے ‘ حضرت مفسر نے فرمایا میرے نزدیک علماء کا یہ قول غور طلب ہے کیونکہ اولیاء کو جو علم الہام سے حاصل ہوتا ہے وہ ظنی ہوتا ہے یقینی نہیں ہوتا (قرینہ سے اس کو الہام رحمانی کہا جاسکتا ہے لیکن ہوسکتا ہے وہ القاء شیطانی ہو خصوصاً ایسی صورت میں کہ وہ تعلیم شریعت کے خلاف ہو اس صورت میں تو اس کا القاء شیطانی ہونا تقریباً یقینی ہوتا ہے۔ مترجم) یہی وجہ ہے کہ الہامی علوم باہم متعارض اور مختلف ہوتے ہیں۔ اب اگر خضر کا نبی نہ ہونا مان لیا جائے تو کیا جواب ہوگا ‘ معصوم بچہ کو بےقصور قتل کردینے کا محض اس وجہ سے کہ خضر کو الہام سے معلوم ہوگیا کہ ماں باپ اس کی محبت میں پڑ کر گناہگار اور بےراہ ہوجائیں گے اس لئے اس کو قتل کردیا جائے (یہ الہام تو شریعت کے خلاف تھا ‘ پھر خضر نے اس پر عمل کیوں کیا ‘ مترجم)
Top