Tafseer-e-Mazhari - At-Talaaq : 6
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰى یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ١ۚ وَ اْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ١ۚ وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰىؕ
اَسْكِنُوْهُنَّ : بساؤ ان عورتوں کو مِنْ حَيْثُ : جہاں سَكَنْتُمْ : تم رہتے ہو مِّنْ وُّجْدِكُمْ : اپنی دست کے مطابق وَلَا تُضَآرُّوْهُنَّ : اور نہ تم ضرر پہنچاؤ ان کو لِتُضَيِّقُوْا : تاکہ تم تنگ کرو۔ تنگی کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر وَاِنْ كُنَّ : اور اگر ہوں اُولَاتِ حَمْلٍ : حمل والیاں فَاَنْفِقُوْا : تو خرچ کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر حَتّٰى يَضَعْنَ : یہاں تک کہ وہ رکھ دیں حَمْلَهُنَّ : حمل اپنا فَاِنْ اَرْضَعْنَ : پھر اگر وہ دودھ پلائیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَاٰتُوْهُنَّ : تو دے دو ان کو اُجُوْرَهُنَّ : ان کے اجر وَاْتَمِرُوْا : اور معاملہ کرو بَيْنَكُمْ : آپس میں بِمَعْرُوْفٍ : بھلے طریقے سے وَاِنْ : اور اگر تَعَاسَرْتُمْ : آپس میں کشمش کرو تم فَسَتُرْضِعُ : تو دودھ پلا دے لَهٗٓ اُخْرٰى : اس کے لیے کوئی دوسری
عورتوں کو (ایام عدت میں) اپنے مقدور کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کے لئے تکلیف نہ دو اور اگر حمل سے ہوں تو بچّہ جننے تک ان کا خرچ دیتے رہو۔ پھر اگر وہ بچّے کو تمہارے کہنے سے دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو۔ اور (بچّے کے بارے میں) پسندیدہ طریق سے مواقفت رکھو۔ اور اگر باہم ضد (اور نااتفاقی) کرو گے تو (بچّے کو) اس کے (باپ کے) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی
اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم ولا تضاروھن لتضیقوا علیھن وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتی یضعن حملھن . ” تم ان (مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو ‘ جہاں تم رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کیلئے (اسکے بارے میں) تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو وضع حمل تک ان کو (کھانے ‘ پینے کا) خرچ دو ۔ “ اَسْکِنُوْھُنَّ : اس جملہ کا ربط لا تخرجوھن سے ہے۔ ھن کی ضمیر مطلقہ عورتوں کی طرف راجع ہے ‘ جن کا ذکر شروع سورت میں آیا ہے۔ مطلقات رجعیہ ہوں یا بائنہ ‘ آزاد ہوں یا باندیاں ‘ نابالغ ہوں یا جوان یا سن ایاس کو پہنچی ہوئی۔ سب کے لیے یہی حکم ہے۔ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ : من زائد ہے یعنی جہاں تم رہتے ہو یا تبعیضیہ ہے یعنی جہاں تم رہتے ہو اس کے کچھ حصہ میں یعنی مفسرین کے نزدیک من بمعنی فی ہے جیسے : مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ ۔ مِنْ وُّجْدِکُمْ : اپنی وسعت کے موافق جو تمہارے لیے قابل برداشت ہو۔ وَلَا تُضَآرُّوْھُنَّ.... یعنی ان کو تنگ کرنے کے لیے مسکن کا دکھ نہ پہنچاؤ ‘ تنگ کرنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً مکان ایسا ہو جو ان کے لیے مناسب نہ ہو یا دوسرے لوگ اس میں بھرے ہوئے ہوں اور وہ تمام نامناسب اسباب جن کی وجہ سے عورتیں اس مکان سے نکل جانے پر مجبور ہوجائیں۔ وَاِنْ کُنَّ اُوْلاَتُ حُمْلٍ..... باجماع علماء مطلقہ رجعیہ اپنے شوہر سے عدت کا خرچ لینے کی بھی مستحق ہے اور مسکن لینے کی بھی۔ اگر مکان شوہر کی ملک ہو اور طلاق سے رجوع کرنا نہ چاہتا ہو تو عدت کے پورے زمانہ میں خود گھر سے نکل آنا اور مطلقہ کے لیے مکان خالی کردینا واجب ہے اور اگر مکان کرائے کا ہو تو کرایہ ادا کرنا شوہر کے ذمہ لازم ہے اور اگر مطلقہ بائنہ ہو خواہ خلع کرنے کی وجہ سے یا تین طلاقوں کی وجہ سے یا لعان کی وجہ سے یا کنائی الفاظ بولنے کی وجہ سے بہرحال مسکن دنیا امام ابوحنیفہ (رح) اور اکثر علماء کے نزدیک ضروری ہے عورت حاملہ ہو یا نہ ہو کیونکہ آیت اسکنوھن عام ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ اور حسن ؓ اور شعبی ؓ کے نزدیک معتدہ بائنہ کو مسکن دنیا شوہر پر لازم نہیں۔ کیا معتدہ بائنہ کو مصارف عدت دینا لازم ہیں ؟ حضرت ابن عباس ‘ حسن ؓ اور شعبی ؓ نے کہا نفقۂ عدت بائنہ کا لازم نہیں۔ ہاں ! اگر حاملہ ہو تو ضروری ہے۔ عطاء ‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے کیونکہ اس آیت کا مفہوم شرط یہی ہے اس کے علاوہ فاطمہ بنت قیس کا واقعہ ہے کہ ان کے شوہر ابو عمرو بن حفص نے جب کہ وہ شام کے سفر کو گئے تھے ان کو قطعی طلاق دے دی اور ان کے وکیل نے کچھ جو (بطور نفقہ) فاطمہ کو بھجوائے ‘ فاطمہ کو غصہ آگیا (اور انہوں نے یہ حقیر نفقہ لینا پسند نہیں کیا) وکیل نے کہا : واللہ تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں ہے (یعنی تمہارا نفقہ عدت ہمارے مؤکل پر لازم نہیں ہے) فاطمہ یہ سن کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور واقعہ عرض کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس پر تیرا نفقۂ عدت لازم نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ ام شریک کے گھر فاطمہ عدت کرے پھر فوراً یہ بھی فرمایا کہ امّ شریک کے گھر تو میرے صحابی جاتے رہتے ہیں تو ابن ام مکتوم کے گھر عدت بسر کرلے۔ وہ نابینا ہے ‘ تو وہاں اپنے کپڑے (چادر وغیرہ) اتار سکے گی۔ جب عدت ختم ہوجائے تو مجھے اطلاع دینا۔ فاطمہ کا بیان ہے عدت سے آزاد ہونے کے بعد میں نے حضور ﷺ والا سے عرض کیا : میرے پاس معاویہ بن ابو سفیان اور ابو جہم کے پیغام نکاح آئے ہیں (حضور ﷺ کا کیا حکم ہے ؟ ) ارشاد فرمایا : ابوجہم کے کندھے پر ہر وقت ڈنڈا رہتا ہے ‘ اسکے کاندھے سے تو ڈنڈا نیچے اترتا ہی نہیں اور معاویہ خود مفلس محتاج ہے (تیرا خرچ کہاں سے برداشت کرے گا ‘ اس لیے دونوں کو چھوڑ اور) اُسامہ بن زید سے نکاح کرلے ‘ مجھے یہ بات پسند نہیں آئی ‘ حضور ﷺ نے پھر (مکرر) فرمایا : اسامہ سے نکاح کرلے۔ میں نے ان سے نکاح کرلیا ‘ اللہ نے اس نکاح میں مجھے ایسی برکت عطا فرمائی کہ مجھے پر رشک کیا جانے لگا۔ (رواہ مسلم) مسلم کی ہی دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا : (یعنی فاطمہ ؓ سے) تجھے نہ عدت کے خرچ کا استحقاق ہے ‘ نہ مسکن کا۔ مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے کہ ابن مغیرہ ‘ حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ کہیں (سفر پر) نکلے (سفر کی حالت میں ہیں) ابن مغیرہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس کو ایک طلاق کہلا بھیجی یہ طلاق گزشتہ طلاقوں کا تتمہ تھی (یعنی دو طلاقیں پہلے دے چکے تھے ‘ یہ تیسری طلاق تھی) جس روایت میں تین طلاقیں بھیجنے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد بھی یہی ہے کہ یہ تیسری طلاق تھی جو گزشتہ دو طلاقوں کا تتمہ تھی۔ حارث بن ہشام اور عباس بن ربیعہ نے کچھ (معمولی حقیر) نفقہ فاطمہ کو بھیجا فاطمہ کو بڑی ناگواری ہوئی اور غصہ آیا ‘ بھیجنے والوں نے کہا : خدا کی قسم تجھے کسی نفقہ کا استحقاق نہیں ‘ ہاں ! اگر تو حاملہ ہو تو (نفقہ کا استحقاق ہوگا) فاطمہ نے اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تیرے لیے نفقہ (کا استحقاق) نہیں ہے۔ مسلم کی ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ابو حفص بن مغیرہ نے اس کو تین طلاقیں دے دیں اور یمن کو چلے گئے۔ ابو حفص کے گھر والوں نے فاطمہ سے کہا ہم پر تیرا نفقہ لازم نہیں ہے۔ چناچہ خالد بن ولید چند آدمیوں کو ساتھ لے کر امّ المؤمنین حضرت میمونہ ؓ کے گھر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ (الحدیث) امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : مطلقہ حاملہ ہو یا نہ ہو اس کی عدت کا خرچ شوہر پر لازم ہے اور اس قول کا ثبوت اسی آیت سے ہو رہا ہے کیونکہ مِنْ وُّجْدِکُمْ کا تعلق ایک محذوف فعل سے ہے۔ پورا کلام اس طرح تھا : وَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ مَنْ وُّجْدِکُمْ : اپنی وسعت کے بموجب عورتوں کو نفقۂ عدت دو ) کیونکہ مسکن کی کیفیت اور نوعیت تو مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ.... میں بیان کردی گئی ہے پھر اگر مِنْ وُّجْدِکُمْ کا تعلق اَسْکِنُوْھُنَّ سے مانا جائے گا تو کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت ابن مسعود کی قراءت میں اَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ کا لفظ آیا بھی ہے جو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک قابل استدلال ہے ‘ کسی حکم کا مفہوم (مخالف) قابل استدلال نہیں اور یہ بات کہ اولات حمل کے لیے انفاق کا حکم دیا گیا (جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حاملہ نہ ہوں تو ان کا نفقہ لازم نہیں ہے) تو یہ محض تاکید کے لیے شرط لگائی گئی ہے اور اس خیال کو دفع کرنا مقصود ہے کہ شاید معتدہ حاملہ کے لیے نفقہ لازم نہ ہو کیونکہ حمل کی مدت طویل ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے عدت کی مدت طویل ہوجائے گی اور تین ماہ یا تین حیض کا گزر جانا کافی نہیں ہوگا۔ حضرت فاطمہ کی حدیث اگرچہ صحیح سند سے آئی ہے لیکن شاذ ہے ‘ قابل قبول نہیں ‘ سلف نے اس کو قبول نہیں کیا۔ اس کے علاوہ یہ معارض و مضطرب بھی ہے ‘ اضطراب تو یہ ہے کہ بعض روایات میں آیا ہے طلقھا و ھو غائب اور دوسری روایت میں آیا ہے طلقھا ثم سافر۔ تیسری روایت میں ہے کہ ذھبت الی رسول اللہ ﷺ و سألتہ۔ ایک روایت میں ہے : ان خالد بن ولید ذھب فی سفر فسالوہ رسول اللہ ﷺ ۔ ایک روایت میں شوہر کا نام ابو عمرو بن حفص آیا ہے ‘ دوسری روایت میں ابو حفص بن مغیرہ کہا گیا ہے۔ اکابر صحابہ کی عادت نہیں تھی کہ کسی حدیث پر اس وجہ سے طعن کرتے کہ اس کی راویہ کوئی عورت ہے یا کوئی اعرابی راوی ہے۔ دیکھو ! حضرت ابو سعید کی بہن حضرت قریعہ بنت مالک کی روایت میں بیوہ کے لیے شوہر کے مکان میں عدت گزارنے کی حدیث منقول ہے اور صحابہ ؓ نے اس حدیث کو معتبر قرار دیا ہے باوجودیکہ قریعہ معروف عورت نہیں صرف اسی حدیث کی وجہ سے ان کا نام ذکر کیا جاتا ہے ‘ اس کے برخلاف فاطمہ بنت قیس کی روایت کو قابل وثوق نہیں قرار دیا گیا۔ حضرت عمر ؓ نے تنہا ضحاک بن سفیان کلابی کی خبر کا اعتبار کیا حالانکہ ضحاک اعرابی تھے۔ سب سے پہلے حضرت عمر ؓ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت کو قبول نہیں کیا۔ مسلم نے صحیح میں لکھا ہے کہ ابو اسحاق نے کہا میں اسود بن زید کے ساتھ بڑی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے ساتھ شعبی بھی تھے۔ شعبی نے فاطمہ بنت قیس کی روایت بیان کی کہ فاطمہ نے بیان کیا ‘ میرے لیے رسول اللہ ﷺ نے نہ جائے سکونت کا حق منظور فرمایا نہ عدت کا خرچ۔ اسود نے جونہی شعبی کی روایت کردہ یہ حدیث سنی فوراً مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کر شعبی کے منہ پر ماریں اور کہا : ایسی حدیث بیان کرتے ہو جس کے متعلق حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا ہم اپنے رب کی کتاب اور رسول کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے ترک نہیں کرسکتے۔ معلوم نہیں اس کو یاد بھی رہا یا (رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کو) بھول گئی (بلاشبہ) اس کے لیے حق سکونت بھی ہے اور مصارف عدت بھی۔ اللہ نے صراحت کردی ہے اور فرما دیا ہے : لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ الاّآاَنْیَّاتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍٍ مُّبَیِنَّۃٍ ۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت فاطمہ کی حدیث کو رد کردیا اور فرما دیا کہ حسب فرمان رسول اللہ ﷺ اس کے لیے حق سکونت بھی ہے اور نفقہ بھی۔ اگر کوئی معمولی صحابی بھی کسی عمل کے متعلق کہے کہ یہ سنت ہے تو وہ بھی قابل قبول ہے۔ حضرت عمر ؓ کا تو ذکر ہی کیا ‘ آپ تو ماہر سنن و شرائع تھے۔ طحاوی اور دارقطنی کی روایت میں لفظ سمعت رسول اللہ ﷺ یقول للمطلقۃ ثلٰثا النفقۃ والسکنٰی آیا ہے۔ یہ روایت صریحاً مرفوع ہے اور حدیث فاطمہ کے صریحی خلاف ہے۔ سعید بن منصور نے بروایت معاویہ بحوالہ اعمش از ابراہیم بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ کے سامنے جب حدیث فاطمہ کا ذکر کیا گیا تو فرمایا : ایک عورت کی شہادت سے ہم اپنے دین میں تغیر نہیں کرسکتے۔ حضرت عمر ؓ کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ ؓ کے نزدیک تین طلاقوں والی عورت کے لیے استحقاق نفقہ ‘ عدت و مسکن مشہور تھا (کوئی اس کا مخالف نہیں تھا) ۔ امّ المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کے پاس عورتیں بکثرت آتی تھیں اور آپ کی وساطت سے رسول اللہ ﷺ سے مسائل دریافت کرتی تھیں ‘ اس لیے آپ کو عورتوں کے حالات سے بہت زیادہ واقفیت تھی۔ حدیث فاطمہ کی آپ نے بھی تردید کی تھی۔ شیخین نے صحیحین میں تردید کی ہے کہ حضرت عروہ نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا : دیکھئے حکم کی فلاں بیٹی کو اس کے شوہر نے قطعی طلاق دے دی اور وہ اپنے گھر چلی گئی۔ امّ المؤمنین ؓ نے فرمایا : اس نے برا کیا۔ عروہ نے کہا : کیا آپ نے فاطمہ کا قول نہیں سنا کہ (مطلقہ قطعیہ کے لیے استحقاق مسکن نہیں ہے) فرمایا : فاطمہ کے لیے اس بات کا ذکر کرنے میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ بخاری نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فاطمہ سے کہا : تم کو یہ کہنے میں اللہ کا خوف نہیں ہوتا کہ (مطلقہ قطعیہ کے لیے) نہ حق سکونت ہے ‘ نہ عدت کے مصارف۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ جو رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے انہوں نے بھی فاطمہ کے قول کی تردید کی تھی ‘ عبداللہ بن صالح نے کہا مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا اور لیث سے جعفر نے اور جعفر سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے اور ابو سلمہ سے محمد بن اسامہ ؓ نے کہ فاطمہ حضرت اسامہ کے سامنے اس بات کا یعنی مطلقہ کے لیے انتقال سکونت کا کچھ ذکر کرتی تھیں تو اسامہ کے ہاتھ میں اس وقت جو کچھ ہوتا تھا فاطمہ کے پھینک مارتے تھے۔ حضرت اسامہ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے فاطمہ سے نکاح کرلیا تھا۔ آپ فاطمہ کے حالات سے خوب واقف تھے اس کے باجودد جو آپ فاطمہ کے اس بیان کی اتنی شدت سے مخالفت کرتے تھے تو اس کی وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ آپ فاطمہ کے بیان کو غلط جانتے تھے یا فاطمہ کے لیے انتقال مسکن کے جواز کو کسی خاص سبب کے زیر اثر خیال کرتے تھے ‘ مثلاً چوری کا یا وہاں رہنے سے کسی اور بات کا خصوصی اندیشہ ہوگا (اس لیے فاطمہ کو انتقال مکانی کا حکم دیا گیا) ۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ لیث نے بروایت عقیل از ابن شہاب از ابو سلمہ بن عبدالرحمن بیان کیا کہ فاطمہ نے ختم عدت سے پہلے (رسول اللہ ﷺ کے حکم سے) شوہر کے مکان سے منتقل ہونے کا ذکر کیا تو لوگوں نے فاطمہ کے بیان کو تسلیم نہیں کیا۔ مسلم نے صحیح میں بیان کیا ہے کہ قبیصہ بن ابی ذویب نے فاطمہ سے جا کر عدم سکنیٰ والی حدیث دریافت کی ‘ فاطمہ نے بیان کردی۔ اس پر مروان نے کہا آپ نے یہ حدیث صرف ایک عورت سے سنی ہے۔ ہم ایک عورت کے کہنے پر اس عصمت کو نہیں چھوڑ سکتے جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے۔ ابن ہمام نے کہا وہ دور صحابہ کا تھا۔ لوگوں سے مراد صحابہ ہی تھے۔ گویا مروان کی مراد اجماع صحابہ ہے اسی لیے عصمت کا لفظ استعمال کیا (کیونکہ اجماع صحابہ معصوم ہے ‘ غلط فیصلہ پر اجماع صحابہ نہیں ہوسکتا) ۔ ابن ہمام نے کہا حضرت زید بن ثابت نے بھی فاطمہ کی روایت کو تسلیم نہیں کیا اور تابعین میں سے ابن مسیب ‘ شریح ‘ شعبی ‘ حسن اور اسود بن یزید نے اور تبع تابعین میں سے ثوری اور احمد بن حنبل اور بکثرت علماء نے اس کو رد کیا ہے ‘ قبول نہیں کیا۔ ‘ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث شاذ ہے۔ رہا اس حدیث کا دوسری حدیثوں سے تعارض تو ایک حدیث تو وہی ہے جو حضرت عمر ؓ نے مرفوعاً بیان کی ہے (جو اوپر ذکر کردی گئی ہے) ۔ دوسری حدیث طبرانی نے معجم میں بیان کی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت عمر ؓ نے فرمایا : مطلقۂ ثلاث (تین طلاق دی ہوئی عورت) کے لیے استحقاق مسکن بھی ہے اور مصارف عدت بھی۔ دارقطنی نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مطلقۂ ثلاث کے لیے مسکن کا استحقاق بھی ہے اور نفقۂ عدت کا بھی۔ ابن معین کے نزدیک اس حدیث کو مرفوع قرار دینا ضعیف ہے۔ ابن معین نے فرمایا اس روایت کو حضرت جابر پر موقوف قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔ فائدہ حضرت فاطمہ بنت قیس کی روایات کو اگر صحیح مان لیا جائے تب بھی اس کی توجیہ اس طرح کی جاسکتی ہے کہ فاطمہ تیز زبان عورت تھیں ‘ شوہر کے بھائیوں سے زبان درازی کرتی تھیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دے دیا تھا کہ اپنے مسکن سے باہر چلی جائیں (اور عدت کہیں باہر گزاریں) ۔ قاضی اسماعیل نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ﷺ نے فاطمہ سے فرمایا : تم کو اس زبان نبی نے (اصل مسکن سے) باہر نکالا۔ سعید بن مسیب نے فرمایا : وہ یعنی فاطمہ بنت قیس نے لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیا تھا۔ بڑی زبان دراز تھیں۔ (رواہ ابوداؤد) مصارف عدت نہ مقرر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ فاطمہ کا شوہر غائب تھا (وطن میں موجود نہیں تھا ‘ سفر میں تھا) اور اس مقدار جو کے سوائے جو فاطمہ کو شوہر کے رشتہ داروں نے بھیجے تھے اور کوئی مال کسی کے پاس اس کے شوہر کا نہیں تھا۔ فاطمہ نے مسلمانوں کے دستور کے مطابق (کہ مطلقہ ثلاث کو نفقہ عدت دینا لازم ہے) شوہر کے گھر والوں سے مطالبہ کیا ‘ کیونکہ شوہر یمن کو چلا گیا تھا اور وہیں سے اس نے طلاق بھیج دی تھی۔ اس لیے عورت نے اپنے نفقہ کا مطالبہ شوہر کے گھر والوں سے کیا ‘ شوہر کے گھر والوں نے کہا : تیرے مصارف عدت کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی ‘ غالباً اس وجہ سے حضور ﷺ نے فرمایا کہ تیرے لیے نہ نفقہ ہے نہ جائے سکونت کیونکہ شوہر نے کسی کے پاس کوئی مال نہیں چھوڑا تھا اور شوہر کے گھر والوں پر اداء نفقہ واجب نہیں تھا۔ فاطمہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مطلب نہیں سمجھیں اور خیال کیا کہ مطلقہ ثلاث کو نہ نفقۂ عدت کا استحقاق ہوتا ہے نہ جائے سکونت کا۔ صحابہ ؓ نے اسی بات کا انکار کیا (اور اس مطلب کو تسلیم نہیں کیا) ۔ مسئلہ بیوہ حاملہ ہو یا نہ ہو اس کے مصارف عدت باتفاق علماء واجب نہیں لیکن ایام عدت گزارنے کے لیے مسکن ضروری ہے یا نہیں ؟ اس امر میں علماء کا اختلاف ہے۔ شافعی کے دو قول ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ مسکن کا اس کو حق نہیں ‘ جہاں چاہے ایام عدت میں رہے۔ حضرت عائشہ ‘ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت علی کا یہی قول ہے۔ حسن نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ جمہور کا قول ہے کہ اس کو استحقاق مسکن ہے۔ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان ‘ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا یہی قول ہے۔ امام مالک ‘ سفیان بن عیینہ ‘ ثوری ‘ امام احمد اور اسحاق نے اسی کو پسند کیا ہے۔ میں کہتا ہوں امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی قول ہے لیکن امام (رح) نے اس کی توضیح اور تفصیل اس طرح کی ہے کہ اگر میت کے مکان میں بیوہ کا حصہ اتنا نہ ہو کہ وہ وہاں رہ کر عدت گزار سکے اور دوسرے ورثہ اس کو اپنے میراثی حصوں میں رہنے کی اجازت نہ دیں اور نکالنے کے در پے ہوں تو وہاں سے منتقل ہوجائے کیونکہ یہ انتقال بعذر ہوگا اور (شرعی) عذر عبادات میں اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ عذر ایسا ہی قابل قبول ہوگا جیسا مکان کے گرنے کا اندیشہ عذر مؤثر ہوتا ہے یا کرایہ کا مکان ہو اور بیوہ کرایہ دینے کی طاقت نہ رکھتی ہو۔ منتقل ہونے کے بعد جہاں ٹھہرے پھر وہاں سے نہ نکلے۔ جمہور کی دلیل حضرت ابو سعیدی خدری کی بہن قریعہ بنت مالک بن سنان والی حدیث ہے جس کا تذکرہ ہم نے سورة بقرہ کی آیت : وِالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ کی تفسیر میں کردیا ہے۔ فان ارضعن .... بمعروف . ” پھر اگر وہ (مطلقہ) عورتیں (وضع حمل یا تکمیل عدت کے بعد) تمہارے (شیر خوار) بچوں کو تمہارے کہنے سے دودھ پلائیں تو ان کی مقررہ اجرت دودھ پلانے کے عوض دے دو اور (اجرت کی بابت) باہم مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو۔ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ : ہم نے سورة بقرہ میں بیان کردیا ہے کہ بچہ کو دودھ پلانا اس کی ماں پر واجب ہے۔ اللہ نے فرما دیا ہے : وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ اور مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں ‘ اس بناء پر اگر کسی کی بیوی یا وہ مطلقہ جو عدت میں ہو اپنے بچے کو دودھ پلانے کی اجرت لیتی ہے تو جائز نہیں۔ فعل واجب کو ادا کرنے کی اجرت لینا ناجائز ہے۔ اسی طرح مطلقہ عورت ختم عدت کے بعد بھی اگر اپنے بچہ کو دودھ پلانے کی اجرت طلب کرتی ہے تو جائز نہیں کیونکہ والْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادِھُنَّ کا حکم عام ہے لیکن فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ میں عطاء اجرت کا حکم چاہتا ہے کہ ماں پر بچہ کو دودھ پلانا اس شرط کے ساتھ واجب ہے کہ بچہ کا باپ بچہ کی ماں کے نفقہ کا کفیل ہو۔ اللہ نے فرما دیا ہے : وَ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوِتُھُنَّ زوجیت کی حالت میں طلاق کے بعد عدت کے زمانہ میں تو مرد عورت کے نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ عدت کے بعد مرد پر عورت کے مصارف کی ذمہ داری نہیں ہوتی ‘ ایسی حالت میں عورت بچہ کو دودھ پلانے کی اجرت لے سکتی ہے۔ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ : یہ خطاب زوجین کو ہے یعنی دونوں فریق مناسب طور پر اچھے طریقہ سے اجرت کا لین دین باہم مشورہ سے کرلیں ‘ ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے کا خواستگار نہ ہو۔ امام شافعی نے وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ کا ترجمہ کیا اور باہم مشورہ کرلو۔ مقاتل نے کہا : معین اجرت پر فریقین کی رضامندی سے۔ بیضاوی نے یہ معنی بیان کیے کہ ایک دوسرے کو دودھ پلانے میں اور اجرت (کی تعین اور ادا) میں حسن سلوک کا مشورہ دیں۔ وان تعاسرتم فسترضع لہ اخری ” اور اگر تم باہم کشمکش کرو گے تو کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے گی وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ : والدین کو خطاب ہے یعنی اگر بچہ کو دودھ پلانا ماں کے لیے بہت دشوار ہو اور وہ دودھ پلانے سے انکار کر دے تو بچہ کا باپ بچہ کی ماں پر جبر نہیں کرسکتا۔ ماں کو معذور قرار دیا جائے گا۔ ماں بچہ پر انتہائی شفقت کرتی ہے ‘ اتنی محبت کے باوجود جب وہ دودھ پلانے سے انکار کرتی ہے تو سمجھا جائے گا کہ واقع وہ معذور و مجبور ہے۔ ایسی صورت میں اگر عورت نے بہانہ کیا ہوگا اور واقع میں وہ معذور و عاجز نہ ہو تو گناہگار ہوگی۔ اگر باپ پر بچہ کی ماں کو اجرت پر دود ھ پلوانا دشوار ہو اور وہ تنگدست ہو اور بلا اجرت یا کم اجرت پر کوئی دوسری عورت دودھ پلانے پر تیار ہو تو غیر عورت سے دودھ پلوایا جائے ‘ باپ کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ اجرت مثل بچہ کی ما کو دے کر اسی سے دودھ پلوائے۔ امام ابوحنیفہ کا یہی فیصلہ ہے۔ ایک روایت میں امام مالک کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ ایک قول امام شافعی کا بھی یہی ہے۔ امام احمد نے فرمایا : صورت مذکورہ میں مرد کو مجبور کیا جائے گا کہ بچہ کی ماں سے ہی دودھ پلوائے اور اس کی اجرت مثل ادا کرے خواہ کوئی دوسری عورت بلا اجرت یا اجرت مثل سے کم اجرت پر دودھ پلانے کے لیے تیار ہو۔ ایک روایت میں مالک کا بھی یہی قول آیا ہے اور یہی امام شافعی کا دو سرا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : فَسَتُرْضِعُ لَہٗ اُخْرٰیٰ میں صراحت کردی گئی ہے کہ صورت مذکورہ میں کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے گی (یعنی دودھ پلائے) یہ ماں پر عتاب ہے کہ باپ کی دشواری اور تنگدستی کی حالت میں بھی وہ اجرت مثل کی طلبگار ہے۔ مسئلہ صورت مذکورہ میں غیر عورت سے دودھ پلوانے کی شرط یہ ہے کہ وہ بچہ کی ماں کے پاس دودھ پلائے ‘ بشرطیکہ بچہ کی ماں نے کسی اور شوہر سے نکاح نہ کیا ہو جو بچہ کے لیے نامحرم ہو کیونکہ حق حضانت بہرحال ماں کو حاصل ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت ہے کہ ایک عورت نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ یہ میرا بچہ ہے ‘ میرا پیٹ اسکا برتن ہے ‘ میری چھاتی اس (کی پیاس بجھانے) کے لیے مشکیزہ ہے اور میری گود اس کی محافظ ہے ‘ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور وہ اس کو بھی مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : جب تک تو نکاح نہیں کرے گی تو اس کی زیادہ مستحق ہے۔ (رواہ ابو داؤد والحاکم) حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ مؤطاء مالک میں مذکور ہے کہ قاسم بن محمد نے کہا : حضرت عمر ؓ کے نکاح میں ایک انصاری عورت تھی جس کے بطن سے عاصم بن عمر پیدا ہوئے ‘ کچھ مدت کے بعد حضرت عمر ؓ نے انصاریہ کو طلاق دے دی۔ ایک مدت کے بعد آپ گھوڑے پر سوار ہو کر قباء کی طرف جا رہے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بچہ مسجد کے صحن میں کھیل رہا ہے ‘ فوراً اس کا بازو پکڑا اور اپنے گھوڑے پر سو ار کر کے لانے لگے۔ بچہ کی نانی نے دیکھ لیا اور بچہ کو چھیننے لگی۔ غرض دونوں حضرت ابوبکر ؓ (خلیفہ اوّل) کے پاس پہنچے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : بچہ عورت کو دے دو ‘ تم مداخلت مت کرو۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر کو کوئی جواب نہیں دیا (اور فیصلہ کی تعمیل کردی) ۔ (کذا روی عبدالرزاق) ابن ابی شیبہ کی روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : اسکا بچہ پر ہاتھ پھیرنا اور عورت کی گود اور اس کی خوشبو (بچہ کے لیے) تم سے زیادہ بہتر ہے یہاں تک کہ بچہ جوان ہوجائے ‘ جوان ہونے کے بعد بچہ کو اختیار ہے کہ ماں کے پاس رہے یا باپ کے پاس۔ مسئلہ اگر ماں دودھ پلانے کا معاوضہ اتنا ہی طلب کرے جتنا کوئی دو سری عورت چاہتی ہے تو اجماعی فیصلہ ہے کہ ماں کو چھوڑ کر دوسری عورت سے دودھ پلوانا جائز نہیں۔
Top