Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر جہاں سے سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
[ ثُمَّ اَفِیْضُوْا : پھر تم لوگ جوق در جوق نکلو ] [ مِنْ حَیْثُ : جہاں سے ] [ اَفَاضَ : نکلے ] [ النَّاسُ : لوگ ] [ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت طلب کرو ] [ اللّٰہَ : اللہ سے ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ غَفُوْرٌ : بےانتہا بخشنے والا ہے ] [ رَّحِیْمٌ : ہر حال میں رحم کرنے والا ہے ] ترکیب : فعل امر ” اَفِیْضُوْا “ کا فاعل اس کی ” اَنْتُمْ “ کی ضمیر ہے اور ” اَفَاضَ “ کا فاعل ” النَّاسُ “ ہے ‘ جبکہ ” مِنْ حَیْثُ “ ان دونوں کا ظرف ہے اس لیے محلاً منصوب ہے۔ فعل امر ” اِسْتَغْفِرُوْا “ کا فاعل اس کی ” اَنْتُمْ “ کی ضمیر ہے اور لفظ ” اَللّٰہَ “ اس کا مفعول ہے۔ نوٹ (1) : قریش خانہ کعبہ کے ” برہمن “ تھے اور عام حاجیوں کی طرح عرفات جا کر قیام کرنے میں ہتک محسوس کرتے تھے ‘ اس لیے وہ لوگ مزدلفہ میں قیام کرتے تھے اور وہیں سے لوٹتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نےوی آئی پی کلچر کے بت کو توڑنے کا حکم دیا ہے ‘ لیکن ہم لوگوں نے اسے اپنے گلے میں اٹکایا ہوا ہے ‘ نہ نگلے بنتا ہے اور نہ اگلے بنتا ہے۔ اس کلچر کو ہم برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں اور چھوڑتے بھی نہیں۔ یہ مسجد ہے کہ مے خانہ ‘ تعجب اس پہ آتا ہے جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی !
Top