Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 65
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اَلْيَوْمَ : آج نَخْتِمُ : ہم مہر لگا دیں گے عَلٰٓي : پر اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ وَتُكَلِّمُنَآ : اور ہم سے بولیں گے اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَتَشْهَدُ : اور گواہی دیں گے اَرْجُلُهُمْ : ان کے پاؤں بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : وہ تھے يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے تھے)
آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (اس کی) گواہی دیں گے
الیوم نختم علی افواھھم تکلمنا ایدیھم وتشھدا رجلھم بما کانوا یکسبون . اس روز ہم ان کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور جو کچھ وہ دنیا میں کرتے تھے ‘ اس کی شہادت ان کے پاؤں دیں گے۔ حضرت انس کا بیان ہے : ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے ‘ آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے مسکرا رہا ہوں ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی جانے۔ فرمایا : مجھے اس بات پر مسکراہٹ آئی کہ ایک بندہ اپنے رب سے کہے گا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے ظلم کرنے سے پناہ نہیں دے رکھی ہے (یعنی کیا تو نے یہ نہیں فرما دیا ہے کہ کسی پر قیامت کے دن ظلم نہیں کیا جائے گا) ۔ اللہ فرمائے گا : کیوں نہیں۔ بندہ عرض کرے گا : تو میں اپنے خلاف کسی کی شہادت نہیں مانوں گا سوائے اس گواہ کے جو میرے ہی بدن کا حصہ ہو۔ اللہ فرمائے گا : آج تیرا نفس اور کراماً کاتبین (اعمالنامے لکھنے والے فرشتے) تیرے خلاف شہادت دینے کیلئے کافی ہیں۔ پھر اللہ اس کے منہ پر مہر لگا دے گا اور اعضاء کو حکم دے گا : تم بولو۔ حسب الحکم اعضاء ‘ بندہ کے اعمال کے متعلق بولیں گے۔ اس کے بعد بندے کو (زبان سے) گویائی کی اجازت دے دی جائے گی اور وہ اپنے اعضاء سے کہے گا : تم مرجاؤ ‘ مٹ جاؤ ‘ تمہاری طرف سے ہی تو میں دفاع کر رہا تھا (مسلم) ۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ فرمایا : دوپہر کے وقت جب کہ کوئی بدلہ نہ ہو ‘ تم کو سورج کے دیکھنے میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : چودھویں کی رات کو جبکہ کوئی ابر نہ ہو ‘ تم کو چاند کے دیکھنے میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم کو اپنے رب کے دیکھنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ‘ مگر اتنی جتنی سورج اور چاند کو دیکھنے میں ہوتی ہے۔ پھر اللہ بندے سے فرمائے گا : اے فلاں شخص ! کیا میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی ؟ کیا تجھے سردار نہیں بنا دیا تھا ؟ کیا تجھے تیرا جوڑا نہیں دیا تھا ؟ کیا گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے حکم کا تابع نہیں بنا دیا تھا ؟ کیا تجھے سیادت (سرداری) نہیں دی تھی ؟ کیا تجھے مال غنیمت کی چوتھائی کا مستحق نہیں بنایا تھا ؟ بندہ عرض کرے گا : کیوں نہیں ‘ اے میرے رب ! (تو نے یہ سب کچھ مجھے دیا تھا) اللہ فرمائے گا : کیا تیرے گمان یہ تھا کہ مجھ سے آکر ملے گا ؟ بندہ عرض کرے گا : نہیں۔ اللہ فرمائے گا : جس طرح تو مجھے بھولا رہا ‘ اسی طرح میں بھی تجھے (دوزخ میں ڈال کر) بھولا بسرا کر دوں گا۔ پھر اللہ دوسرے بندے سے ملاقات کرے گا اور اس سے بھی یہی فرمائے گا اور وہ یہی جواب دے گا ‘ پھر تیسرے سے ملاقات کرے گا اور اس سے بھی یہی فرمائے گا ‘ وہ عرض کرے گا : میں تجھ پر ‘ تیری کتاب پر اور تیرے رسول پر ایمان لایا تھا اور نمازیں پڑھی تھیں ‘ روزے رکھے تھے ‘ زکوٰۃ دی تھی ‘ غرض جس قدر کرسکے گا ‘ اپنی تعریف کرے گا۔ اس سے کہا جائے گا : کیا ہم تیرے خلاف گواہ کھڑا کردیں ؟ وہ شخص اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے خلاف کس کو گواہ بنایا جائے گا۔ پھر اللہ اس کے منہ پر مہر لگا دے گا اور اس کی راہ سے فرمائے گا : تو بات کر۔ حسب الحکم اس کی ران ‘ گوشت اور ہڈی اس کے اعمال جو کچھ ہوں گے ‘ بتائیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ شخض منافق ہوگا جو اپنی طرف سے (جھوٹے) عذر پیش کرے گا اور اسی پر اللہ کا غضب ہوگا (مسلم) ۔ طبرانی نے اور امام احمد نے کھری سند سے حضرت عقبہ بن عامر کی مرفوع حدیث بیان کی ہے کہ جس روز منہ پر مہر لگا دی جائے گی ‘ اس روز سب سے پہلے جو ہڈی کلام کرے گی وہ بائیں ٹانگ کی راہ ہوگی۔ احمد اور نسائی اور حاکم اور بیہقی نے معاویہ بن حیدہ کی روایت سے بیان کی ہے کہ قیامت کے دن تم ایسی حالت میں آؤ گے کہ تمہارے منہ پر مہیرا (وہ ان بند) چڑھا ہوگا اور سب سے پہلے آدمی کی ران اور ہتھیلی بات کرے گی۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت موسیٰ اشعری کی روایت سے بیان کیا ہے : قیامت کے دن ‘ مؤمن کو حساب کیلئے طلب کیا جائے گا اور اس کا رب تخلیہ میں اس کے اعمال اس کے سامنے لائے گا۔ مؤمن اقرار کرے گا اور عرض کرے گا : میرے رب ! میں نے (ایسا) کیا تھا ‘ میں نے ایسا کیا تھا۔ اللہ اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور معاف فرما دے گا اور روئے زمین پر اس کے کسی گناہ کی کسی مخلوق کو اطلاع نہ ہوگی اور اس کی نیکیاں لوگوں پر ظاہر ہوں گی ‘ سب لوگ نیکیاں ہی دیکھیں گے اور کافر و منافق کو جب حساب کیلئے طلب کیا جائے گا اور اس کا رب اس کے عمل سامنے لائے گا تو وہ ان اعمال کا انکار کر دے گا اور عرض کرے گا : اے میرے رب تیری عزت کی قسم ! اس فرشتہ نے میرے خلاف وہ اعمال لکھ دئیے ہیں جو میں نے نہیں کئے تھے۔ اللہ فرمائے گا : تو نے فلاں (فلاں) عمل فلاں (فلاں) جگہ کیا تھا۔ کافر و منافق کہے گا : تیری عزت کی قسم ! میں نے نہیں کیا۔ جب وہ اس طرح انکار کر دے گا تو اللہ اس کے منہ پر مہر لگا دے گا۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا : میرے خیال ہے کہ (حضور ﷺ نے فرمایا :) سب سے پہلے اس کی سیدھی ران بولے گی۔ پھر آپ نے آیت اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَھِھِمْ الخ تلاوت فرمائی۔ ابویعلٰی اور حاکم نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگا تو کافر کو اس کے اعمال پر عار دلائی جائے گی۔ وہ انکار کرے گا اور جھگڑا کرے گا۔ حکم دیا جائے گا کہ قسم کھاؤ۔ کافر قسمیں کھائیں گے ‘ پھر اللہ ان کو خاموش کر دے گا اور انہی کی زبانوں سے ان کے خلاف شہادت دلوائے گا ‘ پھر ان کو دوزخ میں ڈال دے گا۔
Top