Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 203
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۚ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۙ لِمَنِ اتَّقٰى١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
وَاذْكُرُوا
: اور تم یاد رکھو
اللّٰهَ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ
: دن۔ گنتی کے
فَمَنْ
: پس جو
تَعَجَّلَ
: جلد چلا گیا
فِيْ
: میں
يَوْمَيْنِ
: دو دن
فَلَآ
: تو نہیں
اِثْمَ
: گناہ
عَلَيْهِ
: اس پر
وَمَنْ
: اور جس
تَاَخَّرَ
: تاخیر کی
فَلَآ
: تو نہیں
اِثْمَ
: گناہ
عَلَيْهِ
: اس پر
لِمَنِ
: لیے۔ جو
اتَّقٰى
: ڈرتا رہا
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّكُمْ
: کہ تم
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
تُحْشَرُوْنَ
: جمع کیے جاؤگے
اور (قیام منی کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن ہیں) خدا کو یاد کرو اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں اور جو بعد تک ٹھیرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں یہ باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو (خدا سے) ڈرے اور تم لوگ خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ سب اس کے پاس جمع کئے جاؤ گے
قولہ تعالیٰ : واذکروا اللہ فی ایام معدودت اس میں چھ مسائل ہیں۔ : مسئلہ نمبر، (
1
) کو فیوں نے کہا ہے کہ معدودات میں الف اور تاعدد کی قلت کو بیان کرنے کے لئے ہیں اور بصریوں کا موقف ہے کہ یہ دونوں قلیل و کثیر کے لیے آتے ہیں اور اس پر دلیل رب العالمین کا یہ ارشاد ہے (آیت) ’ وھم فی الغرفت امنون “۔ (سبا :
37
) اور غرفات کثیر ہیں۔ (یعنی غرفات میں الف اور تا کثرت کے بیان کے لئے ہیں اور (آیت) ” معدودت “ میں قلت کو بیان کرنے کے لئے۔ معلوم ہوا یہ دونوں قلیل وکثیر کے لئے آتے ہیں۔ ) اور علماء کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس آیت میں (آیت) ” ایام معدودت “۔ سے مراد ایام معنی ہیں اور یہی ایام تشریق ہیں، اور یہ تینوں اسماء انہی پر واقع ہوتے ہیں اور یہی رمی جمار کے ایام ہیں، اور ان کا اطلاق ان تینوں دنوں پر ہوتا ہے جن میں حاجی یوم نحر کے بعد دو دنوں میں جلدی کرکے کوچ کرسکتا ہے۔ پس تو اس پر واقف رہ۔ ثعلبی اور ابراہیم نے کہا ہے کہ (آیت) ” ایام معدودت “۔ دس ہیں اور (آیت) ” ایام معدودت “۔ ایام نحر ہیں۔ اسی طرح مکی اور مہدوی نے بیان کیا ہے کہ (آیت) ” ایام معدودت “۔ سے مراد دس دن ہیں۔ ابو عمر بن عبدالبر وغیرہ کے نقل کرنے کی بنا پر جو ہم نے اس بارے میں اجماع ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے کہ یہ (اجماع) یا تو کتابت کی غلطی کی بنا پر ہے یا پھر وہ دس دن مراد ہیں جو یوم نحر کے بعد ہیں اور یہ حقیقت سے بہت دور ہے۔ مسئلہ نمبر (
2
) اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے (آیت) ” ایام معدودت “۔ میں اپنے بندوں کو اپنے ذکر کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور یہ یوم نحر کے بعد والے تین دن ہیں، یوم نحر ان میں شامل نہیں۔ کیونکہ اس پر لوگوں کا اجماع ہے کہ یوم النفر کو کوئی بھی (وہاں سے) کوچ نہیں کرسکتا اور یوم النفر سے مراد یوم النحر کا دوسرا دن ہے (یعنی گیارہویں ذوالحجہ کا دن) ۔ اگر یوم نحر (آیت) ” ایام معدودت “۔ میں شامل ہوتا تو پھر یہ جائز ہوتا تو پھر یہ جائز ہوتا کہ جو کوئی یوم نفر کو جلدی (وہاں سے) کوچ کرنا چاہتا وہ کرسکتا کیونکہ اس طرح وہ (آیت) ” ایام معدودت “۔ میں سے دو دن وہاں ٹھہر چکا ہوتا۔ (لیکن ایسا کرنا درست نہیں لہذا معلوم ہوا کہ یوم نحر (آیت) ” ایام معدودت “۔ میں شامل نہیں۔ ) دارقطنی اور ترمذی وغیرہما نے عبد الرحمن بن یعمر الدیلی سے روایت بیان کی ہے کہ اہل نجد میں سے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے جبکہ آپ عرفات میں تھے۔ تو انہوں نے (اس کے بارے) آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے منادی کو حکم ارشاد فرمایا۔ پس اس نے یہ اعلان کیا ” حج تو عرفات میں ہے۔ پس جو کوئی مزدلفہ کی رات طلوع فجر سے پہلے پہلے یہاں آگیا اس نے حج کو پالیا۔ کا ایام منی تین ہیں پس جو کوئی جلدی کرکے دو دونوں میں ہی چلا گیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو دیر وہاں ٹھہرا رہا تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ (
1
) (سنن ترمذی، باب فیمن ادرک الامام بجباع الخ، حدیث نمبر
814
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) “ یعنی حاجیوں میں سے کو ایام منی میں سے دو دنوں میں ہی جلدی کرکے چلا گیا تو اس کا قیام بھی منی میں یوم نحر سمیت تین دن ہوگیا۔ اور اس کی مجموعی رمی انچاس کنکریاں ہوجائے گی اور تیسرے دن کی رمی اس سے ساقط ہوجائے گی اور جس کسی نے تیسرے دن کے آخر میں وہاں سے کوچ کیا تو یوم نحر کے سبب اس کے لیے چار دن منی میں قیام ہوگیا اور اس نے رمی کی تعداد پوری کرلی۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ ایام منی تین دن ہیں اس کے بارے جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ایک دلیل عرجی کا یہ قول بھی ہے۔ مانلتقی الا ثلاث منی حتی یفرق بیننا بیننا النفر : ہم منی کے تین دن مل کر اکٹھے ہی رہتے ہیں یہاں تک کہ وہاں سے کوچ ہمیں متفرق کردیتی ہے۔ پس ایام رمی (آیت) ” معدودت “۔ کہلاتے ہیں اور ایام نحر ” معلومات “ کہلاتے ہیں۔ حضرت نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ (آیت) ” ایام معدودت “۔ اور ایام معلومات مجموعی طور پر چار دن ہیں۔ ایک یوم نحر اور تین اس کے بعد۔ ان میں یوم نحر (دسویں ذمی الحجہ کا دن) یوم معلوم ہے معدود نہیں۔ اور بعد والے دو دن (یعنی گیارہوں اور بارہویں ذوالحجہ کا دن) معلوم بھی ہیں اور معدود بھی اور چوتھا دن (یعنی تیر ہوں ذوالحجہ کا دن) فقط یوم معدود ہے معلوم نہیں۔ اور یہی حضرت امام مالک (رح) وغیرہ کا مذہب ہے۔ اور بلاشبہ اسی طرح ہے کیونکہ پہلا دن ان دنوں میں سے نہیں ہے جو اس ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق منی کے ساتھ خاص ہیں (آیت) ” وذکرو اللہ فی ایام معدودت “۔ اور نہ ہی یہ انمیں سے ہے جنہیں حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں معین فرمایا ہے کہ ” ایام منی ثلاثۃ “ کہ ایام منی تین ہیں (پس اس سے معلوم ہوا کہ) پہلا دن معلوم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومت علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام “۔ (الحج :
28
) ّترجمہ : اور وہ ذکر کریں اللہ تعالیٰ کے نام کا مقررہ دنوں میں ان بےزبان چوپائیوں پر (ذبح کے وقت) جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ ) اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس سے مراد قربانی ہے اور قربانی پہلے دن ہوتی ہے اور یہی یوم الاضحی ہے اور دوسرے اور تیسرے دن ہوتی ہے۔ (یعنی گیارہویں اور بارہویں ذوالحجہ کے دن) اور چوتھے دن قربانی نہیں ہوتی اس پر ہمارے علماء کا اجماع ہے۔ (پس اس سے معلوم ہوا کہ) ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” فی ایام معلومت “ میں چوتھا دن مراد نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں قربانی نہیں کی جاتی اور چونکہ اس میں رمی کی جاتی ہے پس وہ رمی کے سبب معدودات میں سے ہے۔ اور قربانی نہ ہونے کے سبب وہ یوم معلوم نہیں ہے۔ حضرت ابن عربی (رح) نے فرمایا : اس میں حقیقت یہ ہے کہ یوم نحر رمی کے سبب یوم معدود ہے اور ذبح (قربانی) کے سبب وہ یوم معلوم ہے۔ لیکن ہمارے علماء کے نزدیک قول باری تعالیٰ (آیت) ” واذکروا اللہ فی ایام معدودت “۔ میں یہ مراد نہیں ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) نے فرمایا ہے کہ (آیت) ” ایام معلومت “ سے مراد دن دن ہیں ان میں سے پہلا دن ذوالحجہ کا پہلا دن ہے اور آخری دن یوم نحر ہے۔ اس بارے میں ان دونوں کا قول مختلف نہیں اور دونوں نے اسے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور امام طحاوی (رح) نے حضرت امام ابو یوسف (رح) سے یہ روایت کیا ہے کہ (آیت) ” ایام معلومت “ سے مراد ایام نحر ہیں۔ امام ابو یوسف (رح) نے فرمایا : حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ سے اسی طرح مروی ہے۔ اور یہی میرا موقف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ : (آیت) ” ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومت علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام “۔ (الحج :
28
) اور امام کرخی نے امام محمد بن حسن (رح) سے بیان کیا ہے کہ (آیت) ” ایام معلومت “ سے مراد تین ایام نحر (قربانی کے دن) ہیں۔ یعنی ایام یوم الاضحی اور دو دن اس کے بعد۔ الکیاطبری نے کہا ہے۔ (
1
) (احکام القرآن، جلد
1
، صفحہ
121
) کہ امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) کے قول کے مطابق ”’ معلومت “ اور ” معدودت “ کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں مذکور (آیت) ” ایام معدودت “ سے مراد بلا اختلاف ایام تشریق ہیں۔ اور اس بارے میں کوئی شک نہیں کرتا کہ ” معدودت “ ایام عشر کو شامل نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (آیت) ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “ اور ایام عشر میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے جو دو دنوں (گیارہویں ‘ بارہویں) سے تو تعلق رکھتا ہو اور تیسرے سے نہ رکھتا ہو۔ تحقیق حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ معلومات دس ہیں اور معدودات ایام تشریق ہیں اور یہی جمہور کا قول ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ ابن زید نے کہا ہے : ایام معلومات ذوالحجہ کے دس دن اور ایام تشریق ہیں اور اس میں بہت بعد ہے ‘ ایک تو اس بنا پر جو کچھ ہم نے ذکر کردیا ہے اور (دوسرا) آیت کا ظاہر بھی اس کا دفاع کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ایام معدودت “ اور ” معلومت “ میں ذکر کا بیان کیا ہے وہ بھی اس قول کے خلاف پر دلالت کرتا ہے لہذا اس سے مشغول ہونے کا کوئی معنی نہیں۔ مسئلہ نمبر، (
3
) اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ (آیت میں) اس ذکر کا مخاطب حج کرنے والا (حاجی) ہے اسے ہی رمی جمار کے وقت تکبیر کہنے کے بارے خطاب کیا گیا ہے (اور یہ کہ وہ تکبیر کہیں) مقررہ دونوں میں ان بےزبانوں چوپائیوں پر (ذبح کے وقت) اور نمازوں کے بعد (تکبیر کہیں) نہ کہ تلبیہ۔ (اب سوال یہ ہے) کیا غیر حاجی بھی اس میں داخل ہے یا نہیں ؟ تو وہ نظر یہ جو فقہاء امصار اور مشاہیر صحابہ کرام اور تابعین نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ تکبیر کے حکم میں مراد ہر کوئی ہے (چاہے وہ حج کر رہا ہو یا نہیں) خصوصا اوقات نماز میں، پس وہ ہر نماز کو ادا کرنے کے بعد تکبیر کہے۔ چاہے نمازی اکیلا ہو یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والا ہو۔ ان ایام میں یہ تکبیر ظاہر اور بلند آواز سے کہی جائے گی اور یہی اسلام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اقتدا ہے۔ اور مختصر میں ہے : عورتیں نمازوں کے بعد تکبیر نہ کہیں۔ لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے کیونکہ احرام کا حکم مردوں کی طرح انہیں بھی لازم ہے، ” مدونہ “ میں اسی طرح ہے۔ مسئلہ نمبر، (
4
) جو کوئی نماز کے پیچھے تکبیر کہنا بھول گیا تو وہ تکبیر کہہ لے اگر وہ قریب ہو اور اگر دور چلا جائجے تو اس پر کوئی شے (کفارہ وغیرہ) لازم نہیں ہوگی۔ ابن الجلاب نے یہی کہا ہے اور حضرت امام مالک نے ” المختصر “ میں کہا ہے وہ تکبیر کہے جب تک اسی مجلس میں رہے اور جب اپنی مجلس سے اٹھ کر کھڑا ہوا تو پھر اس پر کوئی شے لازم نہیں اور مدونہ میں امام مالک (رح) کا یہ قول ہے : اگر امام تکبیر بھول جائے تو اگر وہ قریب ہی ہو تو وہ بیٹھ جائے اور تکبیر کہے اور اگر دو ہر جائے تو پھر اس پر کوئی شے نہیں اور اگر وہ چلا گیا اور اس نے تکبیر کہی درآنحالیکہ لوگ بیٹھے ہوئے ہوں تو انہیں چاہئے کہ وہ تکبیر کہہ لیں۔ مسئلہ نمبر : (
5
) مدت تکبیر کی دونوں طرفوں میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت عمر فاروق اعظم بن خطاب، حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے فرمایا ہے کہ (آدمی) نویں ذی الحجہ کی صبح کی نماز سے لے کر آیام تشریق میں سے آخری دن (یعنی تیرہویں ذی الحجہ کا دن) کی عصر تک تکبیر کہے گا۔ حضرت ابن مسعود ؓ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے کہ وہ یوم عرفہ کی صبح سے لے کر یوم نحر کی نماز عصر تک (ہر نماز کے بعد) تکبیر کہے گا۔ صاحبین (حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد (رح)) نے ان دونوں سے اختلاف کیا ہے اور دونوں نے پہلا قول یعنی حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا قول ہی لیا ہے۔ پس انہوں نے ابتدائے مدت میں تو اتفاق کیا ہے لیکن انتہا میں نہیں۔ حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا کہ (آدمی) یوم نحر کی ظہر کی نماز سے لے کر ایام تشریف میں سے آخری دن کی نماز صبح تک تکبیر کہے گا، امام شافعی (رح) نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ اور یہی حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا بھی قول ہے۔ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا ہے کہ وہ یوم نحر کی ظہر کی نماز سے لے کر ایام تشریق کے آخر تک تکبیر کہے۔ ابن عربی (رح) نے کہا ہے کہ جنہوں نے یہ کہا ہے کہ وہ یوم عرفہ کو تکبیر کا آغاز کرے گا اور یوم نحر کی عصر کے وقت ختم کر دے گا، تو ان کا یہ قول ظاہر کلام سے خارج ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے (آیت) ” فی ایام معدودت “ اور یہ ایام تین ہیں۔ حالانکہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ دو دنوں میں تکبیر کہے گا تو اس طرح انہوں نے ظاہر کلام کو بغیر دلیل کے چھوڑ دیا۔ اور رہے وہ جنہوں نے یہ کہ (تکبیر کہنے کے ایام) یوم عرفہ اور ایام تشریق ہیں تو انہوں نے کہا : بلاشبہ رب کریم نے ارشاد فرمایا (آیت) ” فاذا افضتم من عرفت “ (بقرہ :
198
) تو اس میں عرفات کا ذکر ایام کے ذکر میں داخل ہے۔ یہ نظریہ صحیح ہو سکتا تھا اگر وہ یہ کہتے کہ وہ عرفہ کے دن مغرب کی نماز سے تکبیر کہے گا کیونکہ عرفات سے واپس لوٹنے کے وقت تو وہی (مغرب کا وقت) ہے اور جو وقت اس سے پہلے ہے ظاہر لفظ اس کا تقاضا نہیں کرتے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ آٹھویں ذی الحجہ (یوم ترویہ) میں سے ہو جو کہ منی میں اترنے کا وقت ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) تکبیر کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ حضرت امام مالک (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ نماز کے بعد تین بار تکبیر کہے گا۔ اسے زیاد بن زیاد نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے اور ایک مذہب میں ایک روایت یہ ہے کہ تین بار تکبیر کہنے کے بعد یہ کہا جائے گا۔ ” لا الہ الا اللہ ‘ واللہ اکبر وللہ الحمد “ اور المختصر میں امام مالک (رح) سے یہ الفاظ مروی ہیں ” اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ‘ واللہ اکبر وللہ الحمد “۔ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ “۔ میں اکیس مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
1
) اس مقام پر تعجیل (جلدی کرنا) ہمیشہ دن کے آخری حصہ میں ہوگی اور اسی طرح یہ تیسرے دن ہوگی ‘ کیونکہ ان ایام میں رمی جمار کا وقت زوال کے بعد ہے اور اس پر اجماع ہے کہ یوم نحر کو جمرہ عقبہ کے سوا کسی پر رمی نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یوم نحر کو اس کے سوا کسی جمرہ پر رمی نہیں کی۔ اور اس کا وقت طلوع شمس سے لے کر زوال تک ہے اور اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ ایام تشریق میں جمرات پر رمی کرنے کا وقت زوال کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔ البتہ اس کے بارے میں اختلاف ہے جس نے جمرہ عقبہ پر رمی طلوع فجر سے پہلے کی یا طلوع فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے کی۔ حضرت امام مالک (رح)، امام ابوحنیفہ (رح) امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) نے کہا ہے : فجر کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی جائز ہے۔ اور امام مالک (رح) نے فرمایا ہے کہ ہم تک ایسی کوئی خبر نہیں پہنچی کہ رسول اللہ نے فجر طلوع ہونے سے پہلے کسی کو رمی کرنے کی رخصت عطا فرمائی ہو۔ لہذا فجر سے پہلے اس کی رمی جائز نہیں اور کسی نے فجر سے پہلے وہاں رمی کی تو وہ اس کا اعادہ کرے گا۔ اسی طرح امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی (طلوع فجر سے پہلے) جائز نہ ہوگی اور اسی طرح امام احمد اور اسحاق نے بھی کہا ہے۔ اور ایک گروہ نے طلوع فجر سے پہلے رمی کرنے کی رخصت دی ہے حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے مروی ہے کہ وہ رات کے وقت رمی کرتی تھیں اور یہ کہتی تھی : بلاشبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مقدس میں ایسا کرتی تھیں۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے (
1
) (سنن ابی داؤد، باب التعجیل من جمع، حدیث نمبر
1659
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ قول حضرت عطاء ابن ابی ملیکہ اور عکرمہ بن خالد سے مروی ہے۔ اور اسی طرح حضرت امام شافعی (رح) نے فرمایا ہے بشرطیکہ رمی نصف رات کے بعد ہو۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : سورج طلوع ہونے سے پہلے رمی نہیں کی جائے گی۔ مجاہد نخعی اور ثوری نے یہی کہا ہے۔ اور ابو ثور نے کہا ہے : اگر کسی نے طلوع شمس سے پہلے رمی کی تو اگر (علماء نے) اس میں اختلاف کیا، تو پھر یہ جائز نہیں ہوگی۔ اور اگر انہوں نے اتفاق کرلیا یا اس میں کوئی سنت موجود ہو تو پھر یہ جائز ہوگی۔ ابو عمر ؓ نے کہا ہے : جہاں تک ثوری اور اس کی اتباع کرنے والوں کا قول ہے تو اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طلوع آفتاب کے بعد جمرہ کی رمی کی اور فرمایا : ” خذوا عنی مناسککم “ (احکام حج بھی مجھ سے سیکھ لو) اور ابن المنذر نے کہا ہے : سنت یہ ہے کہ رمی جائز نہ ہوگا۔ اگر کسی نے رمی کی تو وہ اس کا اعادہ کرے۔ کیونکہ اس طرح کرنے والا اس طریقہ اور سنت کے خلاف کرنے والا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے لئے مقرر فرمایا۔ اور جس کسی نے طلوع فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے رمی کی، تو اس پر اعادہ نہیں ہے۔ کیونکہ میں کسی کے بارے میں نہیں جانتا کہ اس نے کہا ہو ” یہ جائز نہیں ہے۔ “ مسئلہ نمبر : (
2
) معمر نے بیان کیا ہے کہ مجھے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓ کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ یوم نحر کو مکہ مکرمہ میں صبح کرے اور یہی اس کا دن تھا۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ اس حدیث کے بارے میں ہشام پر اختلاف کیا گیا ہے ‘ پس ایک گروہ نے اسے ہشام عن ابیہ عن عائشہ ؓ کی سند سے مسند روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ ؓ کو اسی طرح حکم ارشاد فرمایا تھا۔ اور بعض دوسروں نے اسے ” عن ہشام عن ابیہ عن زینب بنت ابی سلمہ عن ام سلمہ ؓ کی سند سے بھی مسند روایت کیا ہے۔ اور تمام راوی ثقہ ہیں۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے منی میں فجر سے پہلے جمرہ پر رمی کی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یوم نحر کی صبح مکہ میں کرنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا اور یہ نہیں ہو سکتا مگر تبھی جبکہ رات کے وقت منی میں فجر سے پہلے جمرہ پر رمی کی ہو۔ واللہ اعلم۔ اور اسے ابو داؤد نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہارون بن عبداللہ نے ہمیں بیان کیا کہ ابن ابی فدیک ضحاک بن عثمان نے ہشام بن عروہ عن ابیہ عن عائشہ ؓ کی سند سے ہمیں بیان کیا ہے کہ ام المؤ منین ؓ نے ارشاد نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے دسویں ذی الحجہ کی رات حضرت ام سلمہ ؓ کی طرف حکم بھیجا، پس انہوں نے فجر سے پہلے جمرہ پر رمی کی، پھر چلی گئیں اور طواف اضافہ کیا۔ اور یہ دن وہبی دن تھا جس میں رسول اللہ ﷺ انہی کے پاس ہوتے تھے۔ (
1
) (سنن ابی داؤد، باب التعجیل من جمع، حدیث نمبر
1658
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) “۔ اور جب یہ ثابت ہوگیا تو پھر جس کسی نے رات کے وقت رمی کی وہ جائز ہے، اور سورج طلوع ہونے سے لے کر زوال تک اختیار ہے۔ ابو عمرو نے کہا ہے : اس پر اجماع ہے کہ جمرہ عقبہ پر ری کرنے کے بارے پسندیدہ وقت سورج طلوع ہونے سے لے کر اس کے زوال تک ہے۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ جمرہ عقبہ پر رمی کرنے کے بارے پسندیدہ وقت سورج طلوع ہونے سے لے کر اس کے زوال تک ہے۔ اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر کسی نے نحر کے دن سورج غروب ہونے سے پہلے اس پر رمی کی، تو وہ اس کی طرف سے جائز ہوگی اور اس پر کوئی شے لازم نہ ہوگی۔ مگر حضرت امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ اگر اس نے جمرہ عقبہ کی رمی چھوڑ دی یہاں تک کہ شام ہوگئی تو وہ خون بہائے (یعنی ایک جانور قربانی کرے) اور اسے وہ مقام حل سے لے کر آئے۔ اور ایے آدمی کے بارے اختلاف ہے کہ جس نے جمرہ پر رمی نہ کی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، پھر اس نے رات کے وقت یا دوسرے دن رمی کی تو اس کے بارے حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا ہے کہ اس پر دم واجب ہے، اور اس طرح استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمی جمار کے لئے ایک وقت مقرر فرمایا ہے، اور وہ یوم نحر ہے۔ (
2
) (جامع ترمذی، باب ماجاء ل رمی یوم النحر ضحی ‘ حدیث
818
، ابن ماجہ، باب رمی الجمار ایام التشریق، حدیث
3043
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس جس نے غروب شمس کے بعد رمی کی، تو اس نے رمی کا وقت نکلنے کے بعد رمی کی۔ اور جو کوئی بھی حج کے دوران کوئی عمل اس کے وقت کے بعد کرے تو اس پر دم واجب ہوتا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) نے فرمایا ہے : اس پر دم لازم نہیں ہوگا، یہی قول حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد (رح) کا بھی ہے۔ اور اسی طرح ابو ثور نے بھی کہا ہے۔ کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک سائل کو فرمایا : جب اس نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ میں نے شام ہونے کے بعد رمی کی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : لاحرج کوئی حرج نہیں ہے۔ (
1
) (صحیح بخاری، باب الذبح قیل الحلق حدیث نمبر
1608
‘ ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حضرت امام مالک نے فرمایا : جو رمی جمار بھول گیا یہاں تک کہ شام ہوگئی تو پھر رات یا دن کے وقت جس ساعت میں اسے یاد آجائے وہ رمی کرلے جیسا کہ (بھولنے والا) نماز پڑھ لے جب اسے یاد آجائے، اور وہ رمی نہ کرے مگر صرف وہی جو فوت ہوئی (یعنی جو رمی اپنے وقت پر نہ ہوسکی) اور اگر وہ ایک جمرہ ہو تو اس پر رمی کرے پھر اس رمی کے بعد جن جمروں پر رمی کرنی ہے وہرمی کرے گا، کیونکہ رمی جمار میں ترتیب واجب ہے۔ اور یہ جائز نہیں کہ وہ پہلے جمرہ کی رمی مکمل کرنے سے پہلے دوسرے جمرہ کی رمی میں شروع ہوجائے جیسا کہ نماز کی رکعتوں میں کرنا جائز نہیں ہوتا۔ یہی مشہورمذہب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رمی کے صحیح ہونے کے لئے ترتیب واجب نہیں ہے بلکہ جب مکمل رمی ادائیگی کے وقت کے دوران ہو تو وہ جائز ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) جب رمی کے ایام گزر جائیں تو پھر کوئی رمی نہیں ہے۔ پس اس کے بعد اگر وہ اسے یاد آجائے جو اس سے صادر ہو رہا ہے درآنحالیکہ ابھی وہ مکہ میں ہی ہو یا مکہ مکرمہ سے نکلنے سے نکلنے کے بعد، تو اس پر ہدی (قربانی) واجب ہوگی چاہے اس نے مکمل رمی جمار چھوڑ دیا ہو، یا ان میں سے ایک جمرہ کی رمی ترک کردی ہو، یا ایک جمرہ کی کنکری چھوڑ دی ہو، یہاں تک کہ ایام منی (یعنی ایام رمی) گزر گئے تو اس پر دم واجب ہوگا۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے : اگر اس نے مکمل رمی جمار ترک کردیا تو اس پر دم واجب ہوگا اور اگر ایک جمرہ چھوڑدیا تو اس پر جمرہ کی کنکری کے بدلے مسکین کو نصف صاع کھانا دینا ہوگا یہاں تک کہ وہ دم کو پہنچ جائے، پھر وہ جو چاہے کھلا دے۔ مگر جمرہ عقبہ کی رمی چھوڑنے کے عوض اس پر دم واجب ہوگا۔ امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : وہ صدقہ کرے گا اگر اس نے کنکری چھوڑ دی۔ اور امام ثوری نے کہا ہے : وہ ایک، دو اور تین کنکریوں کے عوض تو کھانا کھلائے گا اور اگر اس نے چار یا اس سے زیادہ کنکریاں چھوڑ دیں، تو پھر اس پر دم واجب ہوجا، اور فقیہ اللیث نے کہا ہے : ایک کنکری چھوڑ دینے میں دم واجب ہے ‘ اور امام شافعی (رح) کا بھی ایک قول یہی ہے۔ اور ان کا دوسرا مشہور قول یہ ہے کہ ایک کنکری میں ایک مد (
2
) (ایک پیمانہ جس کی مقدار اہل حجاز کے نزدیک
33
،
1
رطل اور اہل عراق کے نزدیک
2
رطل ہے ) “ طعام واجب ہے، دو کنکریوں میں دو مد اور تین کنکریوں میں دم واجب ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) رمی جمار میں سے جو ایام تشریق کے دوران رہ جائے یہاں تک کہ آخری یوم تشریق کا سورج غروب ہوجائے تو تمام کے نزدیک رمی کرنے کا کوئی ذریعہ اور جواز نہیں۔ (آخری یوم تشریق سے مراد) یوم نحر سے لے کر چوتھا دن ہے اور یہ ایام تشریق میں تیسرا دن ہے۔ (یعنی تیرہویں ذی الحجہ کا دن) البتہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق دم یا کھانا کھلانا اس کی طرف سے جائز ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
5
) ایام تشریق کی راتیں منی کے علاوہ مکہ مکرمہ یا کہیں اور گزارنا جائز نہیں ہے کیونکہ تمام کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں ہے سوائے چرواہوں کے اور آل عباس کے ان افراد کے جنہیں پانی پلانے کی ولایت حاصل ہے۔ امام بخاری نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عباس ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے منی کی راتیں (حاجیوں کو) پانی پلانے کے لئے مکہ مکرمہ میں گزارنے کی اجازت طلب کی، تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت عطا فرما دی۔ (
1
) (مسند امام احمد، حدیث نمبر
4731
) ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ حضرت عباس ؓ پانی پلانے بارے نگرانی کرتے تھے اور اس کے معاملے کا اہتمام کرتے تھے اور پھر ایام حج میں حاجیوں کو اس کا پانی پلاتے تھے۔ سو اسی لئے آپ کو منی کی بجائے مکہ مکرمہ میں رات گزارنے کی رخصت دی گئی، جیسا کہ اونٹ چرانے والوں کو ان کی حاجت کے پیش نظر رخصت دی گئی، کیونکہ انہوں نے اونٹ چرانے کے لئے چراگاہ کی طرف نکلنے کی ضرورت ہوتی تھی جو کہ منی سے دور تھی۔ منی کا نام منی اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں خون بہایا جاتا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : بلاشبہ اس کا نام منی رکھا گیا ہے کیونکہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو کہا : آپ تمنا اور آرزو کیجئے۔ تو آپ نے کہا :” میں جنت کی تمنا کرتا ہوں “۔ پس اس کا نام منی رکھا دیا گیا۔ اور فرمایا : اس کا نام جمع بھی رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں حضرت حوا اور حضرت آدم (علیہما السلام) جمع اور اکٹھے ہوئے ہیں (یعنی ان دونوں کی آپس میں ملاقات ہوئی ہے۔ ) اور جمع مزدلفہ کا بھی نام ہے۔ اور یہ المشعر الحرام بھی ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) فقہاء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ ان لوگوں کے سوا جنہیں رخصت دی گئی ہے حاجیوں کے لئے منی کی راتیں منی میں گزارنا حج کے شعائر اور اس کے احکام میں سے ہے۔ حج اور اس کے تمام احکام پر قیاس کرتے ہوئے عقل (نظر وفکر) حج کے احکام میں سے کسی حکم کو ساقط کرنے والے پر دم واجب کرتی ہے۔ اور مؤطا میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بیان فرمایا : حاجیوں میں سے کوئی بھی منی کی راتیں عقبہ کے پیچھے نہیں گزارے گا۔ اور وہ عقبہ جس کے پیچھے رات گزارنے سے حضرت عمر ؓ نے منع فرمایا ہے یہ وہی عقبہ ہے جو اس جمرہ کے پاس ہے جس پر لوگ یوم نحر کو کنکریاں مارتے ہیں، ان میں سے ہے جو مکہ کے قریب ہیں۔ ابن نافع نے حضرت مالک (رح) سے ” المبسوط “ میں اسے روایت کیا ہے۔ اس میں ہے کہ حضرت مالک نے فرمایا : اور جس نے منی کی راتوں میں سے کوئی رات اس کے پیچھے بسر کی، تو اس پر فدیہ ہوگا۔ اس لیے کہ اس نے منی کی راتیں منی کے سوا (دوسری جگہ) بسر کی ہیں۔ اور حج میں ایسا کرنا مشروع ہے لیکن اسے ترک کرنے کے سبب اس پر دم لازم ہوگا، جیسا کہ مزدلفہ کی رات کا حکم ہے۔ اور یہاں امام مالک (رح) کے نزدیک فدیہ سے مراد ہدی (قربانی کا جانور) ہے۔ حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا : وہ ہدی ہے جسے حل سے حرم کی طرف ہانک کر لایا جائے گا۔ (
2
) (ائمہ احناف کے نزدیک یہ راتیں وہاں گزارنا رمی جمار کی سہولت کے لیے ہے وہاں ہی گزارے لیکن اگر کوئی وہاں نہیں رہتا تو اس پر دم واجب نہیں، ہدایہ) مسئلہ نمبر : (
7
) حضرت مالک (رح) نے عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم کے واسطہ سے ان کے باپ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ ابو البداح بن عاصم بن عدی نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ چرانے والوں کو منی سے باہر رات گزارنے کی رخصت عطا فرمائی۔ وہ یوم نحر کو رمی کرتے تھے، پھر دوسرے دن یعنی گیارہویں ذی الحجہ اور بارہویں دو دنوں کی رمی کرتے تھے، اور پھر یوم النفر (یعنی تیرہویں ذی الحجہ) کو بھی رمی کرتے تھے۔ ابو عمر نے بیان کیا ہے : حضرت امام مالک (رح) نے اس حدیث کے مقتضا کے مطابق قول نہیں کیا۔ اور وہ کہتے تھے : وہ یوم نحر کو جمرہ عقبہ پر رمی کرتے، پھر دوسرے دن یعنی گیارہویں ذی الحجہ کو رمی نہ کرتے تھے اور جب بارہویں ذی الحجہ کا دن آتا ‘ اور یہ ایام تشریق میں سے دوسرا دن ہے، یا جن کے لیے تعجیل جائز ہوتی ہے، تو وہ اس دن گیارہوں اور بارہویں دو دنوں کی رمی اکٹھی کرتے تھے، کیونکہ اس طرح وہ اسے ادا کرتے تھئے جو ان پر لازم تھا۔ اور آپ کے نزدیک کوئی بھی کسی شے کو ادا نہیں کرتا مگر اس کے بعد کہ وہ اس کے ذمہ واجب ہوتی ہے۔ امام مالک (رح) نے مؤطا میں اس حدیث کی جو تفسیر بیان کی ہے اس کا یہی مفہوم ہے۔ اور آپ کے سوا کوئی اور کہتا ہے : جو کچھ امام مالک (رح) کی حدیث میں ہے اس کی بناء پر اس تمام میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ تمام کے تمام رمی کے ایام ہیں۔ البتہ حضرت امام مالک (رح) کے نزدیک چرواہوں کے لئے رمی کو مقدم کرنا جائز نہیں کیونکہ جو چرواہے نہیں ان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایام تشریق میں زوال سے پہلے رمی جمار کریں۔ پس اگر کسی نے زوال سے پہلے رمی کی، تو وہ اس کا اعادہ کرے، ان کے لیے تقدیم جائز نہیں، بلاشبہ آپ ﷺ نے انہیں دوسرے اور تیسرے دن (یعنی بارہویں اور تیرہویں) کی رمی کے بارے میں رخصت عطا فرمائی۔ ابن عبد البر نے کہا ہے کہ جو کچھ حضرت امام مالک (رح) نے اس مسئلہ میں کہا ہے وہ ابن جریج کی روایت میں موجود ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ مجھے محمد بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے باپ کے واسطہ سے خبر دی ہے کہ ابو البداح بن عاصم بن عدی نے بیان کیا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے چرواہوں کو رخصت عطا فرمائی کہ وہ واپس چلے جائیں۔ پس وہ یوم نحر کو رمی کرتے۔ پھر ایک دن اور ایک رات چھوڑ دیتے، پھر دوسرے دن رمی کرتے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اور تیسرے جمرہ کی رمی اس سے ساقط ہوجائے گی جس نے چلے جانے میں جلدی کی۔ ابن ابی زمنین نے کہا ہے : جب کوئی جلدی چلے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں تو وہ نفر اول کے دن (یعنی بارہویں ذی الحجہ) اس پر رمی کرے گا۔ ابن المواز نے کہا ہے : جلدی کوچ کا ارادہ کرنے والا دو دونوں میں اکیس کنکریاں مارے گا، ہر جمرہ پر سات کنکریاں پھینکیں ہیں۔ ابن منذر نے کہا ہے : اور تیسرے دن کی رمی ساقط ہوجائے گی۔ مسئلہ نمبر : (
8
) مالک نے یحی بن سعید کے واسطہ سے حضرت عطاء بن ابی رباح ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے یہ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے کہ ہے کہ آپ ﷺ نے چرواہوں کو رخصت دی ہے کہ وہ رات کے وقت رمی جمار کرلیں۔ وہ کہتے ہیں : ” زمانہ اول میں “ باجی نے کہا ہے کہ ” قولہ فی الزمن الاول “ حضور نبی مکرم ﷺ کے زمانہ پر اپنے اطلاق کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ وہی اس شریعت کا زمانہ اول ہے۔ پس اس بنا پر یہ روایت مرسل ہے اور وہ قول یہ احتمال بھی رکھتا ہے کہ اس سے مراد وہ پہلا زمانہ ہے جسے حضرت عطا نے پایا ہو تو پھر یہ روایت موقوف مسند ہوگی۔ واللہ اعلم۔ میں (مصنف) کہتا ہوں کہ یہ روایت ” عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عن النبی ﷺ کی حدیث سے مسند ہے ‘ اسے دارقطنی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ اور ہم نے اسے ” المقتبس فی شرح مؤطا مالک بن انس “ میں ذکر کیا ہے۔ بلاشبہ ان (چرواہوں) کے لئے رات کے وقت رمی جمار کو مباح کیا گیا ہے، کیونکہ یہ انکے ساتھ انتہائی نرم رویہ ہے، اور اس میں ان کے لئے انتہائی زیادہ احتیاط ہے جو وہ اونٹ چرانے کا قصد کرتے تھے۔ کیونکہ رات کے وقت نہ وہ چرتے ہیں اور نہ وہ منتشر ہوتے ہیں، پس وہ اس وقت میں رمی کرلیں۔ تحقیق ایسے آدمی کے بارے میں اختلاف ہے جس کی رمی رہ گئی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، تو اس بارے میں حضرت عطا (رح) نے بیان کیا ہے : اونٹ چرانے والوں کے سوا رات کے وقت کسی کے لئے رمی جائز نہیں۔ رہے تجار، تو ان کے لئے بھی جائز نہیں۔ اور حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا جس کی رمی فوت ہوگئی یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے، تو پھر اسے چاہیے کہ وہ رمی نہ کرے یہاں تک یہ دوسرے دن کا سورج طلوع ہوجائے، اسی طرح امام احمد اور اسحاق نے بھی کہا ہے۔ اور حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا ہے کہ جب کوئی دن کے وقت رمی چھوڑ دے تو وہ رات کے وقت رمی کرلے اور اس پر ابن القاسم کی روایت کی مطابق دم لازم ہوگا۔ اور آپ نے مؤطا میں یہ ذکر نہیں کیا کہ اس پر دم ہوگا۔ امام شافعی (رح)، ابو ثور (رح)، یعقوب (رح)، اور امام محمد (رح) نے کہا ہے : جب کوئی رمی بھول جائے یہاں تک کہ شام ہوجائے، تو وہ رمی کرے گا اور اس پر دم نہیں ہوگا۔ حضرت حسن بصری (رح) رات کے وقت جمار کرنے کی رخصت دیتے تھے۔ امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا ہے : وہ رمی کرے گا اور اس پر کوئی شے لازم نہ ہوگا، اور اگر اسے رات کے وقت بھی رمی یاد نہ آئی، یہاں تک کہ دوسرا دن آگیا، تو اس پر لازم ہے کہ وہ رمی کرلے اور اس پر دم لازم ہوگا، اور امام ثوری نے کہا ہے : جب کسی نے بھول کر یا بلا ارادہ رمی کو رات تک مؤخر کردیا تو وہ خون بہائے (یعنی جانور قربانی کرے۔ ) میں (مفسر) کہتا ہوں : چرواہوں میں سے یا پانی پلانے والوں میں سے کسی نے رات کے وقت رمی کی، تو اس پر دم واجب نہ ہوگا۔ (یہ حکم حدیث کے مطابق ہے۔ ) اور اگر انکے علاوہ کسی اور نے ایسا کیا، تو عقل ونظر دم واجب کرے گی جبکہ یہ بالارادہ ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
9
) یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم نحر کو اپنی سواری پر جمرہ عقبہ پر رمی کی۔ اور امام مالک (رح) وغیرہ نے مستحب قرار دیا ہے کہ اس پر رمی کرنے والا سوار ہو، حالانکہ حضرت ابن عمر، حضرت ابن زبیر اور حضرت سالم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پیدل حالت میں رمی کرتے تھے اور چاہیے کہ ہر روز تینوں جمروں پر اکیس کنکریوں رمی کرے، اور ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہے، اور رمی کرتے وقت اس کا چہرہ قبلہ شریف کی طرف ہو، اور جمرات ترتیب کے ساتھ رکھے، نہ انہیں اکٹھا کرے اور نہ ہی انہیں متفرق کرے اور نہ انہیں اوندھا رکھے، وہ جمرہ اولی سے ابتدا کرے اور اس پر سات کنکریاں مارے ‘ وہ انہیں اس کے پاس رکھ نہیں دے گا۔ اسی طرح امام مالک، امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب رائے نے کہا ہے۔ پاس اگر اس نے انہیں پھینک دیا تو یہ اصحاب رائے نزدیک جائز ہے۔ ابن قاسم نے کہا ہے : دونوں صورتوں میں تمام کنکریاں پھینک دینا جائز نہیں ہے۔ یہی صحیح ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ کنکریاں مارتے تھے۔ انکے نزدیک ایک ہی بار دو یا دو سے زیادہ کنکریاں نہیں پھینکنی چاہئے۔ پس اگر اس نے ایسا کیا، تو وہ اسے ایک کنکری شمار کرے۔ اور جب وہ ایک جمرہ سے فارغ ہوجائے تو وہ اس کے سامنے کی طرف آگے بڑھے اور طویل وقت تک دعا کے لئے کھڑا رہے اور جو میسر آئے (وہی مانگے) بعد ازاں دوسرے جمرہ پر رمی کرے اور یہ جمرہ وسطی ہے اور وہ اس سے وادی کے بطن میں شمال کی طرف پھرجائے اور اس کے پاس بھی دعا کے لئے طویل وقت تک وقوف کرے۔ پھر تیسرے جمرہ پر کنکریاں مارے اور یہ جمرہ عقبہ ہے، اس پر بھی سات کنکریاں مارے گا اور اس کے نیچے کی جانب سے اس پر کنکریاں پھینکے گا اور اس کے پاس کھڑا نہیں ہوگا۔ اگر کسی نے اس پر اس کی اوپر کی جانب سے رمی کی تو وہ بھی اس کی طرف سے جائز ہے اور وہ رمی کے دوران ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہے گا۔ رمی جمار کے درمیان سنت ذکر تکبیر ہے نہ کہ اس کے علاوہ کوئی اور ذکر اور وہ پیدا رمی کرے گا بخلاف یوم نحر کے جمرہ کے۔ یہ سب کا سب (حکم) توفیق ہے۔ نسائی اور دارقطنی نے اسے حضرت زہری سے مرفوعا ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اس جمرہ پر رمی کرتے تھے جو مسجد منی کے ساتھ متصل ہے تو آپ اس پر سات کنکریاں مارتے تھے اور جب بھی ایک کنکری پھینکتے تو سات تکبیر (اللہ اکبر) کہتے تھے۔ پھر اس سے آگے بڑھتے اور قبلہ شریف کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے اور آپ طویل وقت تک کھڑے رہتے تھے۔ پھر آپ ﷺ دوسرے جمرہ کے پاس آتے تھے اور اسے ساتھ کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے تھے۔ پھر آپ بائیں جانب اس جگہ کی طرف نیچے اترتے جو وادی کے ساتھ متصل ہے اور قبلہ شریف کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے۔ پھر آپ ﷺ اس جمرہ کے پاس آتے جو عقبہ کے پاس ہے اور اس پر سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے، پھر واپس پھرجاتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ زہری نے کہا ہے : میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو اپنے باپ سے اور انہیں حضور نبی رحمت ﷺ سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ انہوں نے فرمایا : حضرت ابن عمر ؓ اسی طرح کرتے تھے۔ یہ الفاظ دارقطنی کے ہیں۔ (
1
) (بخاری شریف، باب رفع الیدین عند الجہرۃ، حدیث نمبر
1634
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
10
) کنکریوں کا حکم یہ ہے کہ وہ پاک ہوں، ناپاک نہ ہوں اور نہ ہی ان میں سے ہوں جو پہلے ماری جا چکی ہیں، سو اگر کسی نے ایسی کنکری ماری جو پہلے ماری جا چکی ہو تو امام مالک (رح) کے نزدیک وہ جائز نہیں۔ تحقیق ان سے ابن قاسم نے بیان کیا ہے : اگر ایسا ایک کنکری میں ہوا تو آپ نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اور میں ابن قاسم کے پاس آیا تو انہوں نے اس کے بارے فتوی دیا۔ مسئلہ نمبر : (
11
) اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے کہ وہ کنکریاں مزدلفہ سے اٹھائے نہ کہ وہ جو مسجد میں پڑی ہیں اور اگر کسی نے ضرورت سے زیادہ کنکریاں اٹھالیں اور رمی کرنے کے بعد وہ اس کے پاس باقی بچ رہیں تو وہ انہیں دفن کر دے، انہیں پھینکے نہیں۔ امام احمد بن حنبل (رح) وغیرہ نے یہی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
12
) جمہور کے نزدیک کنکریوں کو دھویا نہیں جائے گا۔ طاؤس نے اس میں اختلاف کیا ہے حالانکہ یہ روایت موجود ہے کہ اگر اس نے ناپاک کنکریوں کو نہ دھویا یا ایسی کنکریوں کے ساتھ رمی کی جو پہلے ماری جا چکی تھیں تو اس نے گناہ کیا اور آپ نے اس کی طرف سے رمی کو جائز قرار دیا۔ ابن منذر نے بیان کیا ہے : یہ مکروہ ہے کہ وہ ان کنکریوں کے ساتھ رمی کرے جن کے ساتھ رمی کی جا چکی ہو۔ اگر ایسی کنکریوں کے ساتھ رمی کی گئی تو وہ اس کی طرف سے جائز ہوگی، کیونکہ میں کسی ایک کو بھی نہیں جانتا جس نے ایسا کرنے والے پر رمی کا اعادہ واجب قرار دیا ہو اور نہ ہی ہم اخبار میں سے کوئی ایسی خبر جانتے ہیں جو حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہو کہ آپ ﷺ نے کنکری کو دھویا ہو اور نہ ہی آپ نے اسے دھونے کا حکم ارشاد فرمایا۔ تحقیق ہم نے طاؤس سے روایت کیا ہے کہ وہ کنکریاں دھوتے تھے۔ مسئلہ نمبر : (
13
) رمی جمار میں مٹی کا ڈھیلا پھینکنا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی ایسی شے جو پتھر نہ ہو۔ امام شافعی (رح) ‘ امام احمد ‘ اور اسحاق (رح) ‘ نے یہی کہا ہے۔ اور اصحاب الرائے نے کہا ہے : خشک مٹی کا ڈھیلا جائز ہوگا۔ اسی طرح ہر وہ شے جو اس نے پھینکی اور اس کا تعلق زمین سے ہو، تو وہ جائز ہوگی۔ امام ثوری (رح) نے کہا ہے : جس نے مٹی کے ڈھیلے اور ٹھیکری کے رمی کی تو وہ رمی کا اعادہ نہ کرے۔ ابن منذر نے کہا ہے : سنگریزوں کے سوارمی جائز نہیں ہوگی۔ کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تم پر انگلیوں سے کنکریاں پھینکنالازم ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی رمی کنکریوں کے ساتھ تھی۔ مسئلہ نمبر : (
14
) کنکری کی مقدار میں اختلاف ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) نے فرمایا ہے : وہ طولا اور عرضا پورے سے چھوٹی ہوگی۔ اور ابو ثور اور اصحاب الرائے نے کہا ہے : ٹھیکری کی کنکری کی مثل ہوگی۔ اور ہم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ بکری کی مینگنی کے برابر کنکری کے ساتھ رمی کرتے تھے۔ اور حضرت امام مالک ؓ کے اس قول کا کوئی معنی نہیں ہے : اس سے بڑی میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے : کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ٹھیکری کی کنکری کی مثل کے ساتھ رمی کی سنت قائم فرمائی ہے۔ البتہ جس پر حصاۃ کا نام واقع ہو سکے اس کے ساتھ رمی کرنا جائز ہے اور سنت کی اتباع کرنا افضل ہے۔ ابن منذر نے یہی کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : وہ صحیح قول (یاعمل) جس کا خلاف کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہوتا جو ہدایت یافتہ ہو اور اقتدا کرے (وہ یہ ہے کہ) امام نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے عقبہ کی صبح ارشاد فرمایا : درآنحالیکہ آپ اپنی سواری پر تھے : میرے لئے کنکریاں چن کر لاؤ۔ چناچہ میں نے آپ ﷺ کے لئے کنکریاں چنیں، وہ ٹھیکری کی کنکریوں کی مثل تھیں، پس جب میں نے انہیں آپ کے دست مبارک میں دیا تو فرمایا : ہاں انہی کی مثل (یعنی رمی کے لئے اتنی مقدار ہی مناسب اور موزوں ہے) اور تم دین میں غلو کرنے سے بچو۔ بلاشبہ جو تم سے پہلے تھے انہیں دین میں غلو کرنے نے ہلاک کرو یا (
1
) (مسند امام احمد، حدیث نمبر
3248
) پس آپ ﷺ کا یہ ارشاد ” وایاکم والغلو فی الدین “ ، بڑی کنکریوں کے ساتھ رمی کرنے کی کراہت پر دلیل ہے۔ بلاشبہ یہ غلو میں سے ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
15
) وہ آدمی جس کے ہاتھ میں کنکری باقی ہو، وہ نہ جانتا ہو یہ کون سی کنکریوں میں سے ہے تو وہ اسے پہلی میں سے بنائے (یعنی اسے جمرہ اولی پر مارے) اور اس کے بعد پھر وسطی اور آخری پر رمی کرے۔ اور اگر زیادہ وقت گزر جائے تو پھر مکمل رمی نئے سرے سے کرے۔ مسئلہ نمبر : (
16
) امام مالک (رح) ‘ امام شافعی (رح) ‘ عبدالملک (رح) ‘ ابو ثور (رح) ‘ اور اصحاب الرائے نے اس کے بارے کہا ہے جس نے ایک جمرہ پر دوسرے جمرہ کو مقدم کردیا : وہ رمی اس کی طرف سے جائز نہ ہوگی مگر یہ کہ وہ پے درپے اور لگا تار رمی کرے۔ حسن، عطا اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ وہ اس کی طرف سے جائز ہوگی اور بعض لوگوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد گرامی سے استدلال کیا ہے کہ ” جس کسی نے ایک حکم کو دوسرے حکم پر (جو کہ متصل اس کے بعد ہو) مقدم کردیا تو اس میں کوئی حرج نہیں “۔ اور فرمایا : یہ اس آدمی سے زیادہ نہیں ہوگا جس پر کئی نمازیں اور روزے جمع ہوگئے اور اس نے بعض کو بعض سے پہلے قضا کرلیا۔ پہلے قول میں احتیاط زیادہ ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
17
) مریض کے رمی کرنے اور اس کی طرف سے رمی کیے جانے کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا : ایسے مریض اور بچے کی جانب سے رمی کی جائے گی جو رمی کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور مریض ان کی رمی کے وقت کوشش کرے کہ وہ ہر جمرہ کے لئے سات تکبیریں کہے اور اس پر ہدی (قربانی) ہوگی، اور جب مریض رمی کے ایام میں تندرست ہوجائے اور وہ خود اپنی طرف سے رمی کرلے، اس کے باوجود اس پر امام مالک کے نزدیک دم واجب ہوگا۔ امام حسن (رح) ‘ امام شافعی (رح) ‘ امام احمد (رح) ‘ اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے کہ مریض کی طرف سے رمی کی جائے گی اور انہوں نے ہدی کا ذکر نہیں کیا۔ اور وہ بچہ جو رمی پر قدرت نہیں رکھتا اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کی طرف سے رمی کی جائے گی۔ اور حضرت ابن عمر ؓ اسی طرح کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر : (
18
) دارقطنی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ یہ کنکریاں جو یہاں ہر سال پھینکی جاتی ہیں تو ہم گمان کرتے ہیں کہ یہ کم ہوجاتی ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ ان میں سے جو قبول کرلی جاتیں ہیں وہ اٹھالی جاتی ہیں، اور اگر اس طرح نہ ہو تو تو انہیں پہاڑوں کی مثل دیکھے۔ (
1
) (سنن دارقطنی جلد
2
، صفحہ
300
) مسئلہ نمبر : (
19
) ابن منذر نے کہا ہے : اور اہل علم نے اس پر اجماع کیا ہے کہ حاجیوں میں سے جو منی سے نفر اول کے دن اپنے شہر کی طرف واپس جانے کے لئے نکلنے کا ارادہ کرے، درآنحالیکہ وہ (شہر) حرم سے باہر ہو اور وہ مکہ مکرمہ میں مقیم نہ ہو، تو اسے چاہئے وہ زوال شمس کے بعد کوچ کرے، بشرطیکہ وہ یوم نحر سے متصل دن میں شام سے پہلے پہلے رمی کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ترجمہ ” اور جلدی کرکے دو دنوں میں ہی چلا گیا تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں “ پس جو وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کوچ کرے جب تک کہ ابھی دن موجود ہو۔ تحقیق ہم نے حضرت نخعی اور حضرت حسن سے روایت کیا ہے کہ ان دونوں نے کہا : ایام تشریق کے دوسرے دن جسے عصر کی نماز کا وقت منی میں ہوگیا، تو وہ آنے والے دن کی صبح تک وہاں سے کوچ نہ کرے۔ ابن منذر نے کہا ہے کہ دونوں نے یہ قول بطور استحباب کیا ہے اور پہلا قول جو ہم کہتے ہیں وہ ظاہر کتاب وسنت کے مطابق ہے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) اہل مکہ کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے کہ کیا نفر اول کے دن (منی سے) جاسکتے ہیں ؟ تو ہم نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : تمام لوگوں میں سے جو چاہے نفر اول کے دن وہ وہاں سے جاسکتا ہے سوائے آل خزیمہ کے وہ صرف نفر ثانی کے دن ہی وہاں سے کوچ کرسکتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل (رح) فرماتے ہیں : مجھے اس آدمی پر کوئی تعجب نہیں جس نے کوچ کے پہلے دن وہاں سے کوچ کیا تاکہ وہ مکہ مکرمہ میں مقیم ہوجائے۔ مزید فرمایا : اہل مکہ تو نسبتا زیادہ جلدی کرتے ہیں۔ امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے قول الاآل خزیمۃ کا معنی یہ بیان کیا ہے کیونکہ وہ اہل حرم ہیں۔ اور حضرت امام مالک (رح) اہل مکہ کے بارے میں فرماتے ہیں : جس کے لئے کوئی عذر ہو اس کے لئے تو جلدی کرکے دو دنوں میں وہاں سے چلے جانا جائز ہے۔ اور اگر کوئی امور حج میں سے کسی کے بارے میں محض اپنے لئے تخفیف کا ارادہ کرے تو پھر اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ تو گویا آپ نے نے تعجیل کا حکم ان کے لئے قرار دیا جن کا علاقہ دور ہو۔ اور ایک گروہ نے کہنا ہے : آیت اپنے عموم پر ہے، رخصت تمام لوگوں کے لئے ہے، چاہے وہ اہل مکہ ہوں یا دوسرے کوئی منی سے نکل کر مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کا ارادہ کرے یا اپنے کی طرف جانے کا قصد کرے۔ حضرت عطا (رح) نے کہا ہے : یہ آیت عام لوگوں کے لئے ہے۔ ابن منذر کا قول حضرت امام شافعی (رح) کے مذہب سے مشابہت رکھتا ہے، اور اسی کے مطابق ہم کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت حسن ؓ ، عکرمہ ؓ ‘ مجاہد قتادہ اور نخعی رحمۃ اللہ علہیم نے ارشاد فرمایا ہے : ایام معدودات میں سے دوسرے دن جس نے منی سے کوچ کیا تو اس پر کوئی حرج (گناہ) نہیں اور جو تیسرے دن تک وہاں ٹھہر گیا تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ پس آپ کا معنی یہ ہے کہ یہ سب مباح ہے۔ اور اس کی اس تقسیم کو اہتمام اور تاکید سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ عربوں میں سے کچھ تھے جو جلدی کرکے وہاں سے چلے جانے والے کی مذمت کرتے تھے اور اس کا برعکس (یعنی کچھ ایسے تھے تو تاخیر کرنے والے کی مذمت کرتے تھے) تو ان تمام سے گناہ کو اٹھانے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ (یعنی جس نے جو طریقہ بھی کیا چاہے جلدی کی یا تاخیر کی کسی کے لئے بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ ) حضرت علی بن ابی طالب ؓ حضرت ابن عباس ؓ ‘ حضرت ابن مسعود ؓ ‘ اور حضرت ابراہیم نخعی ؓ نے بھی کہا ہے : (آیت) ” من تعجل “ کا معنی ہے جس نے جلدی کی تحقیق اسے بخش دیا گیا اور جس نے تاخیر کی تحقیق اسے بھی بخش دیا گیا، اور انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے ارشاد سے استدلال کیا ہے ؛ ” جس نے اس بیت اللہ شریف کا حج کیا اور اس نے رفث وفسق کا ارتکاب نہ کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسا کہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اپنے جنم دیا۔ “ (
1
) (بخاری شریف، باب قول اللہ عزوجل ولا فسوق ولا جدال فی الحج، حدیث نمبر
1691
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ارشاد باری ہے : (آیت) ” فلا اثم علیہ “ یہ بھی نفی عام ہے اور براءت مطلقہ ہے۔ اور مجاہد نے بھی کہا ہے : آیت کا معنی ہے جس نے جلدی کی یا جس نے تاخیر کی تو اس پر آنے والے سال تک کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور اس قول میں اثر کو بیان کیا گیا ہے۔ ابو العالیہ نے آیت کے بارے میں کہا ہے : اس پر کوئی گناہ نہیں جو اپنی بقیہ عمر متقی بن کر رہا اور حج کرنے والے کیلئے یقینی مغفرت ہے، یعنی اس کے تمام گناہ ختم ہوجاتے ہیں اگر وہ اپنی بقیہ عمر اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا۔ ابو صالح وغیرہ نے کہا ہے : آیت کا معنی یہ ہے ” اس پر کوئی گناہ نہیں ہے جو اپنے حج میں بچتا رہا اور اسے مکمل ادا کردیا یہاں کہ وہ ہر قسم کے شبہ اور خیانت سے پاک تھا۔ مسئلہ نمبر : (
21
) قول باری تعالیٰ (آیت) ” فمن تعجل “ میں، من مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور (آیت) ” فلا اثم علیہ “ خبر ہے اور قرآن کے علاوہ اسے (آیت) ” فلا اثم علیہم “ پڑھنا بھی جائز ہے کیونکہ من جمع کے معنی کے لیے ہے، جیسا کہ اس ارشاد گرامی میں ہے (آیت) ” ومنھم من یستمعون الیک “۔ (یونس :
42
) میں من جمع کے لئے ہے۔ اور (آیت) ” ومن تاخر فلا اثم علیہ “ میں بھی اسی طرح ہے اور (آیت) ” لمن اتقی “۔ میں لام غفران سے متعلق ہے۔ اور تقدیر کلام اسی طرح ہے (آیت) ” المغفرۃ لمن اتقی “ یعنی مغفرت اس کے لئے ہے جو بچتا رہا۔ یہ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت علی ؓ کی تفسیر کے مطابق ہے۔ حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : بلاشبہ مغفرت اس کے لئے رکھی گئی ہے جو حج سے واپس لوٹنے کے بعد تمام گناہوں سے بچتا رہا۔ اور اخفش نے کہا ہے : تقدیر کلام ہے (آیت) ” ذلک لمن اتقی “ وہ اس کے لئے ہے جو بچتا رہا۔ اور بعض نے کہا ہے : اس کے لئے (مغفرت ہے) جو حالت احرام اور حرم میں شکار کو قتل کرنے سے بچتا رہا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت ہے ‘ الاباحۃ لمن اتقی اباحت اس کے لئے ہے جو بچتا رہا۔ یہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے۔ یہ قول بھی ہے کہ تقدیر کلام یہ ہے : السلام ۃ لمن اتق “ سلامتی اس کے لئے ہے جو بچتا رہا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ (آیت) ’ واذکروا “ کے متعلق ہے۔ یعنی ” الذکرلمن اتقی “ یعنی نصیحت اس کے لئے ہے جو بچتا رہا۔ اور سالم بن عبداللہ نے (آیت) ” فلا اثم علیہ “ میں تخفیفا الف کو ملا کر پڑھا ہے۔ اور عرب اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسا کہ شاعر کا قول ہے۔ ان لم اقاتل فالبسوانی برقعا : اگر میں نے قتال نہ کیا تو تم مجھے برقعہ پہنا دینا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تقوی اور حشر ووقوف کو یاد رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا :
Top