Al-Qurtubi - Al-Kahf : 51
مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ١۪ وَ مَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا
مَآ : نہیں اَشْهَدْتُّهُمْ : حاضر کیا میں نے انہیں خَلْقَ : پیدا کرنا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَا خَلْقَ : نہ پیدا کرنا اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں (خود وہ) وَمَا كُنْتُ : اور میں نہیں مُتَّخِذَ : بنانے والا الْمُضِلِّيْنَ : گمراہ کرنے والے عَضُدًا : بازو
میں نے ان کو نہ تو آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا اور نہ خود ان کے پیدا کرنے کے وقت اور میں ایسا نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کو مددگار بناتا
تفسیر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما اشھدتھم خلق السموت والارض ولا خلق انفسہم بعض علماء نے فرمایا : ھم ضمیر کا مرجع ابلیس اور اس کی ذریت ہے یعنی میں نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور خود ان کی تخلیق میں ان سے مشورہ نہیں لیا تھا بلکہ میں نے اپنے ارادہ کے مطابق انہیں تخلیق کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : میں نے ابلیس اور اس کی ذریت سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں مشورہ نہیں لیا اور نہ ان مشرکوں کی ذوات کی تخلیق میں ان سے مشورہ لیا تھا۔ تو پھر انہوں نے میرے سوا ان کو دوست کیسے بنا لیا ؟ بعض علماء نے فرمایا : ما اشھدتھم میں ضمیر کا مرجع مشرکین ہیں اور تمام لوگ ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : میں نے اپنے باپ کو سنا وہ کہتے تھے میں نے فقیہ ابو عبداللہ محمد بن معاذ مہدوی کو مہدیۃ میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبدالحق صقلی کو یہ قول کرتے ہوئے سنا وہ اس آیت میں یہ تفسیر کرتے تھے کہ یہ آیت ان طوائف کا رد کرنے والی ہے (1 یہ بعض اصولیین نے ذکر کیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : میں کہتا ہوں : آیت سے اولاً مقصود ابلیس اور اس کی اولاد ہے۔ اس وجہ سے مذکورہ طوائف کا رد ثابت ہوتا ہے اور ان لوگوں کا رد ثابت ہے جو کاہن اور جنوں کی تعظیم کرنے والے ہیں، جب وہ کہتے ہیں : اعوذ بعزیز ھذا الوادی میں اس وادی کے غالب کی پناہ چاہتا ہوں کیونکہ یہ تمام گروہ ابلیس اور اس کی ذریت سے متعلق ہیں۔ انہوں نے ان سب کو گمراہ کیا ہے۔ امضلین سے یہی مراد ہے۔ اور یہ تمام مذکورہ گروہ ان کے مفہوم میں داخل ہیں۔ ثعلبی نے کہا : بعض اہل علم نے کہا : ما اشھدتھم خلق السموت والارض نجومیوں کا رد ہے کیونکہ انہوں نے کہا : افلاک زمین میں پیدا کیے جاتے ہیں اور بعض میں بعض پیدا کیے جاتے ہیں اور الارض کا قول اصحالِ ہندسہ کا رد ہے۔ کیونکہ انہوں نے کہا : زمین کروی ہے اور افلاک اس کے نیچے چلتے ہیں، لوگ اس کے نیچے اور اس کے اوپر ہیں۔ ولا خلق انفسہم طباعین کا رد ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ طبائع نفوس میں اثر کرتی ہیں۔ ابو جعفر نے ” ما اشھدناھم “ پڑھا ہے یعنی تعظیم کے لیے نون اور الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ باقی قراء نے تاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اس کی دلیل وما کنت متخذ ہے یعنی میں نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں نہ ان سے مدد لی ہے اور نہ میں نے ان سے مشورہ کیا : وما کنت متخذ المضلین یعنی شیاطین۔ بعض علماء نے فرمایا : المضلین سے مراد کفار ہیں۔ عضداً مددگار۔ کہا جاتا ہے اعتضدت فلانا تو اس سے مدد طلب کرے اور قوت حاصل کرے۔ اس میں اصل عضد الید ہے، یعنی باز، پھر یہ مدد کے لیے استعمال کیا گیا کیونکہ ہاتھ کا قوام عضد (کہنی سے اوپر والا حصہ) کہا جاتا ہے : عضدہ وعاضدہ علی کذا۔ جب کوئی کسی کی مدد کرے اور اسے تقویت دے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سنشد عضدک باخیک (القصص : 35) یعنی ہم تیرے بھائی کے ذریعے تیری مدد کریں گے۔ لفظ عضد، المثل کی جہت پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کا محتاج نہیں۔ مذمت اور توبیخ میں زیادتی کے لیے مضلین کا خاص ذکر کیا۔ ابوجعفر حجدری نے وما کنت تاء کے فتح کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی اے محمد ! ﷺ تو گمراہوں کو اپنا دست وبازو بنانے والا نہیں۔ عضداً میں آٹھ وجوہ ہیں۔ عضد عین کے فتحہ اور ضاد کے ضمہ کے ساتھ، یہ جمہور کی قرأت ہے، اور یہ افصح وجہ ہے۔ عضداً عین کے فتحہ اور ضاد کے سکون کے ساتھ، یہ بنی تمیم کی لغت ہے، عضداً عین اور ضاد کے ضمہ کے ساتھ، یہ ابو عمرو اور حسن کی قرأت ہے۔ عضداً عین کے ضمہ اور ضاد کے فتح کے ساتھ، یہ عیسیٰ بن عمر کی قرأت ہے۔ ہارون القاری نے عضد عین کے فتح اور ضاد کے کسرہ کے ساتھ حکایت کیا ہے اور آٹھویں لغت عضداً عین کے کسرہ اور ضاد کے سکون کے ساتھ، یہ ان کی لغت ہے جو کتف اور فخذ کہتے ہیں۔
Top