Ahkam-ul-Quran - At-Talaaq : 6
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰى یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ١ۚ وَ اْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ١ۚ وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰىؕ
اَسْكِنُوْهُنَّ : بساؤ ان عورتوں کو مِنْ حَيْثُ : جہاں سَكَنْتُمْ : تم رہتے ہو مِّنْ وُّجْدِكُمْ : اپنی دست کے مطابق وَلَا تُضَآرُّوْهُنَّ : اور نہ تم ضرر پہنچاؤ ان کو لِتُضَيِّقُوْا : تاکہ تم تنگ کرو۔ تنگی کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر وَاِنْ كُنَّ : اور اگر ہوں اُولَاتِ حَمْلٍ : حمل والیاں فَاَنْفِقُوْا : تو خرچ کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر حَتّٰى يَضَعْنَ : یہاں تک کہ وہ رکھ دیں حَمْلَهُنَّ : حمل اپنا فَاِنْ اَرْضَعْنَ : پھر اگر وہ دودھ پلائیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَاٰتُوْهُنَّ : تو دے دو ان کو اُجُوْرَهُنَّ : ان کے اجر وَاْتَمِرُوْا : اور معاملہ کرو بَيْنَكُمْ : آپس میں بِمَعْرُوْفٍ : بھلے طریقے سے وَاِنْ : اور اگر تَعَاسَرْتُمْ : آپس میں کشمش کرو تم فَسَتُرْضِعُ : تو دودھ پلا دے لَهٗٓ اُخْرٰى : اس کے لیے کوئی دوسری
عورتوں کو (ایام عدت میں) اپنے مقدور کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کیلئے تکلیف نہ دو اور اگر حمل سے ہوں تو بچہ جننے تک ان کا خرچ دیتے رہو پھر اگر وہ بچے کو تمہارے کہنے سے دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو اور (بچے کے بارے میں) پسند یدہ طریق سے موافقت رکھو۔ اور اگر باہم ضد (اور نااتفاقی) کرو گے تو (بچے کو) اس کے باپ) کے کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائیگی
طلاق یافتہ عورت کے لئے سکونت مہیا کرنے کا بیان قول باری ہے (اسکنوھن من حیث سکنتم من وجد کم ولا تضارو ھن لتضیقوا علیھن، ان کو (زمانہ عدت) میں اس جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو جیسی کچھ بھی جگہ تم کو میسر ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لئے ان کو نہ ستائو) تاآخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقہاء امصار اور اہل عراق، امام مالک اور امام شافعی سب کا اس پر اتفاق ہے کہ طلاق بائن پانے والی عورت کے لئے بھی سکونت مہیا کرنا واجب ہے جبکہ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ صرف طلاق رجعی پانے والی عورت کے لئے سکونت مہیا کرنا واجب ہے۔ طلاق بائن پانے والی کے لئے کوئی سکونت نہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (فطلقوھن لعدتھن) مطلقہ رجعیہ اور مطلقہ بائنہ دونوں کو شامل ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس عورت کو دو طلاقیں مل چکی ہوں اور اس کے حق میں صرف ایک طلاق باقی ہو۔ اگر شوہر اسے تیسری طلاق دینا چاہے گا تو آیت کی رو سے اس پر اپنی بیوی کو طلاق عدت دینا لازم ہوگا۔ اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (یطلقھا طاھرا من غیر جماع او حا ملا قداستبان حملھا، وہ اسے طہر کی حالت میں طلاق دے گا جس میں ہم بستری نہ ہوئی ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے گا جب کہ اس کا حمل ظاہر ہوچکا ہوگا) ۔ اس حکم کے اندر پہلی طلاق اور تیسری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا جب قول باری (فطلقوھن لعدتھن) مطلقہ بائنہ کو بھی شامل ہے۔ پھر ارشاد ہوا (اسکنو ھن من حیث سکنتم من وجدکم) تو اس کا مطلقہ ، بائنہ اور رجعیہ دونوں کو شامل ہونا واجب ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (لاتدری لعل اللہ یحدث بعد ذلا امرا) نیز ارشاد ہے (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفار قوھن بمعروف) تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ طلاق رجعی مراد ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا آیت زیر بحث جن صورتوں کو شامل ہے مذکور ہ آیات میں اس کی ایک صورت کا ذکر ہے۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود نہیں ہے کہ خطاب کا ابتدائی حصہ صرف طلاق رجعی کے بارے میں ہے۔ طلاق بائن کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس قول باری کی طرح ہے (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) اس میں طلاق رجعی اور بائن دونوں کے لئے عموم ہے۔ پھر قول باری (وبعولتھن احق بردھن اور ان کے شوہر انہیں واپس کرلینے کے زیادہ حقدار ہیں) مطلقہ رجعیہ کے ساتھ مخصوص حکم پر مشتمل ہے لیکن یہ بات قول باری (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروع) کو سب کے لئے عام ہونے کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ نے فاطمہ ؓ بنت قیس کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ ہم اس پر آئندہ سطور میں مطلقہ بائنہ کے نفقہ کے متعلق بحث کے دوران روشنی ڈالیں گے (انشاء اللہ) مطلقہ بائنہ کا نان ونفقہ مطلقہ بائنہ کے نفقہ کے متعلق فقہاء امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ ہر طلاق یافتہ عورت کو نام ونفقہ اور سکونت کی سہولتیں حاصل کرنے کا حق ہے جب تک وہ عدت کے اندر ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے اسی قسم کی روایت ہے۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ طلقہ بائنہ کو نہ تو نفقہ دیا جائے گا اور ناہ ہی اس کے لئے سکونت فراہم کی جائے گی۔ ایک روایت کے مطابق ان کا قول ہے کہ سکونت مہیا کی جائے گی۔ لیکن نفقہ نہیں دیا جائے گا۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ ہر طلاق یافتہ عورت کو نفقہ اور سکونت مہیا کی جائے گی۔ خواہ غیر حاملہ کیوں نہ ہو۔ ان کی رائے میں طلاق یافتہ عورت اگر خاوند کے گھر سے کسی اور جگہ منتقل ہوجانا چاہے تو وہ ایسا کرسکتی ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ مطلقہ بائنہ کے لئے سکونت فراہم کی جائے گی لیکن نفقہ نہیں دیا جائے گا البتہ اگر حاملہ ہو ت ونفقہ بھی دیا جائے گا ۔ امام مالک سے یہ بھی مروی ہے کہ شوہر اگر خوشحال ہو تو اس پر اس کی بائن طلاق یافتہ حاملہ بیوی کا نفقہ لازم ہوگا لیکن اگر تنگدست ہوگا تو اس پر کوئی نفقہ لازم نہیں ہوگا۔ اوزاعی ، لیث اور امام شافعی کا قول ہے مطلقہ بائنہ کے لئے سکونت فراہم کی جائے گی لیکن اسے نفقہ نہیں دیا جائے گا۔ البتہ اگر حاملہ ہو تو نفقہ بھی دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اسکنوھن من حیث سکنتم من وجد کم ولا تضاروھن لتضیقوا علیھن ) یہ آیت مطلقہ بائنہ کے لئے نفقہ کے وجوف پر تین وجوہو سے دلالت کررہی ہے۔ اول یہ کہ سکونت فراہم کرنے کا تعلق مال کے اندر لاحق ہونے والے حق کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سکنی (سکونت مہیا کرنے) کے حق کو نص کتاب کے ذریعے واجب کردیا ہے کیونکہ آیت زیر بحث مطلقہ، رجعیہ اور بائنہ دونوں کو شامل ہے۔ یہی بات نفقہ کے وجوب کی بھی مقتضی ہے کیونکہ سکنیٰ کا تعلق مال کے اندر لاحق ہونے والے حق کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ نفقہ کا ایک حصہ ہے اس لئے سکنیٰ کی طرح نفقہ بھی واجب ہوگا۔ دوم یہ قول باری ہے (ولا تضاروھن) ظاہر ہے کہ مضارہ یعنی اسے ستانے کا عمل نفقہ میں ہوتا ہے جس طرح سکنیٰ میں ہوتا ہے۔ سوم قول باری ہے (لتضیقوا علیھن) تضییق یعنی تنگ کرنے کا عمل نفقہ کے سلسلے میں بھی ہوسکتا ہے اس لئے اس پر لازم کردیا گیا کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی پر خرچ کرے اور خرچ کے سلسلے میں اس پر کوئی تنگی عائد نہ کرے۔ قول باری ہے (وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتی یضعن حملھن، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہوجائے) آیت مطلقہ رجعیہ اور بائنہ دونوں کو شامل ہے۔ نفقہ کا وجوب یا تو حمل کی بنا پر ہوگا یا اس بنا پر کہ وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے کی پابند ہے۔ اب جب اس کا اس پر اتفاق ہے کہ مطلقہ رجعیہ کے لئے آیت کی بنا پر ، نہ کہ حمل کی بنا پر، نفقہ واجب ہے یعنی اس بنا پر کہ وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے کی پابند ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اسی علت کی بنا پر مطلقہ بائنہ بھی نفقہ کی حق دار قرار دی جائے ۔ کیونکہ مطلقہ رجعیہ کے لئے نفقہ کے استحقاق کے سلسلے میں جو چیز علت قرار دی گئی ہے۔ اس کے لئے آیت میں ضمیر یعنی پوشیدہ الفاظ کی موجودگی کا ہمیں علم ہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ ہے ” فاتفقوا علیھن لعلۃ انھا محبوسۃ علیہ فی بیتہ “ ( ان پر اس علت کی بنا پر خرچ کرو کہ وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے کی پابند ہے) کیونکہ جس ضمیر یعنی پوشیدہ لفظ پر دلالت قائم ہوجائے وہ منطوق یعنی ظاہر لفظ کے حکم میں ہوتا ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے، وہ یہ کہ حاملہ عورت کو نفقہ کا استحقاق یا تو حمل کی بنا پر حاصل ہوتا ہے یا اس بنا پر کہ وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے کی پابند ہوتی ہے۔ اگر پہلی صورت مراد ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس پر اس مال میں سے خرچ کیا جائے جو اس کے حمل کا ہو جس طرح نابالغ پر اس کے مال میں سے خرچ کیا جاتا ہے۔ اب جب سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر حمل کا مال ہو تو اس صورت میں بھی اس کی ماں کے اخراجات کا بوجھ اس کے سو ہر پر پڑے گا، حمل کے مال پر نہیں پڑے گا۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفقہ کے وجوب کا تعلق دوسری صورت کے ساتھ ہے یعنی اس کا وجوب اس بنا پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کی چار دیواری کے اندر رہنے کی پابند ہوتی ہے۔ اگر پہلی صورت مراد ہوتی تو طلاق رجعی کے اندر بھی حاملہ عورت کا نفقہ حمل کے حال میں واجب ہوتا جس طرح ولادت کے بعد حمل کا نفقہ حمل کے مال میں واجب ہوتا ہے۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ طلاق رجعی میں حاملہ کانفقہ حمل کے مال میں واجب نہیں ہوتا تو طلاق بائن کی صورت میں بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے۔ اور پھر بیویہ ہوجانے والی حاملہ عورت کا نفقہ میراث کے اندر حمل کے حصے میں سے ادا کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نفقہ کے ایجاب میں حاملہ عورت کے ذکر کی تخصیص کا کیا فائدہ ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں مطلقہ رجعیہ بھی داخل ہے اور یہ بات غیر حاملہ کے نفقہ کی نفی کے لئے مانع نہیں ہے۔ یہی بات مطلقہ بائنہ کے سلسلے میں بھیہوگی۔ حمل کا ذکر اس لئے ہوا ہے کہ حمل کی مدت کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ معلوم کرادینا چاہا کہ حمل کی مدت کی طوالت کی صورت میں بھی نفقہ واجب ہے۔ حمل کی یہ مدت عدت کی صورت میں حیض کی مدت سے زیادہ ہوتی ہے۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اسے اگر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ طلاق یافتہ سرکش عورت اگر عدت کے دوران شوہر کے گھر سے نکل جائے تو زوجیت کی بقا کے باوجود وہ نفقہ کی حقدار نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنے آپ کو شوہر کے گھر میں رکھنے میں ناکام رہی لیکن وہ جب شوہر کے گھر میں واپس آجائے گی تو نفقہ کی مستحق بن جائے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس سبب کی بنا پر وہ نفقہ کی مستحق ہوتی ہے وہ اس کا اپنے آپ کو شوہر کے گھر میں رکھنا ہے۔ جب ہم اور وہ حضرات جو سکنیٰ کے وجوب کے قائل ہیں سکنی کے وجوب پر متفق ہیں اور سکنیٰ کی بنا پر وہ اپنے آپ کو شوہر کے گھر کے حوالے کردینے والی بن گئی تو پھر یہ بات بھی واجب ہوگئی کہ وہ نفقہ کی مستحق قرار دی جائے۔ نیز جب حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ مطلقہ رجعیہ عدت میں نفقہ کی مستحق ہوتی ہے تو پھر مطلقہ ، بائنہ کا مستحق نفقہ ہونا بھی واجب ہوگیا۔ قدر مشترک یہ ہے کہ مطلقہ بائنہ بھی طلاق کی وجہ سے عدت گزاررہی ہے۔ یا آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نکاح صحیح کی بناپر وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری میں عدت گزارنے کی پابند ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں جب اس کے لئے سکنیٰ واجب ہے تو نفقہ بھی واجب ہوگا۔ غرض ان باتوں میں سے جس بات کو بھی علت کا درجہ دے کر قیاس کریں گے آپ کا قیاس درست ہوگا۔ سنت کی جہت سے اس پر نظر ڈالیے۔ حمادبن سلمہ نے حماد بن ابی اسماعیل سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ فاطمہ بنت قیس کو ان کے شوہر نے طلاق بائن دے دی تھی وہ حضور ﷺ کے پاس آئیں تو آپ نے انہیں فرمایا (لا نفقۃ لک ولا سکنیٰ تمہارے لئے نہ تو نفقہ ہے اور نہ ہی سکنیٰ ) راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ کو جب یہ حدیث سنائی گئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا ” ہم ایک عورت کے قول کی بنا پر جس میں اسے وہم ہوجانے کا پورا امکان موجود ہے، اللہ کی کتاب اور حضور ﷺ کے ارشاد کو چھوڑ نہیں سکتے، میں نے حضور ﷺ سے خود یہ سنا ہے کہ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں ملیں گے۔ “ سفیان نے سلمہ سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے فاطمہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ جب ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دیں تو حضور ﷺ نے ان کے لئے نہ نفقہ واجب کیا اور نہ ہی سکنیٰ ۔ میں یعنی رواوی نے اس بات کا تذکرہ ابراہیم نخعی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ سے بھی یہی بات کہی گئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم ایک عورت کی بات پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کرسکتے۔ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں دیے جائیں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ دونوں روایتیں نفقہ اور سکنیٰ کے ایجاب پر نص ہیں۔ پہلی روایت میں حضرت عمر ؓ کے الفاظ ہیں : ” میں نے حضور ﷺ سے خود سنا ہے کہ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں دیے جائیں گے “۔ اگر حضرت عمر ؓ کے یہ الفاظ نہ بھی ہوتے پھر بھی ان کا یہ قول کہ ” ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ نہیں سکتے۔ “ اس امر کا مقتضی ہوتا کہ نفقہ اور سکنیٰ کے ایجاب پر حضور ﷺ کی طرف سے یہ بات نص ہے۔ جو حضرات نفقہ اور سکنیٰ دونوں کے یا صرف نفقہ کے وجوب کے قائل نہیں ہیں ان کے استدلال کی بنیاد فاطمہ بنت قیس کی مذکورہ بالا روایت ہے۔ حالانکہ یہ روایت ایسی ہے جس کی راویہ پر سلف نے نکیر کی ہے۔ دوسری طرف خبر واحد کو قبول کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ اس پر سلف نے نکیر نہ کی ہو۔ ہم نے حضرت عمر ؓ سے جو پہلی روایت نقل کی ہے اس میں آپ نے فاطمہ بنت قیس پر نکیر کی ہے۔ قاسم بن محمد نے روایت کی ہے کہ مروان نے حضرت عائشہ ؓ سے فاطمہ ؓ بنت قیس کی روایت بیان کی تو انہوں نے مروان سے کہا کہ ” اگر تم فاطمہ ؓ کی روایت بیان نہ کرو تو اس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ “ بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے مروان سے کہا کہ ” اگر تم یہ روایت بیان کرو گے تو اس سے فاطمہ ؓ کی کوئی بھلائی نہیں ہوگی۔ “ حضرت عائشہ ؓ کی اس سے فاطمہ ؓ کی وہ روایت مراد ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسے نہ تو نفقہ ملے گا اور نہ سکنیٰ ۔ “ ابن المسیب کا قول ہے کہ اس عورت نے لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اس نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ زبان درازی کی تو اسے شوہر کے گھر سے منتقل ہوجانے کا حکم دیا گیا۔ ابوسلمہ نے کہا ہے کہ فاطمہ نے جو روایت بیان کی ہے اس پر لوگوں نے نکیر کی ہے۔ اعرج نے ابو سلمہ سے روایت کی ہے کہ فاطمہ حضور ﷺ سے یہ روایت بیان کرتی تھیں کہ آپ نے انہیں فرمایا تھا (اعتدی فی بیت ابن امر مکتوم، تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو) ۔ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ محمد بن اسامہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد حضرت اسامہ ؓ کے سامنے جب فاطمہ بنت قیس کی اس روایت کا ذکر ہوتا تو وہ غصے سے اس چیز کو زمین پردے مارتے جو اس وقت ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ ؓ اس شدت سے اس بنا قر نکیر کرتے تھے کہ انہیں فاطمہ ؓ کی روایت کے بطلان کا علم ہوچکا تھا۔ عمار بن زریق نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مسجد کے اندر اسود بن یزید کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ شعبی نے بیان کیا کہ مجھے فاطمہ بنت قیس نے روایت سنائی ہے کہ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ تمہیں نہ تو نفقہ ملے گا اور نہ ہی سکنیٰ ۔ جب اسود نے شعبی کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو انہیں ایک کنکراٹھا کر مارا اور فرمایا ” افسوس ہے تم پر کہ تم ایسی روایت بیان کرتے ہو۔ یہی روایت حضرت عمر ؓ کے سامنے بیان ہوئی تھی جسے انہوں نے سن کر فرمایا تھا کہ ” ہم کتاب وسنت کو ایک عورت کی بات پر چھوڑ نہیں سکتے جس کے متعلق ہم نہیں جانتے کہ کہیں اس نے جھوٹ تو نہیں کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (لا تخرجوھن من بیوتھن) زہری نے کہا ہے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ فاطمہ ؓ بنت قیس نے اپنی بھانجی کو جسے اس کے شوہر نے طلاق دے دی تھی، شوہر کے گھر سے منتقل ہوجانے کا فتویٰ دے دیا جسے گورنر مروان نے سخت ناپسند کیا اور پیغام بھیج کر فاطمہ ؓ سے اس فتوے کی حقیقت پوچھی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ حضور ﷺ نے انہیں یعنی فاطمہ کو یہی فتویٰ دیا تھا۔ مروان کو یہ بات بڑی عجیب لگی اور انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن) اس پر فاطمہ ؓ نے جواباً کہلوا بھیجا کہ آیت کا تعلق طلاق رجعی کے ساتھ ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف) ۔ اس کے جواب میں مروان نے کہا کہ ” میںے تم سے پہلے کسی سے یہ روایت نہیں سنی ہے اس لئے میں تو اس محفوظ راستے کو اختیار کروں گا جس پر میں نے لوگوں کو گامزن پایا ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فاطمہ ؓ بنت قیس پر اس روایت کے سلسلے میں مذکورہ بالا حضرات سلف نے نکیر کی ہے اور یہ بات تو واضح ہے کہ حضرات سلف لوگوں کی روایات پر نظر اور قیاس کی جہت سے نکیر نہیں کرتے تھے۔ اگر انہیں ظاہر کتاب وسنت سے اس روایت کے خلاف بات معلوم نہ ہوجاتی تو وہ اس روایت کے سلسلے فاطمہ ؓ پر ہرگز تنقید نہ کرتے۔ فاطمہ کی اس روایت کا چرچا صحابہ کرام کے اندر موجود تھا لیکن کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا۔ البتہ حجاج بن ارطاۃ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ تین طلاق پانے والی عورت اور بیوہ ہوجانے والی عورت کے لئے کوئی نفقہ نہیں۔ وہ جس جگہ چاہیں عدت گزار سکتی ہیں۔ فاطمہ بنت قیس اور ان کی روایت پر سلف کی نکیر اور حضرت عمر ؓ کی طرف سے اس روایت کی مخالفت کے سلسلے میں جن باتوں کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ باتیں دونوں گروہوں یعنی نفقہ اور سکنیٰ دونوں کی نفی کرنے والوں نیز نفقہ کی نفی اور سکنی کا اثبات کرنے والوں کے ذمہ عائد ہوتی ہیں بلکہ یہ باتیں موخر الذکر گروہ کے ذمہ پہلے گروہ کی بہ نسبت زیادہ عائد ہوتی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے نفی سکنیٰ کے سلسلے میں فاطمہ ؓ کی روایت کو کسی علت کی بنا پر ترک کردیا ہے جبکہ یہی علت نفی نفقہ کے سلسلے میں اس روایت کو ترک کرنے کی موجب بن رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فاطمہ ؓ بنت قیس کی روایت کو نفی سکنیٰ کے سلسلے میں اس لئے قبول نہیں کیا گیا کہ وہ ظاہر کتاب کے خلاف تھی کیونکہ ارشاد باری ہے (اسکنوھن ھن حیث سکنتم من وجدکم) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فاطمہ ؓ بنت قیس نے خود یہ استدلال کیا تھا کہ آیت کا تعلق مطلقہ ربعیہ کے ساتھ ہے اس کے باوجود اگر یہ کہنا درست ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی کتاب اللہ کے خلاف ایک روایت میں وہم ہوگیا ہے اور ان سے غلطی سرزد ہوگئی ہے تو یہی بات نفقہ کے سلسلے میں بھی کہنا درست ہوگا۔ اس روایت کی ہمارے نزدیک ایک درست توجیہ موجود ہے جس کے تحت نفی نفقہ اور سکنیٰ کے سلسلہ میں فاطمہ کی یہ روایت ہمارے مسلک کے عین مطابق بن جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ فاطمہ کے متعلق یہ مروی ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ بدزبانی کی تھی جس کے نتیجے میں انہوں نے فاطمہ کو اس کے گھر سے چلے جانے کے لئے کہا تھا۔ اس طرح وہ خود اس نقل مکانی کا سبب بن گئی تھیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یا تین بفاحشۃ مبینۃ۔ ) اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آیت کے آخری حصے کا مفہوم یہ ہے کہ مطلقہ عورت اہل خانہ کے ساتھ بدزبانی کرے اور گھر والے اسے نکال دیں۔ جب نقل مکانی کا سبب خود فاطمہ کی طرف سے وجود میں آیا تو ان کی حیثیت ناشزد جیسی ہوگئی یعنی ایسی عورت جیسی جو اپنے شوہر کے ساتھ سرکشی پر اتر آئے۔ اس لئے فاطمہ ؓ کا نفقہ اور سکنیٰ دونوں ساقط ہوگئے اس طرح نفقہ کے اسقاط کے لئے جو علت موجبہ تھی وہی سکنیٰ کے اسقاط کے لئے بھی علت موجبہ بن گئی۔ یہ بات ہمارے اس اصول کی صحت پر دلالت کرتی ہے جس کے مطابق نفقہ کے استحقاق کا تعلق سکنیٰ کے استحقاق کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے نفقہ سکنیٰ کی طرح نہیں ہے کیونکہ سکنیٰ کا تعلق اللہ کے حق کے ساتھ ہے اور اس کے اسقاط پر طرفین کی رضامندی کا جواز نہیں ہوتا اس کے برعکس نفقہ عورت کا حق ہے اگر وہ اس کے اسقاط پر راضی ہوجائے تو یہ ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے جس جہت سے نفقہ کو سکنیٰ پر قیاس کیا ہے اس کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے وہ اس طرح کہ سکنیٰ کے اندر دو پہلو ہیں ایک پہلو کا تعلق اللہ کے حق کے ساتھ ہے اور وہ یہ کہ مطلقہ اپنے شوہر کے گھر میں رہ کر عدت گزارے۔ دوسرے پہلو کا تعلق مطلقہ کے حق کے ساتھ ہے۔ وہ یہ کہ اگر شوہر کا اپنا گھر نہ ہو تو گھر کا کرایہ وغیرہ مال میں لازم ہوتا ہے اس صورت میں اگر مطلقہ بیوی کرایہ وغیرہ خود ادا کرنے اور شوہر سے اس کی ذمہ داری ساقط کرنے پر رضامند ہوجائے تو اس کا یہ اقدام جائز ہوگا۔ اس لئے سکنیٰ جس جہت سے مال کے ساتھ تعلق رکھنے والا حق قرار پاتا ہے اس جہت سے وہ اور نفقہ دونوں کی حیثیت یکساں ہوجاتی ہے۔ بیوہ ہوجانے والی حاملہ عورت کے نفقہ کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، قاضی شریح، ابوالعالیہ، شعبی اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ شوہر کے پورے مال میں سے اس نفقہ دیا جائے گا جبکہ حضرت جابر ؓ ، حضرت عبداللہ ابن الزبیر ؓ ، حسن بصری، سعید بن المسیب اور عطاء کا قول ہے کہ شوہر کے مال میں سے اسے نفقہ نہیں دیا جائے گا بلکہ وہ اپنے نفقہ کی خود ذمہ دار ہوگی۔ فقہاء امصار کے مابین بھی اس مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف امام زفر اور امام محمد کا قول ہے کہ میت کے مال میں سے اسے نہ نفقہ ملے گا اور نہ سکنیٰ خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اس کا نفقہ مرحوم شوہر کے مال میں سے اس طرح ادا کیا جائے گا جس طرح میت کے مال میں سے اس کا قرض ادا کیا جاتا ہے بشرطیکہ بیوہ حاملہ ہو۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ بیوہ خواہ حاملہ ہو اس کے نفقہ کی ذمہ داری خود اس پر ہوگی البتہ اگر مکان شوہر کا ہو تو بیوہ کو اس میں رہنے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر مرحوم شوہر پر قرض وغیرہ ہو تو بیوہ کو عدت کے اختتام تک اس گھر پر قرض خوا ہوں کی نسبت زیادہ حق ہوگا۔ اگر بیوہ کرائے کے مکان میں رہتی ہو اور مالک مکان نے اسے نکال دیا ہو تو مرحوم شوہر کے مال میں اس کے لئے سکنیٰ کا حق نہیں ہوگا۔ یہ ابن وہب کی روایت ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ مرحوم شوہر کے مال میں بیوہ کے لئے کوئی نفقہ نہیں ہے۔ اگر مکان مرحوم شوہر کا ہو تو اسے اس میں رہنے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر شوہر پر قرض ہو تو اس مکان پر بیوہ کا حق قرض خواہوں کے حق سے بڑھ کر ہوگا۔ قرضہ کی ادائیگی کے سلسلے میں اگر مکان فروخت کیا جائے گا تو خریدار پر یہ شرط عائد کردی جائے گی کہ وہ بیوہ کو اس میں رہنے دے گا۔ الاشجعی نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ بیوہ اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک مرحوم شوہر کے پورے مال سے اس کے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔ وضع حمل کے بعد نوزائیدہ بچے کے حصے سے اس پر خرچ کیا جائے گا۔ المعانی نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ بیوہ کا نفقہ ترکہ میں اس کے حصے سے ادا کیا جائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص حاملہ بیوی چھوڑ کر مرجائے تو اسے کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور اگر لونڈی حاملہ یعنی ام ولد ہو تو اسے وضع حمل تک پورے مال سے نفقہ دیاجائے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر لونڈی ام ولد اپنے آقا سے حاملہ ہو اور آقا مرجائے تو اسے آقا کے پورے مال سے نفقہ دیا جائے گا اگر وہ بچے کو جنم دے تو یہ نفقہ بچے کے حصے میں سے ادا کیا جائے گا۔ اگر بچے کی پیدائش نہ ہو تو یہ نفقہ بطور قرض ہوگا جس کی واپسی کی چار جوئی کی جائے گی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ بیوہ ہوجانے والی عورت کو اس کے مرحوم شوہر کے پورے مال سے نفقہ دیا جائے گا۔ بیوہ ہوجانے والی عورت کے نفقہ کے بارے میں امام شافعی سے دو قول منقول ہیں۔ ایک قول کے مطابق اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں دیے جائیں گے اور دوسرے قول کے مطابق اسے نہ نفقہ دیا جائے گا اور نہ سکنیٰ ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر حاملہ بیوی کو نہ نفقہ ملے گا اور نہ ہی سکنیٰ ۔ اس لئے حاملہ بیوہ کا بھی یہی حکم ہونا ضروری ہے کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس نفقہ کا استحقاق حمل کی بنا پر نہیں ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ کسی نے بھی میراث میں حمل کے حصے میں سے نفقہ واجب نہیں کیا بلکہ اس بارے میں دوہی قول ہیں۔ ایک قول کے مطابق بیوہ کا نفقہ میراث کے اندر اس کے اپنے حصے میں سے ادا کیا جائے گا اور دوسرے قول کے مطابق مرحوم شوہر کے کل مال سے نفقہ دیا جائے گا۔ کسی نے بھی حمل کے حصے میں سے بیوہ کا نفقہ واجب نہیں کیا جب حمل کی بنا پر نفقہ واجب نہیں ہوا اور عدت میں ہونے کی بنا پر بھی نفقہ کا استحقاق جائز نہیں ہوتا کیونکہ اگر اس بنا پر نفقہ کا استحقاق ہوتا تو غیر حاملہ کے لئے بھی نفقہ واجب ہوجاتا اس لئے کوئی ایسی وجہ باقی نہیں رہی جس کی بنا پر اسے نفقہ کا مستحق قرار دیا جاسکے۔ نیز دلائل کی رو سے جب وہ مرحوم شوہر کے مال میں سکنیٰ کی مستحق قرار نہیں پاتی تو نفقہ کو مستحق بھی نہیں قرار پائے گی۔ نیز نفقہ کا وجوب جب ہوتا ہے تو یہ ایک حالت کے بعد دوسری حالت کے تحت واجب ہوتا ہے۔ شوہر کی وفات پر اس کی میراث ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اس حالت میں شوہر کا کوئی مال نہیں ہوتا بلکہ سارا مال ورثاء کا ہوجاتا ہے اس لئے ورثاء پر بیوہ کا نفقہ واجب کردینا جائز نہیں ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں مرحوم شوہر کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے اسے کوئی نفقہ نہیں ملے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ بیوہ کے نفقہ کی حیثیت مرحوم شوہر پر عائد ہونے والے قرض کی طرح ہوتی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ میت کے مال میں ثابت ہونے والا قرض دو میں سے ایک وجہ کی بنا پر ثابت ہوتا ہے۔ یا تو یہ قرض میت پر اس کی زندگی میں ثابت ہو یا اس کے وجوب کا تعلق کسی ایسے سبب کے ساتھ ہو جس میں میت اپنی موت سے پہلے ملوث ہوچکا ہو۔ مثلاً جنایات کی صورتیں یا مرحوم نے کوئی کنواں کھودا ہوا اور اس کی موت کے بعد کوئی انسان اس کنویں میں گر کر مرگیا ہو ۔ اب نفقہ ان دونوں وجوہ سے خارج ہے اس لئے میت کے مال میں اس کا ایجاب جائز نہیں ہوگا کیونکہ وہ سبب موجود نہیں ہے جس کی بنا پر نفقہ واجب ہوتا ہے اور مرحوم شوہر کا مال بھی نہیں ہوتا کیونکہ موت کے ساتھ ہی اس کا مال اس کے ورثاء کو منتقل ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ موت کی بنا پر نکاح باطل ہوگیا اور میت کی ملکیت ورثاء کی طرف منتقل ہوگئی اس لئے نفقہ کے ایجاب کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ غیر حاملہ بیوہ کے لئے اس علت کی بنا پر نفقہ واجب نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے باری ہے (وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن) اس میں بیوہ ہوجانے والی اور طلاق یافتہ دونوں کے لئے عموم ہے جس طرح قول باری (واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) میں دونوں صنف کے لئے عموم ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس بنا پر غلط ہے کہ قول باری (اسکنوھن من حیث سکنتم من وجد کم) میں شوہروں کو خطاب ہے۔ اسی طرح قول باری (وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن) میں شوہروں کو خطاب ہے ۔ اب موت کی وجہ سے وہ اس خطاب کے مخاطب نہیں رہے، دوسری طرف اس خطاب کو شوہروں کے سوا دوسروں کی طرف متوجہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس لئے آیت کسی حالت میں بھی بیوہ ہوجانے والی عورت کے لئے نفقہ کے ایجاب کی مقتضی نہیں بنی۔ رضاعت کی اجرت قول باری ہے (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن۔ پھر اگر وہ تمہارے لئے (بچے کو) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو ) آیت کئی احکام پر دلالت کو متضمن ہے۔ ایک تو یہ کہ اگر ماں بچے کو مناسب اجرت لے کر دودھ پلانے پر رضامند ہوجائے تو باپ کے لئے کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ماں جب بچے کو دودھ پلاوے تو اسے اجرت دے دی جائے۔ یہ قول باری اس پر دلالت کرتا ہے کہ ماں بچے کی پرورش کی سب سے بڑھ کر حق دار ہوتی ہے ۔ اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ اجرت کا استحقاق رضاعت کے عمل سے فراغت کے بعد ہوگا، رضاعت کا معاملہ طے ہونے کے ساتھ نہیں ہوگیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رضاعت کے بعداجرت واجب کی ہے چناچہ ارشاد ہے (فان ارضعن لکم فاتوھنااجورھن) اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ عورت کا دودھ اگرچہ عین یعنی قائم بالذات شمار ہوتا ہے لیکن اسے منافع کے قائم مقام کردیا گیا ہے جن کا استحقاق صرف اجارہ کے عقود کی بنا پر حاصل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے عورت کے دودھ کی بیع کو جائز قرار نہیں دیا ہے جس طرح منافع پر بیع کا عقد جائز نہیں ہوتا۔ اسی بات میں عورت کے دودھ کا حکم جانوروں کے دودھ کے حکم سے مختلف ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بچے کو دودھ پلانے کے لئے کسی بکری کو اجارے پر لینا جائز نہیں ہوتا۔ کیونکہ اعیان یعنی قائم بالذات اشیاء پر اجارے کے عقود کے ذریعے حق ثابت نہیں ہوتا ۔ جس طرح کھجور کے درخت یا کسی اور درخت کو اجدارے پر لینے کا مسئلہ ہے۔ قول باری ہے (واتمرو ا بینکم بمعروف اور بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ) باہمی گفت وشنید سے طے کرلو) یعنی……واللہ اعلم……عورت سے اجرت کے مطالبہ کے سلسلے میں اس پر زیادتی نہ کرے اور شوہر اس اجرت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے جس پر عورت کا حق بنتا ہے۔ قول باری ہے (وان تعاسرتم فستر ضع لہ اخری۔ لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلائے گی) ایک قول کے مطابق اگر مطلقہ عورت یعنی بچے کی ماں مناسب اجرت سے زائد کا مطالبہ کرے اور دوسری عورت مناسب اجرت پر دودھ پلانے پر رضامندہوجائے تو شوہر کے لئے اس اجنبی عورت سے دودھ پلوانا جائز ہوگا۔ لیکن رضاعت کا یہ عمل بچے کی ماں کے گھر میں تکمیل پذیر ہوگا کیونکہ ماں ہی بچے کو اپنے پاس رکھنے کی زیادہ حق دار ہوتی ہے۔
Top