Ruh-ul-Quran - At-Tahrim : 7
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ١ؕ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اے لوگو جنہوں نے کفر کیا لَا تَعْتَذِرُوا : نہ تم معذرت کرو الْيَوْمَ : آج کے دن اِنَّمَا تُجْزَوْنَ : بیشک تم جزا دئیے جارہے ہو مَا كُنْتُمْ : جو تھے تم تَعْمَلُوْنَ : تم عمل کرتے
اے وہ لوگو جنھوں نے کفر کیا ہے آج عذر پیش نہ کرو، تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جارہا ہے جیسے تم عمل کرتے رہے ہو
یٰٓـاَیُّھَاالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ ط اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْـتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ (التحریم : 7) (اے وہ لوگو جنھوں نے کفر کیا ہے آج عذر پیش نہ کرو، تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جارہا ہے جیسے تم عمل کرتے رہے ہو۔ ) احتساب کے احساس کی تکمیل اوپر کی آیت میں مسلمانوں کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ تم پر ذمہ داری صرف اپنی نہیں بلکہ تمہارے اہل خانہ اور تمام ان لوگوں کی ہے جو تمہارے زیراثر یا تمہاری نگرانی میں ہیں۔ اس لیے تمہیں جواب دہی صرف اپنی طرف سے نہیں بلکہ ان کی طرف سے بھی کرنی ہوگی کہ تم نے ان کی اصلاح کی خاطر اور ان کے اندر دینی شعور پیدا کرنے کے لیے کیا کیا۔ اب پیش نظر آیت کریمہ میں اسی تنبیہ کو مکمل کرتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی میں کو تاہیاں کی ہوں گی اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے گریز کیا ہوگا انھیں جب قیامت کے دن جواب دہی کے عمل سے گزرنا پڑے گا تو وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے حیلے بہانے، مختلف قسم کے عذر اور معذرتیں پیش کرکے اپنے آپ کو بےگناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ تو انھیں صاف یہ فرمایا جائے گا کہ آج معذرتیں یا عذر پیش نہ کرو۔ یہ اعذار پیش کرنے کی جگہ نہیں، بلکہ یہاں تو ایک ہی سکہ چلتا ہے جسے ایمان و عمل کہتے ہیں۔ اس لیے تمہاری ان معذرتوں سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ عدالت سراسر عدل اور انصاف پر قائم ہے۔ یہاں تمہیں ویسا ہی صلہ ملے گا جیسا تم دنیا میں عمل کرچکے ہو۔ یہاں کی سزائیں تمہارے اپنے عمل کا پھل ہے۔ تم نے دنیا میں جو کچھ بویا آج اسی کے کاٹنے کا وقت ہے۔ اس سے خودبخود یہ بات نکلتی ہے کہ مسلمانوں کو دراصل اس بات کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ تمہیں دنیا میں ایسا طرزعمل اختیار نہیں کرنا چاہیے جس کی پاداش میں تم ویسے ہی پکڑے جاؤ جیسے کافر پکڑے جاتے ہیں۔ اور تمہارا انجام کافروں جیسا ہو۔
Top