Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 45
وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى بَطْنِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰى رِجْلَیْنِ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰۤى اَرْبَعٍ١ؕ یَخْلُقُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
خَلَقَ
: پیدا کیا
كُلَّ دَآبَّةٍ
: ہر جاندار
مِّنْ مَّآءٍ
: پانی سے
فَمِنْهُمْ
: پس ان میں سے
مَّنْ يَّمْشِيْ
: جو (کوئی) چلتا ہے
عَلٰي بَطْنِهٖ
: اپنے پیٹ پر
وَمِنْهُمْ
: اور ان میں سے
مَّنْ يَّمْشِيْ
: کوئی چلتا ہے
عَلٰي رِجْلَيْنِ
: دو پاؤں پر
وَمِنْهُمْ
: اور ان میں سے
مَّنْ يَّمْشِيْ
: کوئی چلتا ہے
عَلٰٓي
: پر
اَرْبَعٍ
: چار
يَخْلُقُ اللّٰهُ
: اللہ پیدا کرتا ہے
مَا يَشَآءُ
: جو وہ چاہتا ہے
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے
قَدِيْرٌ
: قدرت رکھنے والا
اور اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ہر چلنے پھرنے والے جانور کو پانی سے۔ پس ان میں سے بعض چلتے ہیں اپنے پیٹ کے بل اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو چلتے ہیں دو پائوں پر۔ اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو چلتے ہیں چارپائوں پر۔ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے جو چاہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
ربط آیات : ابتدائے سورة میں اللہ تعالیٰ نے نظام عصمت وعفت کی برقراری کے لئے قوانین بیان فرمائے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی صفت اور اس کی توحید کا بیان ہوا۔ اور مشرکین کا رد ہوا۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کے عقلی دلائل تھے اور آج کی آیات بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ گزشتہ درس میں توحید کی یہ دلیل دی جاچکی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں حتیٰ کہ ہوا میں اڑنے والے پرندے بھی اپنے مالک کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بادلوں کے اجتماع ان میں سے بارش اور اولوں کے نزول اور پھر ان کے ذریعے بعض کی تکلیف دہی اور بعض کی حفاظت کا ذکر کیا۔ رات اور دن کے تغیر وتبدل اور ان کی طوالت میں کمی بیشی کو بیان کرکے فرمایا کہ ان تمام چیزوں میں صاحب بصیرت لوگوں کے لئے عبرت کا سامان ہے۔ ان دلائل میں غوروفکر کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچان سکتا ہے۔ پانی بطور منبع حیات : اب آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض جانوروں کی تخلیق کا ذکر کرکے اسے بھی اپنی وحدانیت کی دلیل قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ زمین پرچلنے پھرنے والے ہر جاندار کو۔ لفظ دابۃ اگرچہ کبھی گھوڑے پر بھی بولتے ہیں تاہم یہ لفظ ہر اس جاندار کے لئے استعمال ہوتا ہے لمن یدب علی الارض جو زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ اس میں انسان ، جانور ، چرند ، پرند اور کیڑے مکوڑے سب آجاتے ہیں۔ فرمایا ان سب جانداروں کو اللہ نے پیدا کیا من ماء پانی سے ، گویا تمام جانداروں کا منبع حیات پانی ہے۔ یہ مضمون سورة الانبیاء میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں فرمایا وجعلنا من الماء کل شیء حی (آیت 30) ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی۔ چناچہ تمام جانداروں اور نباتات کی غذا میں پانی ایک اہم اور بڑا حصہ ہے اللہ نے ان کی تخلیق بھی پانی سے ہی فرمائی ہے۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے یہ اشکال پیدا کیا ہے کہ مذکورہ آیت میں ہر چیز کا منبع حیات پانی کو قرار دیا ہے۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی تخلیق پانی سے نہیں ہوئی۔ مثلاً حضور ﷺ کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا اور جنات اور شیاطین کو آگ سے تخلیق کیا۔ اسی طرح فرشتوں کی تخلیق ایک خاص نور سے ہوئی۔ اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو اللہ نے قوم کے سامنے پتھر سے پیدا کیا۔ مفسرین کرام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اگرچہ مٹی سے ہوئی مگر جہاں تک پوری نوع انسانی کا تعلق ہے اس کو اللہ نے پانی ہی کے ذریعے زندگی بخشی ہے۔ قرآن پاک نے انسان کی پیدائش کے سلسلے میں قطرہ آب کا بار بار ذکر کیا ہے۔ جیسے سورة السجدہ میں ہے وبدا………………طین (آیت 7) اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے انسان کی تخلیق ابتدائی طور پر مٹی سے کی ثم جعل………………مھین (آیت 8) پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے اخلاط سے چلایا۔ سورة القیمۃ میں ہے الم یک……………یمنی (آیت 37) کیا انسان ٹپکائے جانے والے مادہ تولید کا ایک قطرہ آب نہیں تھا ؟ مطلب یہ ہے کہ تمام نسل انسانی کی تخلیق قطرہ آب سے ہی ہوئی ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح کی تخلیق مراد ہے یعنی ہر چیز میں پانی کی شراکت ضرور ہے ۔ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے سلسلہ میں عناصر اربعہ کو تو تسلیم کیا جاتا ہے جن میں پانی بھی شامل ہے۔ اللہ نے آپ کا خمیر مٹی کو پانی سے گوندھ کر ہی تو بنایا تھا۔ لہٰذا آدم (علیہ السلام) کی تخلیق میں بھی پانی کا عنصر موجود ہے۔ باقی رہ گئی یہ بات کہ فرشتوں کی تخلیق نور سے اور جنات کی تخلیق نار سے ہوئی تو اس میں بھی بالواسطہ پانی کی شراکت ثابت ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کے تجزیہ کے مطابق پانی دو گیسوں کا مجموعہ ہے یعنی آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ ان دونوں گیسوں کو خاص مقدار میں جمع کیا جائے تو پانی تخلیق ہوتا ہے۔ اب آکسیجن ایک ایسی چیز ہے جس میں ناری مادہ بھی پایا جاتا ہے۔ ہم روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ کسی چیز کو آگ دکھانے کے لئے آکسیجن کا ہونا لازمی ہے ورنہ آگ نہیں بھڑکتی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ آکسیجن کی وساطت سے پانی میں آگ کا مادہ بھی موجود ہے چناچہ فرشتوں اور جنات کی تخلیق میں بھی کسی حد تک پانی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی۔ شاہ ولی اللہ (رح) کا فلسفہ : امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق میں جس پانی کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سے یہ پانی مراد نہیں جو ہم روز مرہ استعمال کرتے ہیں بلکہ اعنی بالماء اھل الموجودات لا ھذا النوع من العناصر اس پانی سے مراد تمام موجودات کی اصل ہے۔ وہ ایک خاص قسم کی چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے امام بغوی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ انسان کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص جوہر پیدا کیا جو نہایت ہی خوبصورت اور چمکدار تھا پھر جب اللہ تعالیٰ کی ہیبت ناک تجلی اس جوہر پر پڑی تو وہ پگھل کر پانی بن گیا۔ اس بات کا تجربہ ہم خود بھی کرتے ہیں کہ کوئی سخت سے سخت دھات سونا ، چاندی ، لوہا وغیرہ ہو جب اسے ایک خاص درجے تک حرارت پہنچائی جاتی ہے تو وہ دھات پگھل کر پانی بن جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ہیبت ناک تجلی سے وہ خاص جوہر پانی بن گیا اور پھر اس پانی سے اللہ تعالیٰ کی ہیبت ناک تجلی سے وہ خاص جوہر پانی بن گیا اور پھر اس پانی سے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو تخلیق کیا۔ اس پانی کو شاہ صاحب تمام موجودات کی اصل قرار دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی ہر چیز کی پانی سے تخلیق سمجھ میں آتی ہے۔ چلنے پھرنے کی صلاحیت : اللہ نے فرمایا کہ اس نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ آگے ان جانداروں کی مختلف قسمیں ہیں اور ان میں چلنے پھرنے کی صلاحیت بھی مختلف ہے۔ فمنھم من یمشی علی بطنہ ان میں سے بعض جانور ایسے ہیں جو اپنے پیٹ پر چلتے ہیں یعنی پیٹ کے بل رینگتے ہیں۔ اگرچہ ان جانوروں کے پائوں نہیں ہوتے مگر اللہ تعالیٰ نے ان میں اتنی صلاحیت رکھی ہے کہ پیٹ کے بل گھسٹ کر نہایت تیزی سے ساتھ بھاگ سکتے ہیں۔ رینگنے والے جانوروں میں مچھلی پانی میں نہایت تیزی سے حرکت کرتی ہے اور زمین پر چلنے والوں میں سانپ نہایت تیزرفتار کیڑا ہے حتیٰ کہ پائوں ہونے کے باوجود انسان سانپ کے برابر تیز نہیں دوڑ سکتا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کی دلیل ہے کہ اس نے کیسی کیسی عجیب و غریب مخلوق پیدا کی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت والے دن لوگ سر کے بل دوڑتے ہوئے چلیں گے ، کسی نے عرض کیا ، حضور ! پائوں پر چلنا تو سمجھ میں آتا ہے ، سر کے بل کیسے چلنا ہوگا ؟ فرمایا کہ جس خدا تعالیٰ نے پائوں پر چلنے کی قوت بخشی ہے وہ سر کے بل چلنے کی طاقت بھی عطا کردے گا۔ اس میں حیرت کی کونسی بات ہے۔ فرمایا ومنھم من یمشی علی رجلین ، اور بعض جاندار ان میں سے ایسے ہیں جو دوپائوں پر چلتے ہیں۔ ان جانداروں میں انسان سرفہرست ہے جس کو اللہ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے اور اس کو دو پائوں عطا کیے گئے جو اس کی نقل و حرکت کا کام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام پرندے بھی دو پائوں پر چلتے ہیں اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق دوڑ سکتے ہیں۔ مرغ ، بطخ ، چڑیا ، کوا ، کبوتر وغیرہ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جو دو پائوں پر چلتے ہیں۔ فرمایا ومنھم من یمشی علی اربع اور ان میں سے بعض جانور چار پائوں پر چلتے ہیں۔ ان میں اونٹ ، گھوڑا ، بیل ، بھیڑ ، بکری ، گائے وغیرہ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ چوپائیوں میں چیتا ایک سو دس میل اور بھیڑیا اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ان کو چارپائوں عنایت کیے ہیں۔ حضرت ابی ابن کعب ؓ کے مصحف میں چار کے بعداکثر کا ذکر بھی آتا ہے۔ یعنی بعض ایسے جاندار ، کیڑے مکوڑے بھی ہیں جن کو اللہ نے چار سے زیادہ پائوں بھی دیے ہیں۔ پانی میں رہنے والے کیکڑے کے بہت سے پائوں ہوتے ہیں۔ کن کھجور کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے ایک ہزار پائوں ہوتے ہیں۔ شیخ سعدی (رح) نے قدرت خداوندی کے نمونے کے طور پر اپنی کتاب گلستان میں لکھا ہے ” بےدست وپاہزار پائے راکشت “ یعنی ہاتھ پائوں سے محروم ایک شخص نے ہزار پائوں رکھنے والے کن کھجورے کو مار دیا۔ یہ بیچارہ اتنے کثیر پائوں ہونے کے باوجود بھاگ نہیں سکتا۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کی قدرت کا نمونہ ہے۔ دلائل توحید : ارشاد ہوتا ہے یخلق اللہ مایشاء اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اس کی مشیت اور حکمت کو کوئی نہیں جان سکتا۔ سورة یسٓ میں ہے وھوالخلق العلیم (آیت 81) وہ بہت بڑا پیدا کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ ہی کی تخلیق کردہ ہے اور اس معاملہ میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق تو مسلمہ عندالکل ہے یعنی دہریوں کی قلیل تعداد کے علاوہ دنیا کے کسی بھی آدمی سے پوچھو ، خواہ وہ کسی بھی مذہب وملت کا پیروکار ہو ، جواب یہی ہوگا۔ کہ ہرچیز کا خالق اللہ ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا واجب الوجود ہونے کو بھی سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات خود بخود ہے جو کسی دوسری ہستی کی پیدا کردہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ذات خود ہر چیز کی خالق ہے۔ البتہ اللہ کی باقی دو صفات مخصوصہ عبادت اور تدبیر میں لوگ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے سوا دیوی دیوتائوں اور بتوں کی پوجا بھی ضروری ہے کیونکہ کچھ نہ کچھ وہ بھی کرتے ہیں یعنی حاجات پوری کرتے ہیں اور بگڑی بناتے ہیں ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنی صفت خلق کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جب ہر چیز کا خالق وہ ہے تو پھر عبادت کے لائق بھی وہی ہے نہ تو کوئی دوسرا کوئی چیز پیدا کرسکتا ہے اور نہ وہ عبادت کے لائق ہوسکتا ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہے۔ فرمایا ان اللہ علی کل شیء قدیر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہدایت بذریعہ قرآن حکیم : آگے ارشاد ہوتا ہے لقد انزلنا ایت مبینت تحقیق ہم نے واضح واضح آیتیں نازل فرمائی ہیں۔ سورة ہذا کی ابتداء میں معاشرے کی طہارت کے لئے حدود کا قانون بتایا۔ پھر اعتقاد اور اخلاق کی درستگی کے لئے بہترین اصول وضع فرمائے۔ یہ اصول وقوانین دنیا اور آخرت کی فلاح کے ضامن ہیں اور بالکل واضح ہیں۔ جن پر آسانی سے عمل کیا جاسکتا ہے۔ فرمایا واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے ، راہنمائی کرتا ہے ۔ مگر یہ چیز طلب اور خواہش سے حاصل ہوتی ہے۔ ہر منصف مزاج اور خواہشمند آدمی اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے مستفید ہوسکتا ہے۔ سیدھے راستے سے مراد دین حق اور دین توحید اسلام کا راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے اور جس کی تعلیم قرآن پاک کی یہ واضح آیتیں مہیا کرتی ہیں۔ اسی پر تمام انبیاء چلتے رہے اور اسی کو ملت ابراہیمیہ اور ملت اسلامیہ اور دین حق کا نام دیا گیا ہے اور اسی کو الاسلام کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
Top