Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 66
وَ لَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰۤى اَعْیُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى یُبْصِرُوْنَ
وَلَوْ نَشَآءُ : اور اگر ہم چاہیں لَطَمَسْنَا : تو مٹا دیں (ملیا میٹ کردیں) عَلٰٓي : پر اَعْيُنِهِمْ : ان کی آنکھیں فَاسْتَبَقُوا : پھر وہ سبقت کریں الصِّرَاطَ : راستہ فَاَنّٰى : تو کہاں يُبْصِرُوْنَ : وہ دیکھ سکیں گے
اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر (اندھا کر) دیں۔ پھر یہ رستے کو دوڑیں تو کہاں دیکھ سکیں گے
ولو نشآء لطمسنا علی اعینھم فاستبقوا الصراط فانی یبصرون اور اگر ہم چاہتے تو (دنیا میں ہی) ان کی آنکھوں کو ملیا میٹ کردیتے پھر وہ (دیکھے ہوئے) راستہ کی طرف دوڑتے پھرتے ‘ مگر ان کو (دیکھا ہوا راستہ بھی) کہاں دکھائی پڑتا۔ یعنی ان ظاہری آنکھوں کو ایسا مٹا دیتے کہ نہ پپوٹہ کا نشان رہتا ‘ نہ آنکھوں کا شگاف ‘ طمس کا یہی معنی ہے الصراط یعنی وہ راستہ جس پر چلنے کے وہ عادی ہیں۔ فَاَنّٰی یُبْصِرُوْنَ استفہام انکاری ہے ‘ یعنی ان کو راستہ نہ سوجھتا۔ بغوی نے لکھا ہے : یہ تفسیر حسن اور سدی نے کی ‘ لیکن حضرت ابن عباس ‘ قتادہ ‘ مقاتل اور عطاء (کے نزدیک اعین سے مراد ہیں گمراہی کی آنکھیں اور طمس اعین سے مراد ہے ان آنکھوں کا نکال دینا اور گمراہی کی آنکھوں کو ہدایت کی طرف پھیر دینا۔ ان بزرگوں) کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ان کی گمراہی کی آنکھوں کو نکال باہر کردیتے اور گمراہی کی طرف سے ان کو نابینا کردیتے اور ضلالت سے ہدایت کی طرف ان کی نگاہوں کو پھیر دیتے ‘ پھر ان کو ضلالت کا راستہ نہ سوجھتا لیکن ہم نے ایسا کرنا نہ چاہا ‘ اب کہاں راہ ہدایت ان کو نظر آسکتی ہے۔
Top