Ruh-ul-Quran - At-Tahrim : 10
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ١ؕ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا وَّ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ
ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : ایک مثال لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا : ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا امْرَاَتَ : بیوی کی نُوْحٍ : نوح کی وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ : اور لوط کی بیوی کی كَانَتَا : وہ دونوں تھیں تَحْتَ عَبْدَيْنِ : ماتحت دو بندوں کے مِنْ : سے عِبَادِنَا : ہمارے بندوں میں (سے) صَالِحَيْنِ : دونوں نیک تھے فَخَانَتٰهُمَا : تو ان دونوں نے خیانت کی ان سے فَلَمْ يُغْنِيَا : تو نہ وہ دونوں کام آسکے عَنْهُمَا : ان دونوں کو مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے شَيْئًا : کچھ بھی وَّقِيْلَ ادْخُلَا : اور کہہ دیا گیا دونوں داخل ہوجاؤ النَّارَ : آگ میں مَعَ الدّٰخِلِيْنَ : داخل ہونے والوں کے ساتھ
اللہ تعالیٰ مثال بیان فرماتا ہے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی، وہ ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی، تو وہ اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ کام نہ آسکے، اور دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جائو تم بھی آگ میں جانے والوں کے ساتھ آگ میں چلی جائو
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاَّ لِّـلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ط کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰـھُمَا فَلَمْ یُغْنِیَاعَنْھُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ ۔ (التحریم : 10) (اللہ تعالیٰ مثال بیان فرماتا ہے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی، وہ ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں انھوں نے ان کے ساتھ خیانت کی، تو وہ اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ کام نہ آسکے، اور دونوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جاؤ تم بھی آگ میں جانے والوں کے ساتھ آگ میں چلی جاؤ۔ ) آدمی کو نجات دینے والا عمل ہے بڑوں سے نسبت نہیں مشرکین عام طور پر نسبتوں پر اعتماد کرکے اپنا دین بگاڑ لیتے ہیں اور عورتیں اس ضعیف الاعتقادی میں ہمیشہ پیش پیش ہوتی ہیں۔ ان کی اس گمراہی کی تردید میں یہاں ایسی دو خواتین کی مثال دی گئی ہے جو نسبتوں کے اعتبار سے اپنے دور کی سب خوش قسمت خواتین تھیں۔ لیکن چونکہ ایمان و عمل سے محروم تھیں اس لیے یہ نسبتیں ان کے کسی کام نہ آئیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) دونوں جلیل القدر رسول تھے۔ لیکن ان کی بیویاں ان عظیم رسولوں کے ساتھ قرب رکھنے کے باوجود اس لیے جہنم کا ایندھن بنیں کہ وہ ان پر ایمان نہ لائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان اور عمل کی عدم موجودگی میں بڑی سے بڑی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ اور اگر ایمان و عمل نصیب ہو تو پھر چاہے ایسی کوئی نسبت بھی میسر نہ ہو، جب بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں نجات کا سامان ہوجاتا ہے اور حُسنِ عمل کے باعث قرب کے بڑے سے بڑے مقام کو پاسکتا ہے۔ اس آیت میں پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں عورتیں ہمارے دو نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں۔ لیکن ان دونوں نے ان دونوں سے خیانت کی۔ خیانت کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں ان پر ایمان نہ لائیں۔ اور درپردہ دشمنانِ دین کے ساتھ ملتی رہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انھوں نے کبھی کوئی اخلاقی خیانت کی تھی۔ کیونکہ پیغمبر کی بیوی کافر ہو کر بھی کسی بےحیائی کا ارتکاب نہیں کرتی۔ حضرت ابن عباس ( رض) فرماتے ہیں کہ کسی نبی کی بیوی کبھی بدکار نہیں رہی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے جباروں کو ایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایا کرتی تھی۔ اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی اپنے گھر میں آنے والے مہمانوں کی اطلاع اپنی قوم کے بداعمال لوگوں کو دے دیا کرتی تھی۔
Top