Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 205
وَ اِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا وَ یُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ
وَاِذَا : اور جب تَوَلّٰى : وہ لوٹے سَعٰى : دوڑتا پھرے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین لِيُفْسِدَ : تاکہ فساد کرے فِيْهَا : اس میں وَيُهْلِكَ : اور تباہ کرے الْحَرْثَ : کھیتی وَ : اور النَّسْلَ : نسل وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : ناپسند کرتا ہے الْفَسَادَ : فساد
اور جب وہ تمہارے پاس سے ہٹتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
یعنی تمہارے سامنے تو ان کی باتیں بڑی دل لبھانے والی ہوتی ہیں لیکن تمہارے پاس سے ہٹنے کے بعد ان کی ساری بھاگ دوڑ فساد فی الارض کی راہ میں ہوتی ہے۔ فساد فی الارض سے مراد، جیسا کہ ہم آیت 11 کے تحت واضح کرچکے ہیں، اللہ کی بندگی اور اطاعت کی اس دعوت کی مزاحمت و مخالفت ہے جو نبی ﷺ دے رہے تھے۔ زمین کے تمام امن و عدل کا انحصار اس بات پر ہے کہ اللہ کے بندے اللہ ہی کی بندگی اور اس کی اطاعت میں داخل ہوجائیں، جیسا کہ آگے ارشاد ہو رہا ہے“ ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً ۠وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ : اللہ کی اطاعت میں سب کے سب داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو ”۔ اس بندگی و اطاعت میں داخل ہوجانے کے بعد شیطان کے لیے در اندازیوں اور فساد کی تمام راہیں بند ہوجاتی ہیں۔ بصورت دیگر تمام نسل انسانی شیطان کی فساد انگیزیوں کی آماجگاہ بنی رہتی ہے اور وہ برابر بغض و عداوت کی آگ بھڑکاتا رہتا ہے جو حرث و نسل دونوں کی تباہی کا موجب ہوتی ہے۔ اہل عرب نے اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں اس صورت حال کا اچھی طرح تجربہ کرلیا تھا اس وجہ سے ان کے لیے یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ تھا کہ تباہی کے اس جہنم سے خلق خدا کو نکالنے کے لیے سلم و اطاعت کی وہ دعوت کتنی بڑی رحمت و برکت تھی جو قرآن نے پیش کی تھی اور پھر انسانیت کے کتنے بڑے دشمن تھے وہ لوگ جو اس دعوت کی مخالفت کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ دنیا اسی جہنم میں پڑی جلتی رہے۔ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ، یعنی بظاہر وہ کتنی ہی چکنی چپڑی باتیں کیوں نہ کریں اور اسلام اور پیغمبر کی دوستی کا دم کیوں بھریں لیکن وہ اللہ کی نظروں میں کوئی مقام کس طرح حاصل کرسکتے ہیں جب وہ اپنے طرز عمل سے اس فساد کو ہوا دے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں تمام انسانیت کی تباہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ دنیا بنائی ہے تو وہ اس کی فلاح و بہبود کو پسند کرتا ہے، اس میں فساد اور مفسدین کو وہ پسند نہیں کرتا۔
Top