Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 212
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۘ وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
زُيِّنَ : آراستہ کی گئی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : کفر کیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَسْخَرُوْنَ : اور وہ ہنستے ہیں مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اتَّقَوْا : پرہیزگار ہوئے فَوْقَهُمْ : ان سے بالا تر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَاللّٰهُ : اور اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
مزین کردی گئی ہے دنیا کی زندگی کافروں کی نگاہوں میں اور یہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو ایمان لائے ہیں ‘ حالانکہ جو لوگ تقویٰ اختیار کیے ہوئے ہیں ‘ قیامت کے دن وہ ان پر بالا ہوں گے ‘ اور اللہ جسے چاہے بےحساب رزق دیتا ہے
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَیَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا م وَالَّذِیْنَ اتَّـقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقَیٰـمَۃِ ط وَاللّٰہُ یَرْزُقُُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِحِسَابٍ (مزین کردی گئی ہے دنیا کی زندگی کافروں کی نگاہوں میں اور یہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو ایمان لائے ہیں ‘ حالانکہ جو لوگ تقویٰ اختیار کیے ہوئے ہیں ‘ قیامت کے دن وہ ان پر بالا ہوں گے ‘ اور اللہ جسے چاہے بےحساب رزق دیتا ہے) (212) حیات دنیا کی تزئین کا مفہوم دعوت الی اللہ اور غلبہ دین کی خاطر انبیائے کرام کی جدوجہد ان کی قربانیوں ‘ ان کے ایثاروخلوص ‘ پھر ان کے متبعین کی وفاشعاریوں کو دیکھتے ہوئے بعض دفعہ حیرانی ہونے لگتی ہے کہ آخر یہ دعوت کفار کے لیے قابل قبول کیوں نہیں ہوتی ‘ اور اس دعوت کو نفوذ اختیار کرنے میں اس قدر تاخیر کیوں ہوتی ہے۔ اور ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض انبیائے کرام کی طویل جدوجہد گنتی کے صاحب ایمان پیدا کرسکنے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن جب ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں ‘ جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے تو پھر یہ ہماری حیرانی ختم ہوجاتی ہے۔ ایک شخص جو من مرضی کی زندگی گزارتا ہے۔ ہر معاملے میں اس کی خواہشات اس کی رہنما ہوتی ہیں۔ حیوانوں کی طرح کھانا پینا اور عیش کرنا اس کی زندگی کا مقصد بنا رہتا ہے۔ کسی کی حق تلفی یا حق شکنی کرنا اس کے لیے کوئی تکلیف دہ بات نہیں ہوتی۔ وہ صرف عزت اور لذت کے فلسفے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ زندگی میں زندگی سے محظوظ ہونا زندگی کا اصل ہدف سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک اپنی خواہشات کو حاصل کرنا اصل مقصد ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور اجتماعی ذمہ داری ‘ کوئی اخلاقی قدر ‘ کوئی انسانی حق ‘ کوئی روحانی فلسفہ ‘ کائنات کے بارے میں کوئی سوال ‘ خالق کائنات سے متعلق کوئی سوچ ‘ زندگی کی ابتدا اور انتہاء کے بارے میں کوئی فکر اس کے دل و دماغ پر کبھی دستک نہیں دیتی۔ ایسے آدمی کو جب پیغمبر اچانک اللہ پر ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے ذہن میں نئے نئے سوالات اٹھاتا ہے۔ اسے زندگی کے مقاصد کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کے سامنے حقوق و فرائض کا در کھولتا ہے اور اسے سمجھاتا ہے کہ تم یہاں صرف کھانے پینے اور عیش و عشرت کے لیے نہیں بھیجے گئے ہو بلکہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جس کے حصول کے لیے تمہیں ہر قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ تمہاری اپنی ذات تمہارا مقصود نہیں ہے بلکہ اللہ کی ذات اور اس کا دین تمہارا مقصد ہے۔ غور فرمائیے ‘ اس کی زندگی کا پہلا تصور جسے حیات دنیا سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور زندگی کا دوسرا تصور جسے اللہ کے رسول نے اس کے سامنے پیش کیا ہے ‘ دونوں کے درمیان کس طرح مشرق ومغرب کا فاصلہ ہے۔ ایک شخص جو زندگی کے پہلے تصور پر جان دیتا ہے اور وہ کسی طرح اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور اس زندگی میں اس کے لیے مزے ہی مزے ہیں۔ وہ اس دوسری زندگی کو کیسے قبول کرلے۔ جس کا حال یہ ہے کہ : یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری یہی وہ حقیقی کشمکش ہے جو دنیا کے پرستاروں یعنی کافروں کو آخرت کی طرف دعوت دینے والوں کے قریب نہیں آنے دیتی اور جب وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ آخرت کے مسافر اور جنت اور اس کی نعمتوں کے دعوے دار اپنے پاس سوائے محرومیوں کے اور کچھ نہیں رکھتے۔ یہ معاشرے کے نہایت گرے پڑے لوگ مالی اعتبار سے نہایت نادار اور معاشرتی اعتبار سے نہایت بےکس اور سیاسی اعتبار سے نہایت بےاثر اور ظاہری وجاہتوں کے اعتبار سے درویش اور مسکین ہمیں جس مستقبل کی نوید دے رہے ہیں۔ وہ مستقبل اسی طرح کا ہوگا جس طرح کے یہ لوگ ہیں۔ چناچہ جب مسلمان انہیں غلبہ دین کے نتیجہ میں ملکوں کے ہاتھ آجانے کی خبر دیتے تھے ‘ تو وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ ہیں کل کے حکمران جنھیں آج جوتا پہننے کو نہیں ملتا اور جب وہ ان کے سامنے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے تو وہ تمسخر کرتے کہ ماشاء اللہ یہ ہیں جنت کے وارث جنہیں دو وقت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ چناچہ دنیا کے اعتبار سے یہ فرقِ مراتب ان کے دل و دماغ کا ایسا حصہ بن جاتا ہے کہ وہ اس سے باہر نکل کر سوچنے پر قادر نہیں رہتے۔ ان کی اس بیماری کا ذکر کرنے کے بعد پروردگار فرماتے ہیں کہ کاش ان لوگوں کو اس بات کی خبر ہوتی کہ تم نے اپنے لیے زندگی کا جو رویہ اپنایا ہے ‘ غور کرو تمہارے چند امراء کی عیش پرستیوں کے سوا تمہیں اس رویے نے کیا دیا ہے۔ تم جن غریبوں پر ہنستے ہو یہ تمہارے اسی رویے نے پیدا کیے ہیں اور تمہیں اپنے معاشرے میں جو اونچ نیچ نظر آتی ہے ‘ یہ تمہارے ہی تصورات کا نتیجہ ہے۔ خود تمہارے اپنے گھروں میں تمہاری بیویاں جس طرح تم سے خیانت کرتی ہیں اور تم اپنی بیویوں سے خیانت کرتے ہو اور تمہاری اولاد جس طرح تمہاری گستاخیاں کرتی ہے اور تمہارا سماج جس طرح ظلم کی بنیادوں پر کھڑا ہے ‘ یہ سب کچھ تمہاری زندگی کے اس تصور نے پیدا کیا ہے ‘ جسے تم کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتے اور زندگی کا وہ تصور جو پیغمبر تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے۔ اس میں بظاہر تمہیں ایثار و قربانی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا لیکن حقیقت میں اسی کے نتیجے میں وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جس کا ہر فرد پُراَمن زندگی گزارتا ہے اور وہ صرف اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اسے دوسروں کے فاقوں کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یہی احساس بڑھتے بڑھتے پورے معاشرے پر رحمت بن کر چھا جاتا ہے اور یہی لوگ جن پر تم آج ہنستے ہو ‘ یہی تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے کے بعد اس سوسائٹی کے بالا بلندلوگ ہوں گے ‘ جو اسلام کی بنیاد پر وجود میں آئے گی۔ اور یہی لوگ ہوں گے جو قیامت کے دن ان تمام لوگوں سے برتر ہوں گے جو آج انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یعنی دنیا کی زندگی میں بھی اللہ ان کو عزت دے گا اور انہی سے عزت کا صحیح مفہوم وجود میں آئے گا اور آخرت میں ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوگا۔ بےحساب رزق کا مفہوم آیت کے آخر میں مزید فرمایا : وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِحِسَابِ ” اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے۔ “ تقویٰ کی بنیاد پر زندگی گزارنے والے قیامت کے دن تو اللہ کی بےپایاں نعمتوں سے یقینا مالامال ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا اگرچہ دارالابتلاء ہے دارالجزاء نہیں۔ اس لیے یہاں ہر عمل کا بدلہ ملنا ضروری نہیں۔ لیکن یہ اللہ کا کرم ہے کہ بعض دفعہ وہ دنیا ہی میں متقی لوگوں کے لیے اپنے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنے کاروبار میں کبھی حرام کی آمیزش نہیں ہونے دی اور اللہ سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی طرف سے اپنے کاروبار کو ہر طرح کے حرام سے پاک رکھیں گے۔ چناچہ چند سال تک تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمایا لیکن جب وہ ثابت قدم رہے ‘ تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر رزق کی فراوانی کے دروازے کھول دئیے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ اللہ کا کوئی کام حساب کے بغیر نہیں ہوتا۔ صحرا میں پتہ بھی گرتا ہے تو وہ اسے جانتا ہے۔ کائنات کی ہر چیز اس کے علم میں ہے۔ یہاں بِغَیْرِحِسَابْہمارے حوالے سے کہا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بعض دفعہ اتنی فراوانی سے عطا کرتا ہے کہ توقعات اور اندازوں اور قیاسوں اور گمانوں کے تمام پیمانے اسے ناپنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ یہاں یہی مراد ہے۔
Top