Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 39
وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا
وَمَاذَا : اور کیا عَلَيْهِمْ : ان پر لَوْ اٰمَنُوْا : اگر وہ ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت پر وَاَنْفَقُوْا : اور وہ خرچ کرتے مِمَّا : اس سے جو رَزَقَھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِهِمْ : ان کو عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
اور کیا حرج اور نقصان تھا ان کا اگر وہ ایمان لاتے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور خرچ کرتے اس چیز میں سے جو اللہ نے ان کو رزق دیا ہے اور اللہ ان کے ساتھ خوب علم رکھتا ہے
ربط آیات گزشتہ دروس میں یہ بنیادی عقیدہ بیان ہوچکا ہے کہ عبادت صرف اللہ ہی کی کرو۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ اسی بنیاد پر پھر حقوق العباد کا ذکر کیا کہ والدین کے ساتھ احسان کرو۔ اور یتیموں ، مسکینوں ، پڑوسیوں ، ہم نشینوں ، مسافروں اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اسی ضمن میں پھر بخل کی مذمت کی گئی کیونکہ بخیل آدمی اپنے بخل کی وجہ سے دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتا ، بلکہ اپنا مال ریاکاری پر خرچ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص دراصل شیطانی پھندے کا شکار ہوتا ہے جو کہ اسے بنیادی عقیدئہ توحید سے برگشتہ کردیتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو اس کا ایمان اللہ کے ساتھ درست ہوتا ہے اور نہ آخرت کی جواب دہی کا یقنی۔ اس لیے وہ حقوق العباد کی پروا نہیں کرتا۔ آج کی آیات اسی تسلسل میں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے طریقے سے ایسے لوگوں کو توحید اور انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی ہے۔ دعوت الی التوحید ارشاد ہوتا ہے وما ذا علیہم ان کا کیا نقصان ہوتا۔ ان لوگوں کا کیا جاتا لو امنوا باللہ والیوم الاخر اگر وہ ایمان لے آتے اللہ پر اور قیامت کے دن پر انفقوا مما رزقہم اللہ۔ اور دوسرے کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے۔ تبلیغ کے سلسلے میں یہ بھی ایک طرز بیان ہے جب بات عام طرز گفتگو سے دوسرے کی سمجھ میں نہ آئے تو بعض اوقات تاسف کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کو کیا ہوگیا ہے ، بات کو کیوں نہیں سمجھتے اگر مان جاتے تو ان کا کیا نقصان ہوتا۔ یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں کا کیا بگڑتا تھا اگر یہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان لے آتے اور اللہ ہی کے عطا کردہ مال میں سے اپنے ہی بھائی بندوں پر خرچ کرتے ایسا کرنے سے اللہ کے حکم کی تعمیل بھی ہوجاتی ، اس کی وحدانیت پر اور قایمت کے دن پر ایمان پختہ ہوتا بلکہ ان کی اپنی سوسائٹی کا معیار بھی بلند ہوجاتا۔ انہیں انسانیت میں کمال حاصل ہوتا ، رذائل سے بچ جاتے۔ کفر شرک ، نفاق ، بدعقیدگی دور ہو کر ان میں اعلیٰ اوصاف پیدا ہوجاتے۔ ایمانیات کی دعوت کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان کی بری خصلتیں دور ہوجائیں۔ اور اعلیٰ اخلاق پیدا ہوجائے۔ ایمانیات میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسل بھی شامل ہے اس کے علاوہ اللہ کی کتابوں پر ایمان ، فرشتوں پر ایمان ، قیامت پر ایمان ، تقدیر پر ایمان ، اللہ کی صفات پر ایمان سب ایمان ہی کے اجزا ہیں اگلی آیت میں وعصوا الرسول کے الفاظ بھی آ رہے ہیں جو ایمان بالرسل پر خصوصی طور پر دلالت کرتے ہیں۔ رسولوں کی بعثت اللہ کی صفت ہے جیسے اس کا فرمان ہے انا کنا مرسلین (الدخان۔ 5) یعنی رسولوں کو ہم ہی بھیجا کرتے ہیں۔ اس آیت میں صرف ایمان باللہ اور ایمان بالقیامت کا ذکر ہے ، تاہم مراد ایمانیات کی تمام جزیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بعض مقامات پر ایمانیات کا اجمالاً ذکر کیا ہے اور بعض مقامات پر تفصیلاً ۔ یہاں پر چونکہ جزائے عمل کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے اس لیے اللہ اور قیامت پر ایمان کا ذکر ہے ، تاہم اسی سورة میں آگے ایمانیات کا تفصیل کے ساتھ ذکر آئیگا۔ بہرحال یہاں پر فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا نقصان تھا اگر وہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان لے آتے اور ہمارے دیے ہوئے مال سے مستحقین پر خرچ کرتے۔ فرمایا و کان اللہ بہم علیماً اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے یعنی ان کے ارادے اور خلاص تک سے باخبر ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کر رہے ہیں ، کس نیت کے ساتھ کرتے ہیں۔ کیا ان کا مقصود واقعی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور تقرب ہے یا محض دکھاوا ہے اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کوئی شخص اپنا مال خرچ کر کے اللہ کی عطاکردہ نعمت کا شکر ادا کر رہا ہے ، نوع انسانی سے ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہے یا محض ریاکاری کے طور پر رسومات کو ادا کر رہا ہے۔ کیا اس کے پیش نظر آخرت کا اجر وثواب ہے یا دنیا کی نمود و نمائش۔ جس نیت اور ارادے کے ساتھ کوئی شخص نیکی کر رہا ہے ، اس کے نتائج بھی ویسے ہی ظاہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا فرمایا یاد رکھو ! اللہ کا قانون یہ ہے ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃٍ بیشک اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ ظلم یا زیادتی اس لحاظ سے کہ انسان نے کسی جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو اور اللہ اس کو سزاے دے دے یا کسی کا جرم کسی دوسرے کے سر ڈال دے یا کسی کی معمولی سے معمولی نیکی کو بھی ضائع کر دے یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔ وہ مالک الملک اور علی الاطلاق شہنشاہ ہے وہ کسی کی حق تلفی نہیں کرے گا اور نہ کسی کے پرخلوص عمل کی جزاء میں کمی کریگا۔ عربی زبان میں ذرہ کے کئی معنے آتے ہیں۔ ذرہ کا لفظ چھوٹی سی سرخ رنگ کی چیونٹی پر بھی بولا جاتا ہے اس کے علاوہی ہ لفظ رائی کے دانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جب کسی روشندان یا کھڑی سے سورج کی شعائیں اندر آئیں تو ان شعاؤں میں جو چھوٹے چھوٹے ذرات نظر آتے ہیں اور پکڑے نہیں جاسکتے ، وہ یہی ذرہ ہے۔ الغرض ! ذرہ کا لفظ چھوٹی سے چھوٹی چیز پر بولا جاتا ہے اور یہاں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ معمولی سے معمولی درجے کی زیادتی بھی نہیں کرے گا۔ ظلم کا مفہوم عربی زبان میں ظلم کا معنی وضع الشی فی غیر محلہ کیا جاتا ہے یعنی کسی چیز کو اس کے موقع پر محل کے علاوہ رکھ دینا۔ ظلم کا الاق چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی سے لے کر بڑے سے بڑے جرم پر ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا والفکرون ہم الظلمون کافر ہی ظالم ہیں یا ان الشرک لظلم عظیم شرک بہت بڑا ظلم ہے اسی طرح ظلم کا اطلاق قتل پر بھی ہوتا ہے اور چھوٹی چیز میں یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتے وقت دائیں کی بجائے پہلے بایاں پاؤں داخل کرلے یا مسجد سے باہر آتے وقت بائیں کی بجائے دائیاں پاؤں پہلے نکال لے تو اس پر بھی ظلم کا اطلاق ہوگا۔ پھر یہ بھی ہے کہ ظلم کا لفظ اضداد میں سے ہے اس میں کمی اور زیادتی دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ جیسے فرمایا ولم تظللم منہ شیئًا وہاں کسی چیز کی کمی نہ تھی اور زیادتی میں شرک ، اسراف ، قتل ناحق وغیرہ آتا ہے یہ بڑی بڑی زیادتیاں ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ وہ کسی پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا انسانی محاورے کے مطابق ہے ، وگرنہ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے ، وہ جو چاہے کرے ، وہ خالق ہے ، باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ ہر جاندار اور بےجان چیز اسی کی پیدا کردہ ہے اور جو کوئی اپنی چیز میں تصرف کرتا ہے اسے ظلم پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ امام ابن کثیر نے ص 405 ج 3 اپنی تفسیر میں حدیث بیان کی ہے ان اللہ لو عذاب اہل سماواتہٖ واہل ارضہٖ لعذبہم و ہو غیر ظالم لہم اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو بغیر کسی قصور کے سزا دینا چاہے تو یہ بھی ظلم میں شمار نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ ہر چیز کا مالک ہے۔ اور وہ اپنی چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ زیادتی تو کریگا نہیں۔ البتہ و ان تک حسنۃ یضہفہا اگر کسی کی کوئی نیکی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے دگنا کر دے گا۔ دگنے کا قانون سورة انعام کے آخری رکوع میں موجود ہے۔ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا جو کوئی ادنی سے ادنیٰ نیکی بھی کریگا اس کا کم از کم اجر دس گنا ملے گا اور زیادہ سے زیادہ جتنا اللہ چاہے۔ سات سو گنا ، سات لاکھ گنا ، سات کروڑ گنا یا سات ارب گنا اس کے ہاں کوئی کمی نہیں۔ نیکی کا بدلہ جتنا چاہے عطا کر دے۔ البتہ جہاں تک جرم اور برائی کا تعلق ہے فرمایا و من جاء بالسیۃ فلا یجزی الا مثلھا ایک قصور کا بدلہ اسی قصور کے برابر ہوگا و ہم لایظلمون اور کوئی زیادتی نہیں کی جائیگی یہ اللہ تعالیٰ کی کس قدر مہربانی ہے کہ نیکی کا بدلہ تو ہزاروں لاکھوں گنا عطا کرتا ہے مگر برائی کی سزا اس برائی سے زیادہ نہیں دیتا۔ بہرحال فرمایا کہ ایک ذرے کے برابر بھی اگر نیکی ہوگی تو اس کو دگنا کردیا جائے گا ویوت من لدنہ اجراً عظیماً اور اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔ یہ اجر کتنا بڑا ہوگا ، اس کا تصور انسان اس دنیا میں نہیں کرسکتا۔ جب نتائج سامنے آئیں گے ، اجر تقسیم ہونے لگے تو پھر پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کتنی وسیع ہے۔ وہاں پر رائی کا دانہ پہاڑ بن چکا ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کھجور کا دانہ احد پہاڑ جتنا بڑا ہوجائیگا۔ مگر شرط یہ ہے کہ جو بھی نیکی کی جائے اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کیا جائے وہ ایمان اور خلوص نیت کے ساتھ کیا گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ اللہ کے ہاں پیشی نیکی کی ترغیب کے بعد اللہ تعالیٰ نے منکرین کا تذکرہ فرمایا ہے فکیف اذا جئنا من کل امۃٍ بشہیدٍ پس کیا حال ہوگا۔ ان لوگوں کا جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے۔ جب مجرمین اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوں گے اور ان کو فرد جرم پڑھ کر سنائی جائے گی تو اس کے ثبوت کے لیے گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ چناچہ مشہور تفسیر کے مطابق ہر امت کی گواہی اس امت کا نبی دیگا۔ اللہ تعالیٰ مجرمین سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس میرا پیغام نہیں آیا تھا۔ وہ انکار کریں گے تو اس امت کا نبی بطور گواہ پیش ہو کر عرض کرے گا ، مولا کریم ! میں نے تیرے سارے احکام ان تک پہنچا دیے تھے۔ وجئنابک علی ہولائِ شہیداً اور اے نبی (علیہ السلام) ! آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لایا جائیگا جن کا واسطہ آپ سے پڑ رہا ہے گویا جس طرح باقی انبیاء اپنی اپنی امتوں پر گواہ ہوں گے اسی طرح آپ بھی اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔ اس کی تفسیر حضور ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع میں موجود ہے آپ نے تمام لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا وانتم تسالون عنی فماذا انتم فائلون میرے بارے میں تم سے قیامت کو سوال ہوگا ، اور تم کیا جواب دو گے۔ سب نے جواب دیا نشہدٌ انک قد ادیت الا مانۃ لو بلغت الرسالۃ ونصحت الامۃ ہم گواہی دینگے کہ آپ نے حق امانت ادا کردیا۔ اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور امت کو نصیحت فرما دی۔ لہٰذا حضور ﷺ بھی اپنی امت کے متعلق گواہی دینگے کہ میں نے حق رسالت ادا کردیا اور مولا کریم ! تیرے احکام پورے پورے اپنی امت تک پہنچا دیے۔ اور دوسری گواہی اس وقت پیش کی جائے گی جب پوری پوری امتیں انکار کر دینگی کہ ان تک اللہ کا کوئی حکم نہیں پہنچا۔ تو پھر اسی آخری امت کے لوگ سابقہ انبیاء کے حق میں گواہی دینگے کہ ان انبیاء نے اللہ کا پیغام اپنی امتوں تک پہنچا دیا۔ سابقہ امتیں اعتراض اٹھائیں گی کہ مولا کریم ! یہ لوگ تو اس وقت موجود ہی نہیں تھے ، ان کی گواہی کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ تو امت آخر الزمان کے لوگ کہیں گے کہ پروردگار ! ہمیں تیرے آخری نبی اور آخری کتاب کی ذریعے علم ہوا کہ تمام نبیوں نے اللہ کے احکام اپنی اپنی امتوں تک پہنچا دیے لہٰذا ہماری یہ گواہی مشاہدے کی بناء پر نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر ہے اور پھر اس امت کے حق میں نبی ختم المرسلین کی گواہی ہوگی۔ ان دونوں گواہیوں کا ذکر سورة بقرہ میں موجود ہے لتکونوا شہداء علی الناس ویکونالرسول علیکم شہیداً یعنی تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو گے اور رسول تمہاری صفائی کی شہادت پیش کریگا۔ اب رہی یہ بات کہ حضور ﷺ ان لوگوں کی گواہی تو مشاہدے کی بنا پر دینگے جو آپ کے زمانے میں آپ کے سامنے موجود تھے مگر ان لوگوں کی شہادت کیسے دیں گے جو خود آپ کے زمانے میں بھی آپ سے غائب تھے یا جو آپ کے وصال کے بعد آئے۔ اس کا تذکرہ دوسرے مقام پر موجود ہے کہ جب آپ سے اس بارے میں پوچھا جائے گا تو آپ فرمائیں گے میں تو وہی بات کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) کہیں گے وکنت علیہم شہیداً مادمت فیہم میں اس وقت تک کا گواہ ہوں جب تک میں ان کے درمیان رہا فلما توفیتنی مولا کریم ! پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا کنت انت الرقیب علیہم تو پھر تو ہی ان کا نگران اور محافظ تھا وانت علی کل شیئٍ شہید اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی سمجھ لینی چاہئے ، اہل بدعت اور شرک کہتے ہیں کہ حضور ﷺ ہر شخص کے حالات سے واقف ہیں۔ یہ عقیدہ بھی قرآن و سنت کے خلاہے۔ اگر نبی (علیہ السلام) ہر امتی کے حالات سے واقعی واقف ہوں تو پھر وہ بارگاہ الٰہی میں یہ کیوں کہیں گے۔ کہ پروردگار ! میں تو وہی بات کہوں گا جو تیرے نیک بن دے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہی کہ میں تو ان لوگوں کے حالات سے ہی واقف ہوں جن کے درمیان رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو پھر تو خود ہی ان کا محافظ تھا۔ مسلم شریف کی روایت میں موجود ہے ، صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضور ! قیامت والے دن آپ ہمیں ساری امتوں میں سے کیسے پہچانیں گے۔ تو آپ نے فرمایا میں اپنی امت کو علامتوں اور نشانیوں سے پہچانوں گا۔ اس آخری امت کی خاص نشانی یہ ہوگی کہ ان کے وضو کے اعضاء قیامت کے دن چمک رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر حضور ﷺ ہر شخص کے حالات بذاتہٖ جانتے ہوں تو پھر علامات سے پہچاننے کا کیا مطلب رہ جاتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن نافرمانوں کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے اور آپ کو اس امت پر گواہ پیش کیا جائے گا۔ کفار کی بےبسی آگے قیامت کا نقشہ پیش کر کے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کی بےبسی کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہے یومیذ یود الذین کفروا اس دن آرزو کری گے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وعصمو الرسول اور رسول کی نافرمانی کی۔ یہاں پر کفر سے مراد مطلق کفر ہے کہ کوئی شخص اللہ کی وحدانیت ، اس کے رسولوں ، فرشتوں ، کتابوں ، تقدیر اور قیامت کے دن کا انکار کر دے اور کفر کا اطلاق محض نافرمانی پر بھی ہوتا ہے اور عام گناہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے کفر کا اطلاق ناشکری پر بھی ہوتا ہے جیسے واشکرو الی ولا تکفرون میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔ عورتوں کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا مسلم شریف ص 2 ترمذی ص 348 (فیاض) بکری کے ساتھ زیادتی کی ہوگی تو اس کو بھی قصاص دلایا جائے گا یہ جانور وغیرہ مکلف تو نہیں ہیں۔ نہ ان پر دائمی سزا ہے۔ البتہ ایک دوسرے سے بدلہ دلانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کو نو تراباً مٹی ہوجاؤ اور یہ سب مٹی ہو کر ختم ہوجائیں گے۔ فرمایا اسی طرح کفار اور نافرمانانِ رسول بھی آرزو کریں گے کاش وہ مٹی ہوکردائمی عذاب سے بچ جائیں گمر ان کی یہ حسرت پوری نہیں ہوگی کیونکہ وہ شرائع الٰہیہ کے پابند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عقل دی ، ان کی راہنمائی کے لیے رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ اب ان کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ اور وہ عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ ہر چیز ظاہر ہوگی فرمایا ایسے لوگ خواہش کے باوجود ولایکتمون اللہ حدیثاً اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کو چھپا نہیں سکیں گے۔ سورة طارق میں آتا ہے ” یوم تبلی السرائر “ قیامت کے دن تمام اندرونی راز ظاہر کردیے جائیں گے ، دنیا میں انسان ہزاروں بھید چھپا جاتا ہے۔ یومیذٍ تعرضون لاتخفی منکم خافیۃٌ (الحاقہ) اس دن تم حاضر کیے جاؤ گے اور تم سے کوئی چیز چھپ نہیں سکے گی قرآن پاک میں دوسری جگہ موجود ہے کہ ایک موقع پر مشرکین اپنے شرک کا انکار کردیں گے اور کہیں گے واللہ ربنا ما کنا مشرکین اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے الیوم نختم علی افواہیم وتکلمنا ایدیہم وتشہد ارجلہم اور مجرمین کے ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے کہ مولا کریم اس نے فلاں فلاں جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ غرضیکہ اس دن کوئی چیز چھپا نہیں سکیں گے اور اپنے انجام کو پہنچ جائینگے۔
Top