Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 213
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً١۫ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١۪ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
كَانَ : تھے النَّاسُ : لوگ اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک فَبَعَثَ : پھر بھیجے اللّٰهُ : اللہ النَّبِيّٖنَ : نبی مُبَشِّرِيْنَ : خوشخبری دینے والے وَ : اور مُنْذِرِيْنَ : ڈرانے والے وَاَنْزَلَ : اور نازل کی مَعَهُمُ : ان کے ساتھ الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : برحق لِيَحْكُمَ : تاکہ فیصلہ کرے بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ فِيْمَا : جس میں اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَمَا : اور نہیں اخْتَلَفَ : اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جنہیں اُوْتُوْهُ : دی گئی مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَا : جو۔ جب جَآءَتْهُمُ : آئے ان کے پاس الْبَيِّنٰتُ : واضح حکم بَغْيًۢا : ضد بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان ( آپس کی) فَهَدَى : پس ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لِمَا : لیے۔ جو اخْتَلَفُوْا : جو انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں مِنَ : سے (پر) الْحَقِّ : سچ بِاِذْنِهٖ : اپنے اذن سے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِلٰى : طرف راستہ صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
لوگ ایک امت تھے۔ پھر اللہ نے نبیوں کو بھیجا، بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اور ان پر کتاب اتاری حق کے ساتھ۔ تاکہ وہ فیصلہ کریں لوگوں میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ اور نہیں اختلاف کیا کتاب میں مگر ان لوگوں نے جنھیں کتاب دی گئی تھی۔ اس کے بعد کہ آچکے تھے ان پر واضح دلائل آپس میں ضد کی وجہ سے۔ پھر اب اللہ نے ہدایت کی ہے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اس سچی بات کی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اپنے حکم سے۔ اور اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف
کَانَ النَّاسُ اُمَّـۃً وَّاحِدَۃً قف فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ص وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْـکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَااخْتَلَفُوْا فِیْہِ ط وَمَااخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًا م بَیْنَھُمْ ج فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہٖ ط وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ (لوگ ایک امت تھے۔ پھر اللہ نے نبیوں کو بھیجا، بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اور ان پر کتاب برحق اتاری تاکہ وہ فیصلہ کریں لوگوں میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ اور کسی اختلاف نہیں کیا اس کتاب میں بجز ان لوگوں کے جنھیں کتاب دی گئی تھی۔ اس کے بعد کہ روشن دلیلیں ان کے پاس آگئیں ایک دوسرے سے حسد کی وجہ سے۔ پس اللہ نے ان لوگوں کو ہدایت بخشی جو ایمان لائے تھے ان سچی باتوں پر جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے اپنی توفیق سے۔ اور اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف) (213) ایک فکری غلطی کا ازالہ اس آیت کریمہ میں انسانی تاریخ کے بارے میں مختلف قوموں کے نام نہاد دانشوروں نے ہدایت و ضلالت کے اعتبار سے جو مفروضے قائم کر رکھے ہیں اور پھر ان پر مختلف عمارتیں اٹھا رکھی ہیں ان پر ایک پہلو دار طریقے سے گفتگو فرمائی گئی ہے۔ اور بعض حقائق سے اس طرح پردہ اٹھایا گیا ہے کہ غور کرنے والوں کے لیے بہت کچھ عبرت اور ہدایت کا سامان ہے۔ سب سے پہلی غلط فہمی جسے علم و دانش کے سوداگروں نے عالمگیر شہرت دے رکھی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ وہ انسان کو بھی باقی مخلوقات پر قیاس کرتے ہیں۔ کہ جن کی زندگی کی ضروریات جسمانی غذا اور بقا کے سوا اور کچھ نہیں۔ انھیں اللہ نے حواس کی صورت میں رہنمائی عطا کی ہے لیکن اس راہنمائی میں وقت کے ساتھ ساتھ اور ضروریات کے مطابق ترقی کرنے کے بےحد امکانات رکھے ہیں۔ چناچہ حیوانوں کی مختلف اقسام کا جن لوگوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے حواس نے عہد بہ عہد کیسے ترقی کی ہے ؟ لیکن یہ ان کی ساری ترقی حیوانیت کی حدود سے باہر نکلنے نہیں پاتی۔ چناچہ ان نام نہاد دانشوروں نے انسان کو بھی محض ایک حیوان سمجھ کر اس کی ابتدائی زندگی کی تصویر بالکل اس طرح کھینچی ہے جس طرح حیوانوں کی کھینچی گئی ہے۔ وہ جس طرح غاروں سے اور پتھر کے دور سے نکل کر آبادی میں اور حضری حدود میں داخل ہوا ہے اور اپنی غذائی ضروریات کو جس طرح مرور زمانہ کے ساتھ بہتر بنایا ہے اسی پر وہ اس کی معنوی اور روحانی صلاحیتوں اور ضروریات کو قیاس کرتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ انسان پہلے مظاہر پرستی اور بت پرستی میں مبتلا رہا۔ آہستہ آہستہ انسانوں نے انسانوں کی پرستش شروع کی۔ آخر ایک وقت آیا جب وہ توحید کی عظمت کا قائل ہوا اور اس طرح اس نے اپنی معنوی اور روحانی ضرورتوں کا سفر طے کیا۔ لیکن اس آیت کریمہ میں دو باتیں ارشاد فرما کر ان کے ان تمام مفروضوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ ایک تو یہ بات کہ اگر انسان نے اللہ کی معرفت اور حقیقی مذہب کا شعور اپنی بنیادی صلاحیتوں کے ذریعے حاصل کیا ہوتا تو اس میں آپ کو مختلف تاریخی دوائر میں انسان مختلف حالتوں اور مختلف کیفیتوں میں مبتلا نظر آتا۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ انسان اپنی آغاز حیات میں آبادی کے پھیلنے کے باوجود بھی ایک امت اور ایک گروہ تھا۔ جن میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کسی کا مذہب کچھ ہوتا اور کسی کا کچھ ‘ کوئی کسی کی پوجا کرتا اور کوئی کسی کی ‘ بلکہ تمام انسان اپنے بنیادی خیالات ‘ اپنے رب کی معرفت اور اپنے مقصد زندگی کے شعور میں بالکل یکساں تھے۔ اور دوسری یہ بات کہ انسانوں میں جو وحدت کا شیرازہ بکھرا ہے اور اختلاف کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوئی ہیں یہ بعد کی بات ہے۔ یہاں اگرچہ اس اختلاف کا ذکر نہیں ہے ‘ لیکن قرآن کریم کے اسلوب کے شناسا لوگ یہاں فَاخْتَلَفُوْاکے لفظ کو محذوف مانتے ہیں۔ اور اس کی دلیل خود اس آیت کے اندر موجود ہے۔ اور قرآن کریم میں دوسری آیات میں بھی اس کے شواہد موجود ہیں۔ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ اس کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ” ایجاز “ بھی ہے۔ اس لیے اگر ایک لفظ ایک آیت کریمہ میں آجاتا ہے اور اسی آیت میں دوسری جگہ کی ضرورت کو پورا بھی کرتا ہے تو پھر اس لفظ کا تکرار نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ یہ اصول فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے۔ اس آیت کریمہ میں اگلی ہی سطر میں فرمایا گیا ہے لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ یہاں اس لفظ کو ذکر کرنے کی وجہ سے آیت کے آغاز میں اس کو حذف کردیا گیا ہے۔ اور جہاں تک قرآنی شواہد کا تعلق ہے سورة یونس میں ارشاد فرمایا گیا ہے وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلاَّ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ فِیْمَا ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ” سب آدمی ایک ہی امت تھے ‘ پھر آپس میں اختلاف پڑگیا اور اگر اللہ تعالیٰ کا یہ ازلی فیصلہ نہ ہوتا کہ (اس عالم دنیا میں حق و باطل ‘ کھرا کھوٹا ‘ سچ اور جھوٹ ملے جلے چلیں گے) تو قدرت الٰہیہ ان سب جھگڑوں کا ایسا فیصلہ کردیتی کہ حق سے اختلاف کرنے والوں کا نام ہی نہ رہتا۔ “ سورة انبیاء میں ارشاد ہے اِنَّ ھٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ ” یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لیے سب میری ہی عبادت کرتے رہو۔ “ اسی طرح سورة مومنون میں فرمایا اِنَّ ھٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ ” یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لیے مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ “ ان دلائل اور شواہد کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی اور وہ اللہ کے نبی تھے۔ ان کی اولاد پھیلی تو جب تک شیطان کو گمراہی پھیلانے میں کسی حد تک کامیابی نہیں ہوئی اس وقت تک انسانی جماعت اور امت میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ پھر شیطانی کارگزاری کے نتیجے میں انسانوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان اختلافات کو دور کرنے کے لیے انبیائِ کرام کو مبعوث فرمایا۔ اور اس بات کو تسلیم کرنے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ کے نبی انسانوں کے ان اختلافات کو جن کا تعلق انسانی احساسات مفادات اور مزاجوں سے ہے ختم کرنے کے لیے تشریف نہیں لاتے۔ وہ تو ان اختلافات کو ختم کرنے کے لیے آتے ہیں جو دین اور شریعت کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں۔ توحید میں شرک کی آمیزش کی جاتی ہے ‘ اللہ کے آستانے کے ساتھ ساتھ دوسرے آستانے بنا لیے جاتے ہیں ‘ اللہ کی غیر مشروط اطاعت کرنے سے انحراف کیا جاتا ہے یا اس اطاعت میں اور قوتوں کی اطاعت شامل کرلی جاتی ہے ‘ عبادتیں بےروح ہوجاتی ہیں ‘ حقوق و فرائض کا تصور اور احساس دھندلا جاتا ہے اور انسانی زندگی اللہ کے راستے سے منحرف ہونے لگتی ہے تو دوبارہ اسے اللہ کے راستے پر ڈالنے ‘ صراط مستقیم پر چلانے ‘ توحید کو خالص اور بےمیل بنانے اور انسانوں میں ظلم اور حق تلفی ختم کرنے کے لیے اللہ کے نبی تشریف لاتے ہیں۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے اختلاف کو جن دائروں میں تقسیم کر رکھا ہے یہاں مقصود وہ اختلاف نہیں بلکہ وہ اختلاف ہے جو بندے کو بندگی سے محروم کردیتا ہے۔ اور بندہ اپنے اللہ کے آستانے سے دور ہٹ جاتا ہے۔ انبیائِ کرام کی دعوت کے دو مقاصد مزید فرمایا کہ ہم نے جو انبیائِ کرام کو بھیجا تو ان کے پیش نظر دو مقاصد تھے نمبر ایک تبشیر اور نمبر دو انذار۔ ان کی دعوت کی اصل روح صرف یہ تھی کہ لوگو ! تمہیں اللہ کی بندگی اور اطاعت کرنی چاہیے۔ اور اگر تم واقعی اسی کی بندگی اور اطاعت کرتے ہو تو ہم تمہیں دنیوی اور اخروی کامیابیوں کی بشارت دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے دنیا میں تمہیں اس راستے میں تکلیفیں اٹھانی پڑیں اس لیے کہ شیطانی جتھے آسانی سے تمہیں اس راستے پر چلنے نہیں دیں گے اور کوئی بڑی بات نہیں کہ تم اس راستے میں قربان ہوجاؤ۔ لیکن جہاں تک اخروی کامیابی کا تعلق ہے وہ صرف تمہارے لیے ہے۔ تمہیں اللہ تمہارے ایمان و عمل پر جنت عطا کرے گا ‘ اپنی خوشنودی سے نوازے گا ‘ جنت میں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا اور دنیا کے چند سالہ ایمان و اطاعت کے بدلے میں وہ اخروی نعمتیں نصیب ہوں گی جن کا نہ تمہارے دل و دماغ میں کبھی خیال گزرا ‘ نہ تمہاری آنکھوں نے کبھی انھیں دیکھا اور نہ تمہارے کانوں نے کبھی انھیں سنا۔ ایک مومن فرد اور ایک مومن جماعت کو بعض دفعہ دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ لیکن ایک مومن کے لیے حقیقی خوشی اور بشارت جنت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بشارت ہے۔ یہی وہ بشارتیں تھیں جس پر اہل ایمان ہمیشہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اور آج بھی جو لوگ جان و تن کی آزمائش سے کامیابی سے گذرتے ہیں ان کے سامنے بھی جنت کی نعمتوں اور اللہ کی خوشنودی کے حصول کے سوا کوئی اور ہدف نہیں ہوتا۔ یہی ایک مومن کی اصل معراج تھی۔ افسوس یہ ہے کہ آج ہمارے نیک لوگ بھی اس حقیقی ہدف سے دور ہٹ گئے ہیں۔ پیغمبروں کا دوسرا کام انذار ہے۔ یعنی وہ دنیا کو اس بات سے ڈراتے ہیں کہ اگر تم اللہ اور رسول ﷺ کی دعوت پر ایمان نہیں لائو گے تو پھر یاد رکھو تمہیں جہنم سے واسطہ پڑے گا۔ اللہ کا غضب تم پر بھڑکے گا۔ جس کا غضب ساری کائنات کو ایک آن میں بھسم کرسکتا ہے۔ اور کوئی بڑی بات نہیں کہ تم دنیا میں ہی اس کے غضب کے مستحق ہو کر عذاب کا شکار ہوجاؤ۔ کتنی قومیں اللہ کے غضب کا شکار ہوئیں اور دنیا سے نیست و نابود کردی گئیں۔ اور قیامت کے دن تمہیں جب اس کے غضب اور ناراضگی سے واسطہ پڑے گا تو تمہیں اندازہ ہوگا کہ تم کتنی بڑی غلطی کرچکے ہو۔ چناچہ اللہ کی بےپایاں عظمت اور اس کی ناراضگی کا ہولناک انجام جیسے جیسے انسانوں کے دل و دماغ میں اترتا جاتا ہے ویسے ویسے اللہ سے ان کا تعلق مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ وہ ہر برے عمل سے بچتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ برے عمل کے نتیجے میں اللہ کی ناراضگی پیدا ہوتی ہے اور ہر نیک عمل کی طرف لپکتے ہیں کیونکہ خوب سمجھتے ہیں کہ اسی کے نتیجے میں وہ حقیقی کامیابی نصیب ہوسکتی ہے جس کا تصور بھی دنیا میں ایک مومن کے لیے سب سے بڑی متاع ہے۔ ہم صحابہ کرام ( رض) اور بعض مجاہدین کے جو اس طرح کے واقعات پڑھتے ہیں کہ شدید بھوک میں انھیں کھانے کے لیے چند کھجوریں ملیں ‘ کھجوریں کھاتے ہوئے دیکھا کہ سامنے معرکہ کارزار برپا ہے تو خیال ہوا کہ اگر اس معرکے میں میں کام آگیا تو یقینا اللہ تعالیٰ مجھے جنت عطا فرمائیں گے ‘ جنت کی نعمتوں کا تصور کر کے اس نے کھجوریں اٹھا کر پھینک دیں اور کہا ” یہ کھجوروں کا ختم کرنا لمبی مدت ہے۔ کون اتنی مدت تک جنت سے دور رہے۔ “ چناچہ یہ کہہ کر برستی ہوئی تلواروں میں جا گھسے ‘ دادِ شجاعت دیتے ہوئے جان اللہ کے حوالے کردی اور جنت میں جا پہنچے۔ سید احمد شہید (رح) کے ساتھیوں میں ایک شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ شدید بھوکا ہونے کی وجہ سے اسے تھوڑے سے چاول اور دودھ ملا تو اس نے اینٹوں کا چولہا بنا کر اس پر کھیر بنانا شروع کردی۔ اور لکڑی لے کر اس کو ہلانے لگا اور سامنے پہاڑ کی طرف دیکھا کہ دشمن گولیاں برساتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اپنے آپ کو خطاب کر کے کہنے لگا ” دیکھ سامنے جنت سے حوریں اشارہ کر رہی ہیں کہ جلدی پہنچو ہم تمہاری منتظر ہیں۔ “ کہا ” میں کھیر پکانے اور کھانے میں وقت ضائع کروں گا تو جنت میں پہنچنے میں تاخیر ہوجائے گی۔ بھوکا رہنا منظور ہے لیکن یہ تاخیر گوارا نہیں۔ “ چناچہ لڑتے ہوئے جان دے دی اور اپنی منزل پر جا پہنچا۔ اللہ کے نبیوں کی دعوت ان دو بنیادوں پر اٹھائی جاتی ہے۔ لیکن ہماری دینی تنظیموں اور ہمارے مبلغین نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دنیوی اسلامی برکات کے مضمون کو اس کثرت سے بیان کرنا شروع کیا کہ دنیوی برکات مقصد ہو کر رہ گئیں اور جنت کا جان افزا و روح پرور تصور پس پشت چلا گیا۔ اس کے بعد آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے ان نبیوں پر کتابیں اتاریں اور ان کی دینی ضرورت کے مطابق وہ تمام حقائق ان پر کھولے جن میں وہ اب تک اختلاف کر رہے تھے اور صراط مستقیم کی ایک ایک ضرورت اور نزاکت کو واضح کیا۔ جن کو کھو دینے کے باعث انسان گمراہی کے راستے پر پڑگئے تھے۔ انھوں نے عقائد ‘ احکام اور معاملات میں اپنی طرف سے اختلاف کے جو راستے نکالے ہیں ان کی حقیقت ان پر واضح فرمائی۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اختلاف کرنے والے اس راہنمائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے اختلافات سے تائب ہوجاتے اور انبیائِ کرام کی دینی راہنمائی کو قبول کر کے صراط مستقیم پر چل نکلتے انھوں نے یکسر اس ہدایت کو ماننے سے انکار کردیا۔ انبیائِ کرام نے اپنی دعوت کی ایک ایک بات اور کتابوں کے بیان کردہ ایک ایک حکم پر دلائل فراہم کیے۔ ان کے تمام اشتباہات کو ایک ایک کر کے حتم کرنے کی کوشش کی اور ان کے ایمان کی پختگی یا ایمان کی آسانی کے لیے معجزات بھی دکھائے۔ لیکن جن مخالفین کو ایمان نہ لانا تھا وہ کسی طرح بھی اپنی جگہ سے ہلنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اور یہ بات انسانی زندگی کے قرون اولیٰ ہی کی نہیں ‘ بلکہ ہر دور کی کہانی ہے۔ کیونکہ انسانوں نے ہدایت و ضلالت کا جتنا سفر بھی کیا ہے اس میں ہر جگہ یہی حقیقت کارفرما دکھائی دیتی ہے کہ انسانوں کا بگاڑ جب حد سے بڑھا تو اللہ تعالیٰ نے نبی اور رسول بھیجے۔ انھوں نے اپنی دلآویز شخصیت ‘ بےعیب کردار ‘ دل میں اتر جانے والے دلائل اور گنگ کردینے والے معجزات سے اپنی دعوت کو موثر بنایا۔ لیکن ان تمام بےپناہ مساعی کے باوجود ایمان نہ لانے والوں کو راہ راست پر نہ لایا جاسکا۔ تاریخ مذاہب کا طالب علم اس صورت حال کو دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے کہ آخر یہ راز کیا ہے ؟ کسی بات کو سمجھنے اور ماننے کے لیے علمی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ایسے حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے جو حواس اور عقل سے ماورا ہوں ایک ایسے مخبر ‘ راہنما اور ہادی کی ضرورت ہوتی ہے جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور جس کی سیرت و کردار میں کوئی جھول نہ ہو۔ لیکن جب یہ تمام ضرورتیں پوری ہوجائیں تو اسے مان کر نہ دینا یہ وہ سوال ہے جس کا کوئی جواب سمجھ نہیں آتا۔ انسانی گمراہی کا اصل سبب بَغْیًا م بَیْنَھُمْ یہاں پروردگار نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا بَغْیًا م بَیْنَھُمْ ” آپس کی ضد کی وجہ سے “ یعنی ان کا ایمان نہ لانا کسی دلیل کی کمزوری یا دعوت کی نارسائی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس کا صرف ایک ہی سبب تھا کہ یہ لوگ جس گروہی انانیت اور عصبیت میں مبتلا تھے اور جس تفاخر کے مرضـ کا شکار تھے وہ انھیں پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے نہیں دیتا تھا۔ ابو جہل نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بات کہی کہ میں محمد ﷺ کو جھوٹا نہیں کہتا۔ مجھے معلوم ہے کہ انھوں نے جھوٹ کبھی نہیں بولا ‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ بنی ہاشم بھی ہماری طرح ایک قبیلہ ہے۔ ہم نے ہمیشہ ان سے برابری کے لیے بڑھ چڑھ کر کارنامے سر انجام دیئے۔ انھوں نے شجاعت کی داستانیں رقم کیں تو ہم نے بھی کیں۔ انھوں نے سخاوتیں کیں تو ہم نے بھی کیں ‘ انھوں نے حاجیوں کی خدمت کی تو ہم نے بھی کی ‘ انھوں نے بیت اللہ کے حقوق ادا کیے تو ہم نے بھی کیے۔ اب جب کہ ہم ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوگئے ہیں تو وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ ہمارے خاندان میں نبوت آگئی ہے۔ اب اگر ہم ان کے نبی کو تسلیم کرلیں تو یہ ایک ایسا اعزاز اور امتیاز ہے جس میں ہم ان کے کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم خاندانی طور پر ان کی برابری کرنے سے محروم ہوگئے اور یہ بات میں کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ بنی اسرائیل باوجود اس کے کہ حامل کتاب تھے ‘ صدیوں تک ان میں نبیوں کی تشریف آوری جاری رہی ‘ ان میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور بڑے بڑے علماء موجود تھے۔ باایں ہمہ یہ واحد گروہ ہے جنھوں نے من حیث القوم اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ کیا تھی ؟ ہم مفروضوں پر بات نہیں کرتے۔ قرآن کریم کہتا ہے حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ ” ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو بغض اور حسد ہے وہ انھیں اسلام قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حضرت صفیہ ( رض) جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میرے والد اور میرے چچا آپ ﷺ سے ملنے کے لیے گئے۔ دن بھر وہاں رہے ٗ آپ کو خوب جانچا پرکھا ‘ شام کو گھر پہنچے تو تخلیہ ہوتے ہی میرے چچا نے والد سے پوچھا کہ ” بھائی آپ کا اس نبوت کے دعویدار کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ “ والد نے کہا ” یہ یقینا اللہ کے وہی نبی ہیں جس کا ذکر ہماری کتابوں میں کیا گیا ہے۔ “ چچا نے پوچھا ” پھر اب کیا ارادہ ہے ؟ “ حضرت صفیہ فرماتی ہیں کہ میرے والد نے کہا ” جب تک جان میں جان ہے میں اس کی بات نہیں چلنے دوں گا اور ہر طرح سے اس کی مخالفت کروں گا۔ “ ان واقعات سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ گروہی انانیت اور عصبیت اس قدر بڑی بلا ہے کہ جو قوم اس کا شکار ہوجاتی ہے اس کے لیے بڑی سے بڑی حقیقت کو بھی تسلیم کرنا آسان نہیں رہتا۔ قرآن کریم نے ہر دور کی ہر قوم کے حوالے سے یہ ایک مستقل حقیقت بیان کی ہے جس نے لوگوں کو ہمیشہ حق کو قبول کرنے سے محروم رکھا۔ آج بھی مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں اور اس کا سلسلہ آج شروع نہیں ہوا بلکہ اسلام کی آمد سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ البتہ صلیبی جنگوں نے اس میں تیزی پیدا کردی۔ اسلام کی ظاہری ‘ معنوی اور روحانی قوت نے ہمیشہ یہود و نصاریٰ کو اسلام دشمنی میں پوری طرح غالب نہیں آنے دیا۔ لیکن جہاں تک ان کے اندر کے مرض کا تعلق ہے وہ ہر دور میں یکساں رہا۔ ساری دنیا نے اسلام کی برکات سے فائدہ اٹھایا لیکن یہود بالخصوص اور نصاریٰ بالعموم اپنی گروہی انانیت اور قومی عصبیت کا بری طرح شکار رہے اور مزید رنگ و نسل کے تفاوت نے انھیں ناقابلِ شفا مریض بنادیا۔ آج امریکہ اور پورا یورپ جس طرح پوری قوت سے مسلمانوں کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے اس میں حقیقی اسباب کا تو نام و نشان موجود نہیں۔ مصنوعی اسباب پیدا کیے جاتے ہیں ‘ پھر ان کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور پھر مسلمانوں کو نشانے پر رکھ لیا جاتا ہے۔ اقبال مرحوم نے چونکہ کہ اہل کتاب کو یورپ کے اندر رہ کر بڑی گہری نظر سے دیکھا اور ان کے فلسفے اور ان کی تہذیب کی بنیادوں کو سمجھنے کی کوشش کی اس کی رائے اس معاملہ میں ممکن ہے انتہا پسندی کہا جائے لیکن میرا ناقص خیال یہ ہے کہ خلاف واقعہ ہرگز نہیں۔ اس نے کہا تھا ؎ کرے قبول اگر دین مصطفیٰ انگریز سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام مسلمانوں کو اپنی حیثیت کے ادراک کی ہدایت آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ پہلی امتوں کی تاریخ اپنے اتمام کو پہنچ گئی۔ اب تاریخ کا رشتہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اہل کتاب چاہے کیسی ہی نسلی اور مذہبی برتری کا شکار رہیں ہم نے انھیں ہدایت کے سرچشمے سے بالکل محروم کردیا ہے اور اب مسلمانوں کو ان تمام حقائق کی ہدایت سے بہرہ ور فرمایا ہے جس میں دنیا ہمیشہ اختلاف کرتی رہی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری اور قرآن حکیم کے نزول سے وہ آخری ہدایت اور آخری شریعت مسلمانوں کے سپرد کی جا رہی ہے جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے منارہ نور بنی رہے گی۔ اب نیا نبی اور نئی کتاب تو کوئی نہیں آئے گی۔ لیکن ہدایت کی تمام ضرورتیں قیامت تک اسی کتاب سے پوری ہوں گی اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ ہر دور کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنی خصوصی حیثیت کو سمجھ کر اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے کہ انھوں نے اگر پہلی امتوں کی طرح اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی تو نہ صرف یہ کہ وہ خود ہدایت سے محروم رہ جائیں گے بلکہ پوری نوع انسانی کی ہدایت کی جو عظیم ذمہ داری ان پر ڈالی گئی ہے اس کے ادا نہ کرنے کا وبال بھی ان پر پڑے گا۔ البتہ ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ پوری دنیا کو ہدایت دینا اور ان کی دینی ضرورتوں کو پورا کرنا اور اس کے لیے ان کے سامنے دعوت پیش کرنا یہ کوئی آسان کام نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے جب تک مکہ میں یہ کام کیا تو کوئی ایسی اذیت اور تکلیف ایسی نہیں جس کا ہدف آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور مسلمانوں کو نہ بنایا گیا ہو۔ پھر اسی ذمہ داری کے ساتھ جب ہجرت کر کے آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مدینے کی سرزمین ایک بھٹی کی طرح سلگ اٹھی۔ وہاں کے اہل کتاب اور منافقین نے ہمیشہ آپ ﷺ کو پریشان رکھا۔ اور مکہ والوں نے بیسیوں جنگوں میں آپ ﷺ کو آنے پر مجبور کیا۔ اسلامی دعوت کی تاریخ کے یہ وہ لازمی ابواب اور وہ ناگزیر سنتیں ہیں جن سے ہر دور میں مسلمان گزرتے رہے ہیں اور جب بھی دعوت الیٰ اللہ کا کام کیا جائے گا تو انہی جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو واضح ہدایات دی جا رہی ہیں۔ آیت کریمہ کے آخر میں باذنہ کا لفظ اور بعد کا جملہ خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں روئے سخن شاید اہل کتاب کی طرف ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس نبوت کی دعوت دے رہے ہیں اور جس کتاب کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں یہ آپ ﷺ کی ذاتی پسند نہیں اور نہ آپ ﷺ اس کے موجد اور مصنف ہیں اور نہ یہ ذمہ داری آپ ﷺ نے خود سے اختیار کی ہے۔ بلکہ اس ذمہ داری کے پیچھے اللہ کا حکم ‘ اس کا اذن ‘ اس کی توفیق اور اس کا اختیار کارفرما ہے۔ اس لیے اہل کتاب اگر آنحضرت ﷺ کی دعوت کا انکار کریں یا آپ ﷺ پر تنقید کریں تو انھیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی مخالفت اور تنقید کا ہدف کون ہے ؟ مزید فرمایا کہ اہل کتاب کو ساری ناراضگی یہ ہے کہ اللہ نے نبوت کی دولت آل اسماعیل کو کیوں عطا کی۔ یہ تو ہمارا نسلی اور نسبی حق تھا جو ہم سے چھین لیا گیا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ نبوت اور ہدایت کا کلی اختیار باقی تمام اختیارات سمیت اللہ کے پاس ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اسے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ تمہیں آخر یہ اعتراض کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟
Top