Mufradat-ul-Quran - An-Nisaa : 46
مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَقْوَمَ١ۙ وَ لٰكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
مِنَ : سے (بعض) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ھَادُوْا : یہودی ہیں يُحَرِّفُوْنَ : تحریف کرتے ہیں (بدل دیتے ہیں) الْكَلِمَ : کلمات عَنْ : سے مَّوَاضِعِهٖ : اس کی جگہ وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَعَصَيْنَا : اور ہم نے نافرمانی کی وَاسْمَعْ : اور سنو غَيْرَ : نہ مُسْمَعٍ : سنوایا جائے وَّرَاعِنَا : اور راعنا لَيًّۢا : موڑ کر بِاَلْسِنَتِهِمْ : اپنی زبانوں کو وَطَعْنًا : طعنہ کی نیت سے فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : وہ قَالُوْا : کہتے سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی وَاسْمَعْ : اور سنیے وَانْظُرْنَا : اور ہم پر نظر کیجئے لَكَانَ : تو ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَقْوَمَ : اور زیادہ درست وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّعَنَھُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَلَا يُؤْمِنُوْنَ : پس ایمان نہیں لاتے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑے
اور یہ جو یہودی ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا اور سنیئے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ (تم سے گفتگو کے وقت) راعنا کہتے ہیں اور اگر یوں کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظرنا (کہتے) تو انکی حق میں بہتر ہوتا اور بات بھی درست ہوتی لیکن خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے تو یہ کچھ تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں
مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۝ 0ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۝ 0ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝ 46 هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ تحریف الکلام : أن تجعله علی حرف من الاحتمال يمكن حمله علی الوجهين، قال عزّ وجلّ : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ، ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة/ 41] ، وَقَدْ كانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة/ 75] ، والحِرْف : ما فيه حرارة ولذع، كأنّه محرّف عن الحلاوة والحرارة، وطعام حِرِّيف، وروي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «نزل القرآن علی سبعة أحرف» «1» وذلک مذکور علی التحقیق في «الرّسالة المنبّهة علی فوائد القرآن» «2» . التحریف الشئ ) کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک جانب مائل کردینا ۔ جیسے تحریف القم قلم کو ٹیڑھا لگانا ۔ اور تحریف الکلام کے معنی ہیں کلام کو اس کے موقع و محل سے پھیر دینا کہ اس میں دو احتمال پیدا ہوجائیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔ اور دوسرے مقام پر ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة/ 41] ہے یعنی ان کے محل اور صحیح مقام پر ہونے کے بعد ۔ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة/ 75]( حالانکہ ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خد ( یعنی تو رات ) کو سنتے پھر اس کے کچھ لینے کے بعد اس کو ( جان بوجھ کر ) بدل دیتے رہے ہیں ۔ الحرف ۔ وہ چیز جس میں تلخی اور حرارت ہوگو یا وہ حلاوت اور حرارت سے پھیر دی گئی ہے ۔ طعام حزیف چر چراہٹ ( الاکھانا ) ایک روایت میں ہے ۔ (76) کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے ۔ اس کی تحقیق ہمارے رسالہ المنبھۃ علی فوائد القرآن میں ملے گی ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے رعی الرَّعْيُ في الأصل : حفظ الحیوان، إمّا بغذائه الحافظ لحیاته، وإمّا بذبّ العدوّ عنه . يقال : رَعَيْتُهُ ، أي : حفظته، وأَرْعَيْتُهُ : جعلت له ما يرْعَى. والرِّعْيُ : ما يرعاه، والْمَرْعَى: موضع الرّعي، قال تعالی: كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه/ 54] ، أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاه[ النازعات/ 31] ، وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی/ 4] ، وجعل الرَّعْيُ والرِّعَاءُ للحفظ والسّياسة . قال تعالی: فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید/ 27] ، أي : ما حافظوا عليها حقّ المحافظة . ويسمّى كلّ سائس لنفسه أو لغیره رَاعِياً ، وروي : «كلّكم رَاعٍ ، وكلّكم مسئول عن رَعِيَّتِهِ» قال الشاعر : ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعي وجمع الرّاعي رِعَاءٌ ورُعَاةٌ. ومُرَاعَاةُ الإنسان للأمر : مراقبته إلى ماذا يصير، وماذا منه يكون، ومنه : رَاعَيْتُ النجوم، قال تعالی: لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا [ البقرة/ 104] ، وأَرْعَيْتُهُ سمعي : جعلته راعیا لکلامه، وقیل : أَرْعِنِي سمعَك، ويقال : أَرْعِ علی كذا، فيعدّى بعلی أي : أبق عليه، وحقیقته : أَرْعِهِ مطّلعا عليه . ( ر ع ی ) الرعی ۔ اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں ۔ خواہ غذا کے ذریعہ ہو جو اسکی زندگی کی حافظ ہے یا اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ ہو اور رعیتہ کے معنی کسی کی نگرانی کرنے کے ہیں اور ارعیتہ کے معنی ہیں میں نے اسکے سامنے چارا ڈالا اور رعی چارہ یا گھاس کو کہتے ہیں مرعی ( ظرف ) چراگاہ ۔ قرآن میں ہے ۔ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه/ 54] تم بھی کھاؤ اور اپنے چارپاؤں کو بھی چراؤ ۔ أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاها[ النازعات/ 31] اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا ۔ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی/ 4] اور جس نے ( خوش نما ) چارہ ( زمین سے ) نکالا ۔ رعی اور رعاء کا لفظ عام طور پر حفاظت اور حسن انتظام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید/ 27] لیکن جیسے اس کی نگہداشت کرنا چاہئے تھی انہوں نے نہ کی ۔ اور ہر وہ آدمی جو دوسروں کا محافظ اور منتظم ہوا اسے راعی کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ( 157) کلھم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا شاعر نے کہا ہے ( السریع ) ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعی اور محکوم قومیں حاکم قوموں کے برابر نہیں ہوسکتیں ۔ اور راعی کی جمع رعاء ورعاۃ آتی ہے ۔ المراعاۃ کسی کام کے انجام پر غور کرنا اور نہ دیکھنا کہ اس سے کیا صادر ہوتا ہے کہا جاتا ہے ۔ راعیت النجوم میں نے ستاروں کے غروب ہونے پر نگاہ رکھی ۔ قرآن میں ہے : لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا[ البقرة/ 104]( مسلمانو پیغمبر سے ) راعنا کہہ کر مت خطاب کیا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو ۔ کہا جاتا ہے : ارعیتہ سمعی ۔ میں نے اس کی بات پر کان لگایا یعنی غور سے اس کی بات کو سنا اسی طرح محاورہ ہے ۔ ارعنی سمعک میری بات سنیے ۔ اور ارع علٰی کذا ۔ کے معنی کسی پر رحم کھانے اور اسکی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ لوی اللَّيُّ : فتل الحبل، يقال : لَوَيْتُهُ أَلْوِيهِ لَيّاً ، ولَوَى يدَهُ ، قال : لوی يده اللہ الذي هو غالب ولَوَى رأسَهُ ، وبرأسه أماله، قال تعالی: لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون/ 5] : أمالوها، ولَوَى لسانه بکذا : كناية عن الکذب وتخرّص الحدیث . قال تعالی: يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ، وقال : لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء/ 46] ، ويقال فلان لا يلْوِي علی أحد : إذا أمعن في الهزيمة . قال تعالی:إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] وذلک کما قال الشاعر : ترک الأحبّة أن تقاتل دونه ... ونجا برأس طمرّة وثّاب ( ل و ی ) لویٰ ( ض ) الجبل یلویہ لیا کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ لوی یدہ : اس کے ہاتھ کو موڑ الویراسہ وبراسہ وبراسہ اس نے اپنا سر پھیرلیا یعنی اعراض کیا ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون/ 5] تو سر پھیر لیتے ہیں لو یٰ لسانہ بکذا : کنایہ ہوتا ہے جھوٹ بولنے اور اٹکل بچوں کی باتیں بنانے سے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] کتاب ( تو راۃ) کو زبان موڑ موڑ کر پڑھتے ہیں لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء/ 46] زبان کو موڑ کر محاورہ ہے : ۔ فلان لا یلون علیٰ احد ۔ وہ کسی کی طرف گردن موڑ کر بھی نہیں دیکھتا ۔ یہ سخت ہزیمت کھا کر بھاگ اٹھنے کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] جب تم لوگ دور بھاگ جاتے تھے ۔ اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ چناچہ شاعر نے اس معنی کو یوں ادا کیا ہے ( 401 ) ترک الاحبۃ ان تقاتل دو نۃ ونجا بر اس طمرۃ وثاب اور اس نے دوستوں کے درے لڑنا چھوڑ دیا اور چھلا نگیں بھر کر دوڑے والی گھوڑی پر سوار ہو کر بھاگ گیا ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ طعن الطَّعْنُ : الضّربُ بالرّمح وبالقرن وما يجري مجراهما، وتَطَاعَنُوا، واطَّعَنُوا، واستعیر للوقیعة . قال تعالی: وَطَعْناً فِي الدِّينِ [ النساء/ 46] ، وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ [ التوبة/ 12] ( ط ع ن ) الطعن ( ف) کے معنی نیزہ ، سینگ وغیرہ کسی تیز اور نوکیلی چیز کے ساتھ زخم کرنے کے ہیں تطاعنوا واطعنوا انہوں نے ایک دوسرے کو نیزہ مارا پھر استعارہ کے طور پر کسی پر الزام لگانے یا اس کی بدگوئی کرنے کے معنی میں بھی طعن کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَطَعْناً فِي الدِّينِ [ النساء/ 46] اور دین میں طنز کی راہ سی۔ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ [ التوبة/ 12] اور تمہارے دین میں طعنے کرنے لگیں ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔
Top