Ruh-ul-Quran - Yaseen : 59
وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ
وَامْتَازُوا : اور الگ ہوجاؤ تم الْيَوْمَ : آج اَيُّهَا : اے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرمو (جمع)
اور اے مجرمو ! آج تم الگ ہوجائو
وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ ۔ اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ ج اِنَّـہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ۔ وَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْ ط ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْـکُمْ جِبِلاًّ کَثِیْرًا ط اَفَلَمْ تَـکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 59، 62) (اور اے مجرمو ! آج الگ ہوجاؤ۔ اور اے آدم کے بیٹو ! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور یہ کہ میری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ اور اس نے تم میں سے ایک بڑی مخلوق کو گمراہ کردیا، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔ ) مجرموں کا حشر اہلِ جنت کے معاملے کے بعد اب ان مجرموں کو عدالت میں طلب کیا جارہا ہے جنھوں نے زندگی میں اللہ تعالیٰ سے سرکشی کا رویہ اختیار کیا۔ اس کو ماننے سے انکار کیا یا دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے رہے۔ انہیں سب سے پہلا یہ حکم دیا جائے گا کہ اے جرائم پیشہ لوگو ! آج الگ ہو کر کھڑے ہوجاؤ، تم اس قابل نہیں ہو کہ تم عدالت میں بھی باایمان بندوں کے ساتھ کھڑے رہو۔ دنیا چونکہ دارالامتحان تھی اس لیے وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ملے جلے رہے۔ لیکن آج جزائے اعمال کا دن ہے اس لیے آج تم باایمان بندوں کے ساتھ کھڑے نہیں رہ سکتے بلکہ الگ ہو کر کھڑے ہوجاؤ۔ اور دوسرا مطلب اس کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم ایک گروہ اور جتھے کی صورت میں اکٹھے ہو کر کھڑے مت ہو۔ تمہارے جتھے اور پارٹیاں توڑ دی گئی ہیں، تمہارے آپس کے تمام رشتے کاٹ دیے گئے ہیں۔ اب تم میں سے ہر شخص کو اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی۔ ان مجرموں کو اسی تنبیہ سے اندازہ ہوجائے گا آج ہمارے ساتھ کیا گزرنے والی ہے۔ اس لیے وہ جاننا چاہیں گے کہ ان کا اصل جرم کیا ہے۔ ان کو زیادہ دیر اس انتظار میں نہیں رہنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمائیں گے کہ اے آدم کے بیٹو ! کیا ہر نبی اور رسول کے واسطے سے ہمیشہ تم پر یہ بات واضح نہیں کی گئی تھی کہ شیطان تمہارا دشمن ہے کہ وہ تمہارے جدِامجد کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا۔ چناچہ بجائے اس کے کہ اسے اپنی سرکشی اور حماقت پر افسوس ہوتا وہ حضرت آدم کی دشمنی پر تل گیا۔ اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ میرے ساتھ جو کچھ ہوا چونکہ آدم کی وجہ سے ہوا ہے اس لیے میں اولادِ آدم سے اس کا انتقام لوں گا۔ اور میں ہر طرف سے اور ہر میدان میں اور ہر طریقے سے اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ چناچہ اس نے اپنے فیصلے کے مطابق کبھی اس میں کوتاہی نہیں کی۔ اس لیے تمہیں اچھی طرح آگاہ کردیا گیا تھا کہ شیطان مختلف طریقوں سے تمہیں بہکائے گا، دیکھنا اس کی پیروی نہ کرنا اور کبھی اس کی بندگی کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ نہ اس کی عبادت کرنا، نہ اس کی اطاعت کرنا۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں صرف میری اطاعت، میری پرستش اور میری بندگی کرنا، میرے سامنے سر جھکانا، میرے احکام کی تعمیل کرنا، میری نازل کردہ شریعت کے مطابق اپنا آئین اور دستور بنانا اور میرے رسول کی سنت کے مطابق اپنا طرزعمل طے کرنا۔ یہی وہ سیدھا راستہ ہے جس پر چل کر تم مجھ تک پہنچ سکتے ہو۔ لیکن تم ایسے بدنصیب ثابت ہوئے کہ میری تمام تر تنبیہات کے باوجود تم نے شیطانی وساوس کے درآنے اور اس کی سازشوں کے پنپنے کے راستے بند نہ کیے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ شیطان تمہارے اندر سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ کیا تم اتنی عقل نہیں رکھتے ہو کہ اپنے دوست اور دشمن میں امتیاز کرسکو۔ اور تمہارے اندر اتنی حمیت نہیں کہ جس نے تمہارے جدِامجد کو جنت سے نکلوایا تم اس کی دشمنی کو یاد رکھتے اور اس کی پیروی کرنے سے انکار کردیتے۔
Top