Tafheem-ul-Quran - At-Tahrim : 4
اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا١ۚ وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ
اِنْ تَتُوْبَآ : اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف فَقَدْ صَغَتْ : تو تحقیق کج ہوگئے ۔ جھک پڑے قُلُوْبُكُمَا : تم دونوں کے دل وَاِنْ تَظٰهَرَا : اور اگر تم ایک دوسرے کی مدد کرو گی عَلَيْهِ : آپ کے خلاف فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ : وہ مَوْلٰىهُ : اس کامولا ہے وَجِبْرِيْلُ : اور جبرائیل وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور صالح اہل ایمان وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد ظَهِيْرٌ : مددگار
اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں، 7 اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی 8 تو جان رکھو کہ اللہ  اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہلِ ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اورمدد گار ہیں۔ 9
سورة التَّحْرِيْم 7 اصل الفاظ ہیں فقد صغت قلوبکما۔ صغو عربی زبان میں مڑ جانے اور ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے " ہر آئینہ کج شدہ است دل شما "۔ اور شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ ہے " کج ہوگئے ہیں دل تمہارے "۔ عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس سفیان ثوری اور ضحاک رحمہم اللہ نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے زاعت قلوبکما یعنی " تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں "۔ امام رازی اس کی تشریح میں کہتے ہیں عدلت ومالت عن الحق و ھو حق الرسول ﷺ ‘ " حق سے ہٹ گئے ہیں، اور حق سے مراد رسول اللہ ﷺ کا حق ہے " اور علامہ آلوسی کی تشریح یہ ہے مالت عن الواجب من موافقتہ ﷺ ما یحبہ و کراھۃ یارھہ الی مخالفتہ یعنی " تم پر واجب تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو کچھ پسند کریں اسے پسند کرنے میں اور جو کچھ آپ ناپسند کریں اسے ناپسند کرنے میں آپ کی موافقت کرو۔ مگر تمہارے دل اس معاملہ میں آپ کی موافقت سے ہٹ کر آپ کی مخالفت کی طرف مڑ گئے ہیں "۔ سورة التَّحْرِيْم 8 اصل الفاظ میں وان تظاھرا علیہ تظاھر کے معنی ہیں کسی کے مقابلہ میں باہم تعاون کرنا یا کسی کے خلاف ایکا کرنا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے " اگر باہم متفق شوید بر رنجایندرن پیغمبر "۔ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے " اگر تم دونوں چڑھائی کروگی اس پر "۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے " اگر تم دونوں اس طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں "۔ آیت کا خطاب صاف طور پر دو خواتین کی طرف ہے، اور سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے ہیں، کیونکہ اس سورے کی پہلی آیت سے پانچویں آیت تک مسلسل حضور ﷺ کی ازواج کے معاملات ہی زیر بحث آئے ہیں۔ اس حد تک تو بات خود قرآن مجید کے انداز بیان سے ظاہر ہورہی ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دونوں بیویاں کون تھیں، اور وہ معاملہ کیا تھا جس پر یہ عتاب ہوا، اس کی تفصیل ہمیں حدیث میں ملتی ہے۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک مفصل روایت نقل ہوئی ہے جس میں کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ یہ قصہ بیان کیا گیا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں " میں ایک مدت سے اس فکر میں تھا کہ حضرت عمر سے پوچھوں کہ رسول اللہ ﷺ کی بیوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں تھیں جنہوں نے حضور ﷺ کے مقابلہ میں جتھہ بندی کرلی تھی اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ارشاد فرمائی کہ ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما۔ لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر ایک مرتبہ وہ حج کے لیے تشریف لے گئے اور میں ان کے ساتھ گیا۔ واپسی پر راستہ میں ایک جگہ ان کو وضو کراتے ہوئے مجھے موقع مل گیا اور میں نے یہ سوال پوچھ لیا۔ انہوں نے جواب دیا وہ عائشہ اور حفصہ تھیں۔ پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں کو دباکر رکھنے کے عادی تھے جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں حاوی تھیں اور یہی سبق ہماری عورتیں بھی ان سے سیکھنے لگیں۔ ایک روز میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے رہی ہے (اصل الفاظ ہیں فاذا ھی تراجعنی)۔ مجھے یہ بہت ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے۔ اس نے کہا آپ اس بات پر کیوں بگڑتے ہیں کہ میں آپ کو پلٹ کر جواب دوں ؟ خدا کی قسم رسول اللہ کی بیویاں حضور ﷺ کو دو بدو جواب دیتی ہیں (اصل لفظ ہے لیراجعنہ) اور ان میں سے کوئی حضور ﷺ سے دن دن بھر روٹھی رہتی ہے۔ (بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ اس سے دن بھر ناراض رہتے ہیں)۔ یہ سن کر میں گھر سے نکلا اور حفصہ کے ہاں گیا (جو حضرت عمر کی بیٹی اور حضور ﷺ کی بیوی تھیں)۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تو رسول اللہ کو دو بدو جواب دیتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا اور کیا تم میں سے کوئی دن دن بھر حضور ﷺ سے روٹھی رہتی ہے ؟ (بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں)۔ اس نے کہا ہاں۔ میں نے کہا نامراد ہوگئی اور گھاٹے میں پڑگئی وہ عورت جو تم میں سے ایسا کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بےخوف ہوگئی ہے کہ اپنے رسول کے غضب کی وجہ سے اللہ اس پر غضبناک ہوجائے اور وہ ہلاکت میں پڑجائے ؟ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر (یہاں بھی وہی الفاظ ہیں لا تراجعی) اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کر، میرے مال سے تیرا جو جی چاہیے مانگ لیا کر۔ تو اس بات سے کسی دھوکے میں نہ پڑ کہ تیری پڑوسن (مراد ہیں حضرت عائشہ) تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب ہے۔ اس کے بعد میں وہاں سے نکل کر ام سلمہ کے پاس پہنچا جو میری رشتہ دار تھیں، اور میں نے اس معاملہ میں ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا، ابن خطاب تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ہر معاملہ میں تم نے دخل دیا یہاں تک کہ اب رسول اللہ ﷺ اور ان کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینے چلے ہو۔ ان کی اس بات نے میری ہمت توڑ دی۔ پھر ایسا ہوا کہ میرا ایک انصاری پڑوسی رات کے وقت میرے گھر آیا اور اس نے مجھے پکارا۔ ہم دونوں باری باری رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور جو بات کسی کی باری کے دن ہوتی تھی وہ دوسرے کو بتادیا کرتا تھا۔ زمانہ وہ تھا جب ہمیں غسان کے حملے کا خطرہ لگا ہوا تھا۔ اس کے پکارنے پر جب میں نکلا تو اس نے کہا ایک بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے میں نے کہا غسانی چڑھ آئے ہیں ؟ اس نے کہا نہیں، اس سے بھی زیادہ بڑا معاملہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا برباد ہوئی نامراد ہوگئی حفصہ، (بخاری کے الفاظ ہیں رغم انف حفصہ و عائشۃ) ، مجھے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ یہ ہونے والی بات ہے "۔ اس کے آگے کا قصہ ہم نے چھوڑ دیا ہے جس میں حضرت عمر نے بتایا ہے کہ دوسرے روز صبح حضور ﷺ کی خدمت میں جا کر انہوں نے کس طرح حضور ﷺ کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ اس قصے کو ہم نے مسند احمد اور بخاری کی روایات جمع کر کے مرتب کیا ہے۔ اس میں حضرت عمر نے مراجعت کا لفظ جو استعمال کیا ہے اسے لغوی معنی میں نہیں لیا جاسکتا بلکہ سیاق خود بتارہا ہے کہ یہ لفظ دو بدو جواب دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور حضرت عمر کا اپنی بیٹی سے یہ کہنا کہ لا ترجعی رسول اللہ صاف طور پر اس معنی میں ہے کہ حضور ﷺ سے زبان درازی نہ کیا کر۔ اس ترجمے کو بعض لوگ غلط کہتے ہیں اور انکا اعتراض یہ ہے کہ مراجعت کا ترجمہ پلٹ کر جواب دینا، یا دو بدو جواب دینا تو صحیح ہے، مگر اس کا ترجمہ " زبان درازی " صحیح نہیں ہے۔ لیکن یہ معترض حضرات اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر کم مرتبے کا آدمی اپنے سے بڑے مرتبے کے آدمی کو پلٹ کر جواب دے، یا دو بدو جواب دے تو اسی کا نام زبان درازی ہے۔ مثلا باپ بیٹے کو کسی بات ڈانٹے یا اس کے کسی فعل پر ناراضی کا اظہار کرے اور بیٹا اس پر ادب سے خاموش رہنے یا معذرت کرنے کے بجائے پلٹ کر جواب دینے پر اتر آئے، تو اس کو زبان درازی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پھر جب یہ معاملہ باپ اور بیٹے کے درمیان نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور امت کے کسی فرد کے درمیان ہو تو صرف ایک غبی آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا نام زبان درازی نہیں ہے۔ بعض دوسرے لوگ ہمارے اس ترجمے کو سوء ادب قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ سوء ادب اگر ہوسکتا تھا تو اس صورت میں جبکہ ہم اپنی طرف سے اس طرح کے الفاظ حضرت حفصہ کے متعلق استعمال کرنے کی جسارت کرتے۔ ہم نے تو حضرت عمر کے الفاظ کا صحیح مفہوم ادا کیا ہے، اور یہ الفاظ انہوں نے اپنی بیٹی کو اس کے قصور پر سرزنش کرتے ہوئے استعمال کیے ہیں۔ اسے سوء ادب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یا تو باپ اپنی بیٹی کو ڈانٹتے ہوئے بھی ادب سے بات کرے ٗ یا پھر ڈانٹ کا ترجمہ کرنے والا اپنی طرف سے اس کو با ادب کلام بنا دے۔ اس مقام پر سوچنے کے قابل بات دراصل یہ ہے کہ اگر معاملہ صرف ایسا ہی ہلکا اور معمولی سا تھا کہ حضور ﷺ کبھی اپنی بیویوں کو کچھ کہتے تھے اور وہ پلٹ کر جواب دے دیا کرتی تھیں، تو آخر اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خود ان ازواج مطہرات کو شدت کے ساتھ تنبیہ فرمائی ؟ اور حضرت عمر نے اس معاملہ کو کیوں اتنا سخت سمجھا کہ پہلے بیٹی کو ڈانٹا اور پھر ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے گھر جا کر ان کو اللہ کے غضب سے ڈرایا ؟ اور سب سے زیادہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کیا آپ کے خیال میں ایسے ہی زودرنج تھے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر بیویوں سے ناراض ہوجاتے تھے اور کیا معاذ اللہ آپ کے نزدیک حضور ﷺ کی تنگ مزاجی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایسی باتوں پر ناراض ہو کر آپ ایک دفعہ سب بیویوں سے مقاطعہ کر کے اپنے حجرے میں عزلت گزیں ہوگئے تھے ؟ ان سوالات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے لامحالہ ان آیات کی تفسیر میں دو ہی راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا۔ یا تو اسے ازواج مطہرات کے احترام کی اتنی فکر لاحق ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر حرف آجانے کی پروا نہ کرے۔ یا پھر سیدھی طرح یہ مان لے کہ اس زمانہ میں ان ازواج مطہرات کا رویہ فی الواقع ایسا ہی قابل اعتراض ہوگیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ اس پر ناراض ہوجانے میں حق بجانب تھے اور حضور ﷺ سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات میں حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو اس رویہ پر شدت سے تنبیہ فرمائے۔ سورة التَّحْرِيْم 9 مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے تم اپنا ہی نقصان کرو گی، کیونکہ جس کا مولی اللہ ہے اور جبریل اور ملائکہ اور تمام صالح اہل ایمان جس کے ساتھ ہیں اس کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
Top