Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر تم پلٹوجہاں سے سب لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ سے معافی چاہو، بیشک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (پھر تم پلٹوجہاں سے سب لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ سے معافی چاہو، بیشک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے) (199) ایک رسم بد کی اصلاح اس آیت کریمہ میں قریش کی ایک رسم بد کی اصلاح کی جارہی ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کے زمانے سے عربوں کا طریقہ حج یہ تھا کہ وہ نو ذی الحج کو منیٰ سے عرفات جاتے تھے اور شام کو وہاں سے پلٹ کر مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے۔ پھر اگلے دن صبح کو منیٰ کا رخ کرتے تھے لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ جب قریش میں ملت ابراہیم سے انحراف شروع ہوا تو جہاں ان میں اور خرابیاں آئیں وہیں مناسکِ حج کی ادائیگی میں بھی کمی بیشی ہوئی۔ پہلے وہ اپنے آپ کو بیت اللہ کے خدام سمجھتے تھے اور حاجیوں کی خدمت اور دینی ماحول کی نگرانی ان کی ذمہ داری تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ اللہ کے گھر کے پروہت بن گئے اور برہمنیت کی ذہنیت ان میں پیدا ہوگئی۔ اس جھوٹے پندار کا شکار ہوکرانھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم چونکہ اہل حرم ہیں ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہل عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں کیونکہ حرم کی حدود عرفات سے کچھ پہلے ختم ہوجاتی ہیں اور عرفات کا سارا علاقہ حدودحرم سے باہر ہے۔ حرم کے پروہت ہونے کی وجہ سے وہ یہ بات اپنی شان امتیاز کے خلاف سمجھتے تھے کہ ہم حج کی ادائیگی کے لیے حرم کی حدود سے باہر نکلیں۔ چناچہ یہ مزدلفہ تک جاتے اور وہیں سے واپس لوٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے۔ شروع میں تو یہ امتیاز صرف قریش میں پیدا ہوا پھر رفتہ رفتہ بنی خزاعہ اور بنو کنانہ اور چند دوسرے ایسے قبیلوں نے بھی یہی روش اپنا لی کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ قریش کے ساتھ شادی بیاہ کے رشتوں میں شریک ہونے کے باعث ان کا مرتبہ بھی قریش کے برابر ہوگیا ہے۔ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے وہ بھی اپنے آپ کو باقی عربوں سے ممتاز سمجھنے لگے اور انھوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا۔ اس آیت کریمہ میں ان سب کے فخروغرور کے بت کو توڑا گیا ہے اور سب کو حکم دیا گیا ہے کہ جس طرح باقی تمام لوگ عرفات سے ہو کر لوٹتے ہیں تمہیں بھی عرفات سے عرفات کے وقوف کے بعد لوٹنا چاہیے اور اسے قیامت تک مسلمانوں کے لیے لازم کردیا گیا بلکہ آنحضرت ﷺ نے یہاں تک فرمایا : الحج عرفۃ ” حج تو عرفات کی حاضری کا نام ہے “۔ کوئی آدمی اگر عرفات میں حاضر نہیں ہوتا تو یہ ایسا اہم رکن ہے کہ ایسے شخص کا حج ادا نہیں ہوتا۔ حاجی وہاں زوال آفتاب تک پہنچ جاتے ہیں۔ جن لوگوں کو مسجد نمرہ میں جگہ مل جاتی ہے وہ مسجد میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ امام کے پیچھے ادا کرتے ہیں اور اس سے پہلے حج کا خطبہ سنتے ہیں۔ اور جن لوگوں کو مسجد میں جگہ نہیں ملتی وہ اپنے اپنے خیموں میں ظہر اور عصر اپنے اپنے وقتوں میں پڑھتے ہیں اور پھر ظہریا عصر کے بعد لوگ اپنے خیموں میں یا باہر کھلی جگہ میں یا جبلِ رحمت کے دامن میں غروب آفتاب تک دعائوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں کا ایک ایک لمحہ زندگی کا حاصل ہے۔ اس لیے ہر سمجھدار حاجی ایک ایک لمحے کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر اپنے لیے کچھ مانگ لینا چاہتا ہے۔ اللہ کی یاد میں ڈوب کر اس کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پھر جیسے ہی توپ کا فائر غروب آفتاب کا اعلان کرتا ہے حاجی فوراً عرفات سے روانہ ہوجاتے ہیں کیونکہ عرفات میں مغرب کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ اب حکم یہ ہے کہ مزدلفہ پہنچو اور وہاں مغرب اور عشا کی نماز ایک ساتھ ادا کرو۔ قریش چونکہ اس سے پہلے عرفات کی حاضری کو چھوڑ کر ایک بہت بڑے جرم کا ارتکاب کرچکے تھے اس لیے انھیں حکم دیا جارہا ہے کہ اب اگرچہ اسلام لانے کے بعد تمہارے پہلے گناہ معاف ہوچکے ہیں لیکن وہ فخر و غرور جو تمہاری گھٹی میں پڑچکا ہے ممکن ہے اس کے اثرات کچھ اب بھی باقی ہوں۔ اس لیے باربار اللہ سے استغفار کرو اور اپنے اس تصور کی اصلاح کے لیے اللہ سے معافی مانگو تاکہ تمہارے اندر کا یہ بت ٹوٹ جائے۔ اسلام نے جن برائیوں سے بڑی تاکید کے ساتھ روکا ہے اور جس کے ارتکاب کرنے والے کے لیے سخت ترین وعید سنائی ہے ان میں سے ایک نہایت خطرناک برائی کبر اور نخوت ہے۔ آنحضرت نے یہاں تک فرمایا کہ جس آدمی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت کی بو نہیں سونگھ سکے گا۔ پھر نماز کے ذریعے مسلمانوں میں مساوات اور یکسانی پیدا کرنے کی پانچ وقت اس طرح تربیت دی گئی کہ اگر یہ عبادت شعور کے ساتھ انجام دی جائے تو کبر اور نخوت کا کوئی شائبہ بھی دل میں باقی نہیں رہ سکتا۔ لیکن حج کی عبادت ایک ایسی عبادت ہے جس میں قدم قدم پر انسانی مساوات اور اونچ نیچ کے خاتمے کا درس دیا گیا ہے۔ سب کو ایک جیسے لباس میں ملفوف کردیا جاتا ہے۔ سب کی زبانوں پر ایک ہی ترانہ گونجتا ہے، سب ایک طرح کے اعمال بجالانے کے پابند کیے جاتے ہیں۔ کالے گورے، امیر و غریب، حاکم و محکوم کے فرق کے بغیر یکساں طور پر سب کو اللہ کے گھر کا طواف کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کرایا جاتا ہے تاکہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا مرض اور سب سے بڑا عارضہ جسے فخروغرور اور چھوٹے بڑے میں امتیاز کا نام دیا جاتا ہے وجود میں نہ آنے پائے۔ چونکہ یہ ایک ایسا مرض ہے کہ جب بھی کسی قوم میں پیدا ہوجاتا ہے اس قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ باہمی احساسات تباہ ہوجاتے ہیں۔ محبت کی جگہ نفرت لے لیتی ہے۔ اور امت مسلمہ جو کسی ایک رنگ یانسل کے لوگوں کا نام نہیں بلکہ ایک عقیدے اور عمل کی وحدت کا نام ہے جس میں مختلف انسانی گروہ اور مختلف انسانی نسلیں اور مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف جغرافیائوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوکرمحض ایک نظریے کی قوت اور ایک عقیدے کی وحدت کی وجہ سے ایک امت کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس میں ابو ذر غفاری اور بلال نہ صرف کہ ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں ہر لحاظ سے یکساں ہیں۔ اس امت میں حضور کے حقیقی چچا کے لیے ایمان نہ لانے کے باعث کوئی جگہ نہیں لیکن حسن جو بصرہ سے آئے، بلال حبش سے اور صہیب روم سے ان کا اس امت میں ایک نمایاں مقام ہے۔ اگر ایسی امت میں تفریق، اونچ نیچ، نسلی تفاوت اور طبقاتی احساس پیدا ہوجائے تو یہ امت نہ صرف اپنی قوت کھو دے گی بلکہ اپنا وجود بھی باقی نہ رکھ سکے گی۔ اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے نہایت تاکید سے ارشاد فرمایا : کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ جہاں کہیں بھی امت مسلمہ کی اس وحدت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیداہو حضور نے اس کے لیے سخت احکام جاری فرمائے اور قرآن کریم نے نہایت ہولناک انجام سے ڈرایا۔ حج جیسی عبادت جو سرتاپا اس بنیادی احساس کو پیدا کرنے والی عبادت ہے اس میں اگر اس طرح کا کوئی حادثہ واقع ہوجائے جیسے قریش کا عمل تھا تو یہ اس امت کے لیے نہایت تباہ کن بات ہوگی۔ اس لیے یہاں بطور خاص اس برائی کی تردید فرمائی گئی۔
Top