Tafseer-e-Usmani - Al-Kahf : 65
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا
فَوَجَدَا : پھر دونوں نے پایا عَبْدًا : ایک بندہ مِّنْ : سے عِبَادِنَآ : ہمارے بندے اٰتَيْنٰهُ : ہم نے دی اسے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے علم دیا اسے مِنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے عِلْمًا : علم
پھر پایا ایک بندہ ہمارے بندوں میں کہ جس کو دی تھی ہم نے رحمت اپنے پاس سے اور سکھلایا تھا اپنے پاس سے ایک علم2
2 وہ بندہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے۔ جن کو حق تعالیٰ نے رحمت خصوصی سے نوازا اور اسرار کونیہ کے علم سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت خضر کو رسول مانا جائے یا نبی یا محض ولی کے درجہ میں رکھا جائے۔ ایسے مباحث کا فیصلہ یہاں نہیں ہوسکتا۔ تاہم احقر کا رجحان اسی طرف ہے کہ ان کو نبی تسلیم کیا جائے اور جیسا کہ بعض محققین کا خیال ہے کہ جو انبیاء جدید شریعت لے کر نہیں آتے ان کو بھی اتنا تصرف و اختیار عطاء ہوتا ہے کہ مصالح خصوصیہ کی بناء پر شریعت مستقلہ کے کسی عام کی تخصیص یا مطلق کی تقیید یا عام ضابطہ سے بعض جزئیات کا استثناء کرسکیں۔ اسی طرح جزئی تصرفات حضرت خضر کو بھی حاصل تھے، واللہ اعلم۔ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) خضر سے ملے۔ علیک سلیک کے بعد خضر نے پوچھا۔ موسیٰ نے آنے کا سبب بتلایا۔ خضر نے کہا اے موسیٰ ! بلاشبہ اللہ نے تمہاری تربیت فرمائی۔ پر بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ایک علم (جزئیات کونیہ کا) مجھ کو ملا ہے جو (اتنی مقدار میں) تم کو نہیں ملا۔ اور ایک علم (اسرار تشریع کا) تم کو دیا گیا ہے جو (اتنی بہتات سے) مجھ کو نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد ایک چڑیا دکھا کر جو دریا میں سے پانی پی رہی تھی، کہا کہ میرا، تمہارا بلکہ کل مخلوقات کا سارا علم اللہ کے علم میں سے اتنا ہے جتنا دریا کے پانی میں سے وہ قطرہ جو چڑیا کے منہ کو لگ گیا ہے (یہ بھی محض تفہیم کے لیے تھا ورنہ متناہی کو غیر متناہی سے قطرہ اور دریا کی نسبت بھی نہیں)
Top