بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے نبی ! (مسلمانوں سے کہیں) کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو ، تو ان کی عدت کے حساب سے طلاق دو ، اور عدت کا شمار رکھو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا پروردگار ہے، انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، بجز اس کے کہ وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا، تجھے کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کردے
یٰٓـاَیُّھَاالنَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ج وَاتَّـقُواللّٰہَ رَبَّـکُمْ ج لاَ تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ م بُیُوْتِھِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُاللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّحُدُوْدَاللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔ (الطلاق : 1) (اے نبی ! (مسلمانوں سے کہیں) کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو ، تو ان کی عدت کے حساب سے طلاق دو ، اور عدت کا شمار رکھو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا پروردگار ہے، انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، بجز اس کے کہ وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا، تجھے کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کردے۔ ) خطاب کی وضاحت اس آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ سے کیا گیا ہے، لیکن یہ خطاب آپ کی ذاتی حیثیت میں نہیں کیا گیا بلکہ امت کے وکیل کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کو خطاب کرنے کے فوراً بعد طلقتم میں ضمیر جمع کی لائی گئی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہاں جو احکام دیئے جارہے ہیں وہ تمام مسلمانوں کے لیے ہیں۔ البتہ آنحضرت ﷺ کو خطاب ان احکام کی عظمت اور اہمیت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ ہر پڑھنے والے کو اندازہ ہو کہ جب نبی کریم ﷺ پر ان باتوں کی پابندی ضروری ہے تو دوسروں پر تو بدرجہا زیادہ ہوگی۔ امام قرطبی کا خیال یہ ہے کہ جب کوئی حکم تمام امت کو دیا جاتا ہے تو وہاں یا ایھا النبی کہہ کر خطاب کیا جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی ایسا حکم بیان کیا جاتا ہے جو نبی کریم ﷺ کی ذات سے مخصوص ہے تو پھر یا ایھا الرسول سے خطاب کیا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس جگہ جملہ محذوف قرار دے کر آیت کی تفسیر یہ کی ہے یا ایھا النبی قل للمومنین اذا طلقتم النساء یعنی اے نبی ! آپ مسلمانوں کو بتلا دیں کہ جب وہ طلاق دیا کریں تو آگے بیان کیے ہوئے قانون کی پابندی کریں۔ طلاق کا صحیح محمل عہدِجاہلیت میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ جس کسی کو بھی بیوی پر کسی سبب سے غصہ آتا وہ نتائج و عواقب کا لحاظ کیے بغیر ایک ہی سانس میں سینکڑوں طلاقیں دے ڈالتا اور دھکے دے کر اسے گھر سے نکال دیتا۔ تصور یہ تھا کہ جب میں نے بیوی کو طلاق دے دی ہے تو اب میرے گھر میں اس کا کیا کام یا مجھ پر اب اس کی کیا ذمہ داری۔ عورت بیچاری جگہ جگہ دھکے کھاتی پھرتی، اس طرح سے عورت ان کی نگاہ میں کسی عزت کی حامل نہ تھی، اور نہ بچے کسی شفقت کے اہل تھے۔ حتیٰ کہ بیوی حاملہ بھی ہوتی تو تب بھی اسے کسی مروت کا مستحق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے سب سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی کہ رشتہ ٔ ازدواج بڑا مقدس رشتہ ہے، اسی رشتے کی بقاء اور استحکام سے خاندان اور معاشرہ مستحکم ہوتا ہے۔ گھر صحیح معنی میں آباد ہوتے ہیں، بچوں کو محفوظ ماحول ملتا ہے اور میاں بیوی ماں باپ کی عزت و وجاہت کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اور یہی وہ دفاعی حصار ہے جس میں مسلمان نسل پروان چڑھتی اور غیرمسلم تہذیب سے اس کی حفاظت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ حتی الامکان اس رشتے کو ٹوٹنے نہ دیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرما : تزوجوا ولاتطلقوا فان الطلاق یہتز منہ العرش ” شادی کیا کرو اور طلاق نہ دیا کرو، کیونکہ طلاق سے اللہ تعالیٰ کا عرش لرز جاتا ہے۔ “ اس لیے اسلام نے طلاق کا جو قانون پیش کیا ہے اس میں اس امر کا پوری طرح خیال رکھا گیا ہے کہ طلاق دینے والا جلدبازی میں طلاق نہ دے۔ کوئی وقتی رنجش یا عارضی نفرت اس کا باعث نہ ہو۔ طلاق دینے والا سوچ سمجھ کر اس کے نتائج و عواقب کو مدِنظر رکھتے ہوئے طلاق دے۔ اسلام نے دین فطرت کی حیثیت سے طلاق کے احکام دیئے اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے وہ ان تمام جذبات و عواطف کو پیش نظر رکھتا ہے جس سے انسانی زندگی میں نشیب و فراز پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کبھی نہ کبھی مزاجوں کا اختلاف ایسی صورت اختیار کرجاتا ہے کہ دونوں کا یکجا رہنا ممکن نہیں رہتا۔ بنابریں وہ دین جو دین فطرت ہے وہ ایسے عوامل کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اس لیے اس نے رشتہ ٔ ازدواج کی تمام تر اہمیت، افادیت اور نزاکت کے باوجود اس بات کی اجازت دی ہے کہ طلاق اگرچہ اللہ تعالیٰ کو نہایت ناپسند ہے لیکن جب اس کے سوا کوئی صورت نہ رہے تو پھر اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جو اصلاحی تدبیریں ممکن ہوسکتی ہیں ان کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے ان تدابیر میں سے سب سے پہلی تدبیر یہ اختیار کی گئی کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو تو عدت کے حساب سے طلاق دو ، اور عدت کو مدِنظر رکھو۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ طلاق حیض کی حالت میں نہ دی جائے، نیز ایسے طہر میں بھی طلاق نہ دی جائے جس میں مباشرت ہوچکی ہو، کیونکہ ان دونوں طریقوں سے عدت میں طوالت ہوجائے گی اور مطلقہ کو تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔ کیونکہ حیض کی حالت میں طلاق دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ کہ مطلقہ کی عدت تین حیض کی بجائے چار حیض ہوجائے گی۔ کیونکہ جس حیض میں طلاق دی گئی ہے وہ تو شمار میں نہیں آئے گا۔ اس کے بعد طہر کی مدت آئے گی، پھر اس کے بعد حیض کی مدت کو پہلا حیض قرار دیا جائے گا اور یہاں سے عدت کا شمار شروع ہوگا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حیض میں طلاق دینے سے عدت کی مدت میں کس قدر اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں مباشرت ہوچکی ہو۔ کیونکہ اس صورت میں شوہر اور بیوی دونوں میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آیا مباشرت کے نتیجے میں کوئی حمل پا گیا ہے یا نہیں۔ اس وجہ سے عدت کا آغاز نہ اس مفروضے پر کیا جاسکتا ہے کہ یہ عدت آئندہ حیضوں کے اعتبار سے ہوگی اور نہ اس مفروضے پر کیا جاسکتا ہے کہ یہ حاملہ عورت کی عدت ہوگی۔ اس تمام تفصیل سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ آیت کریمہ میں جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق حیض کی حالت میں نہ دی جائے۔ اور دوسرے یہ کہ طلاق اس طہر میں دی جائے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو۔ یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہوجائے۔ حالتِ حیض میں طلاق نہ دینا خود رسول اللہ ﷺ کے حکم سے بھی ثابت ہے۔ جب حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے حضور ﷺ کی خدمت عالیہ میں یہ واقعہ عرض کیا، تو آنحضرت ﷺ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس کو حکم دو کہ بیوی سے رجوع کرلے اور اسے اپنی زوجیت میں روکے رکھے، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے۔ طہر کے بعد پھر حیض آئے اور پھر پاک ہو، اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے۔ یہی وہ عدت ہے جس کی پابندی کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہے کہ یا تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے یا پھر ایسی حالت میں دے جبکہ اس کا حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ شریعت کے اس حکم میں بڑی حکمتیں ہیں۔ حیض میں طلاق نہ دینے کے حکم کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ حیض کی حالت میں عورت مرد کے لیے مرعوبِ خاطر نہیں ہوتی۔ وہ اپنی صفائی کی طرف سے بےاعتنائی برتی ہے۔ ان دنوں اس کی طبیعت بھی نڈھال، مضمحل اور غیرمتوازن ہوتی ہے۔ اس لیے اگر اس حالت میں مرد طلاق دے دے تو ہوسکتا ہے کہ وہ عارضی بےرغبتی طلاق دینے میں محرک ہو۔ اور جب یہ ایام گزر جائیں تو پھر اس کو اپنے کیے پر ندامت ہو۔ کیونکہ طہر کی حالت میں عورت کا مزاج بھی معمول پر آجاتا ہے اور دونوں کے درمیان فطرت نے جو طبعی کشش رکھی ہے وہ بھی اپنا کام کرنا شروع کردیتی ہے۔ اب دونوں کے لیے طلاق کے مسئلے پر ازسرنو غور کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جس طہر میں مباشرت کی جاچکی ہو اس میں طلاق کے ممنوع ہونے کی مصلحت یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حمل قرار پا جائے تو مرد اور عورت دونوں میں سے کسی کو اس کا علم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے وہ وقت طلاق دینے کے لیے موزوں نہیں۔ حمل کا علم ہوجانے کی صورت میں مرد بھی دس مرتبہ سوچے گا کہ جس عورت کے پیٹ میں اس کا بچہ پرورش پا رہا ہے اسے طلاق دے یا نہ دے۔ اور عورت بھی اپنے اور اپنے بچے کے مستقبل کا خیال کرکے شوہر کی ناراضی کے اسباب دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ لیکن اندھیرے میں بےسوچے سمجھے تیر چلا بیٹھنے کے بعد اگر معلوم ہو کہ حمل قرار پا چکا تھا تو دونوں کو پچھتانا پڑے گا۔ عدت کے لیے طلاق اسی صورت میں مفید ہوسکتی ہے جبکہ ایک طلاق حالت طہر میں دی جائے اور پھر تین مرتبہ کے ایام حیض کو شمار کیا جائے اور اس دوران کوئی اور طلاق نہ دی جائے تو یہ ایک طلاق عدت گزرنے کے بعد بائنہ ہوجائے گی۔ اور یا دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے دی جائے تو یہ بھی عدت گزرنے کے بعد بائنہ ہوجائے گی اور میاں بیوی میں علیحدگی ہوجائے گی۔ لیکن اس عدت میں ایک طلاق یا دو طلاقوں کی صورت میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ شوہر اگر رجوع کرنا چاہے تو رجوع کرسکتا ہے۔ اور اگر بیوی کو فارغ کرنا ہی مقصود ہو تو عدت گزرنے کے بعد وہ ایک یا دو طلاق ہی سے فارغ ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدت کے حوالے سے تین طلاق دینے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ تین طلاق دینے کا مطلب ہمیشہ کی علیحدگی ہے جس میں نہ رجوع ہے اور نہ عدت کے بعد نکاح کی کوئی صورت۔ بجز اس کے کہ مطلقہ کا نکاح دوسرے شخص سے ہو اور وہ کسی وجہ سے کسی وقت اسے طلاق دے دے تو پھر وہ پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ البتہ ایسا کرنے والا شخص سخت گنہگار ہوتا ہے۔ نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ حضور ﷺ یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگئے۔ فرمایا ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم ” کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ “ اس حرکت پر حضور ﷺ کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کہ کیا میں اسے قتل نہ کردوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کا بیک وقت دینا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔ جہاں تک ان کے واقع ہونے کا تعلق ہے مصنف عبدالرزاق نے حضرت عبیدہ بن الصامت ( رض) کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں۔ انھوں نے جا کر رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ تین طلاقوں کے ذریعہ سے تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہوگئی۔ اور 997 طلاقیں ظلم اور عدوان کے طور پر باقی رہ گئیں جن پر اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) کی حدیث پیچھے گزری ہے اس میں ابن ابی شیبہ نے اپنی روایت میں جو تفصیل دی ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) کو بیوی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے پوچھا اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا پھر بھی میں رجوع کرسکتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور تیرا یہ فعل نافرمانی ہوتا۔ عدت کی اہمیت اس آیت کریمہ میں مزید یہ حکم دیا گیا ہے کہ عدت کو شمار کرو اس کا خطاب مردوں اور عورتوں دونوں سے ہے اور ان کے خاندان والوں سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق ایک نہایت نازک معاملہ ہے جس سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے عدت کی تاریخ کو یاد رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کی تاریخ بھول جانے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ جب تک مطلقہ عورت عدت میں ہے وہ اس وقت تک اپنے شوہر کے نکاح میں ہے۔ اس کا نفقہ اور سکنیٰ مرد کے ذمہ ہے۔ اگر ایام عدت میں دونوں میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو دوسرا اس کا وارث ہوتا ہے۔ اسی طرح عدت گزرنے سے پہلے عورت کسی کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتی۔ اسی طرح کے اور مسائل ہیں جس کی وجہ سے عدت کا یاد رکھنا، اس کے دنوں کا ٹھیک ٹھیک شمار کرنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ کوئی بھی پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ طلاق کے بعد عورت کے حقوق آیتِ کریمہ میں مزید حکم یہ دیا گیا کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے کر غصے سے باہر نہ نکال دے۔ کیونکہ جب تک وہ عدت میں ہے یہ گھر اس کا بھی گھر ہے۔ اسی لیے بیوت کی نسبت آیت میں ان کی طرف کی گئی ہے۔ اسی طرح اس کا نفقہ اور سکنیٰ وہ بھی مرد کے ذمہ ہے۔ عورتوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی طلاق ہوجانے کے بعد گھروں سے نکل جانے کی کوشش نہ کریں۔ اور ایک ہی گھر میں دونوں کے رہنے کی صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ کسی وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہوجائے یا بیوی کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے، بیوی شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ ایامِ عدت میں کئی دفعہ دونوں کو ایک دوسرے کو دیکھنے یا آمنا سامنا ہونے کی نوبت آسکتی ہے۔ اس لیے باردگر مل بیٹھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کرکے اسے نکال دے یا عورت ناسمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں بگاڑ کو اصلاح سے بدلنے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ اور پھر عموماً طلاق کا انجام مستقل علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس لیے فقہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت شوہر کے گھر میں عدت گزار رہی ہے اسے بنائو سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو۔ یاد رہے جس طرح شوہر کے لیے مطلقہ کو گھر سے نکالنے کی اجازت نہیں اسی طرح مطلقہ کو شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں۔ اور اگر عورت بغیر اجازت کے گھر سے نکلے گی تو گنہگار بھی ہوگی اور نفقہ و سکونت کے حق سے محروم بھی ہوجائے گی۔ البتہ شوہر کو ایک صورت میں مطلقہ کو گھر سے نکالنے کی اجازت ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ عورت حرام کاری کا ارتکاب کرے۔ یعنی زنا کرے یا کوئی بھی بےحیائی کا کام کرے جس کو شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔ یا چوری چکاری سے باز نہ آئے یا بڑی بدزبان اور اپنے خاوند کے ماں باپ، بھائی بہن سے گالی گلوچ کرتی ہو اور برا بھلا کہتی ہو۔ یعنی وہ یہ سمجھ کر کہ طلاق تو مجھے ہو ہی گئی ہے اب گھر کا سکون برباد کرنے سے شاید اسے کوئی سکون مل سکتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ زبان چلانے کی کوشش کرے۔ ایسی صورت میں شوہر اسے گھر سے نکال سکتا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ موافقت کی کوئی صورت پیدا کردے۔ ان دونوں فقروں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ایک تو یہ بات کہ طلاق کے بارے میں جو بنیادی تصور پیدا کیا گیا ہے اور ناگزیر صورت میں جن احتیاطوں کے ساتھ طلاق دینے کی اجازت دی گئی ہے یہ محض نصیحت نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ کوئی شخص ان کو اگر پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حدود ہی کی توہین نہیں کرتا بلکہ اس کے نتیجے میں اپنے اوپر بھی ظلم کرتا ہے اور بعد میں اس پر پچھتاتا ہے۔ حالانکہ ان پر عمل کرنے کے نتیجے میں اس بات کا امکان باقی رہتا ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ تعلقات اس حد تک بگڑنے کے باوجود موافقت کی کوئی صورت پیدا فرما دے جس کا عام طور پر اختلافات کی اڑائی ہوئی گرد میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری بات جس کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اور اسی طرح بیک وقت تین طلاق دینے سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں اور اس کے بعد دونوں کی یکجائی کی تحلیل کے علاوہ کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ اگر حیض میں طلاق دینے سے طلاق نہ ہوتی تو پھر یہ بات کہنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ جو شخص ایسا کرے گا وہ درحقیقت اپنے نفس پر ظلم کرے گا۔ نفس پر ظلم تو اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ طلاق واقع ہوجائے اور اس کے بعد آدمی پچھتائے کہ یہ میں کیا کر بیٹھا ہوں۔ اسی طرح اگر تین طلاق بیک وقت دینے سے ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوتی ہے تو رجوع کی صورت میں تو لازماً موافقت پیدا ہوجاتی۔ خطرہ تو اس وقت لاحق ہوتا ہے جب سرے سے رجوع کا حق باقی نہ رہے اور دونوں میں مکمل طور پر جدائی ہوجائے۔ تب آدمی پچھتاتا ہے کہ ایک یا دو طلاق دینے سے اللہ تعالیٰ نے مجھے رجوع کا جو حق دے رکھا تھا اور جس سے میں فائدہ اٹھا کر اپنے گھر کو بچا سکتا تھا وہ میں نے تین طلاق بیک وقت دے کر خود کھو دیا اور اس طرح سے اپنے پائوں پر کلہاڑی مار لی۔
Top