Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 59
وَ تِلْكَ الْقُرٰۤى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَ جَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا۠   ۧ
وَتِلْكَ : یہ (ان) الْقُرٰٓى : بستیاں اَهْلَكْنٰهُمْ : ہم نے انہیں ہلاک کردیا لَمَّا : جب ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے مقرر کیا لِمَهْلِكِهِمْ : ان کی تباہی کے لیے مَّوْعِدًا : ایک مقررہ وقت
اور یہ بستیاں ہیں جب ان کے باشندوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے ایک [ میعاد ٹھہرا دی تھی
کتنی ہی بستیاں تھیں جن کو قبل ازیں ختم کیا جا چکا اور سب کے لئے وقت مقرر تھا : 63۔ ان بستیوں کا تفصیلی ذکر پیچھے سورة ہود میں گزر چکا ہے جن کا ذکر ثمود اور عاد ‘ مدین اور قوم لوط کے ناموں سے آپ پڑھ چکے ہیں جنہیں قریش کے لوگ بھی اپنے تجارتی سفروں میں دیکھتے تھے کیونکہ ان کے راستہ کے قریب ہی یہ واقع تھیں اور ان کے ذکر کی ضرورت اس لئے تھی کہ اوپر انکی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور اب شہادت کے طور پر ان کی توجہ ان بستیوں کی طرف مبذول کرائی گئی تاکہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں اور یہ بات واضح کردی کہ ان سب بستیوں کی ہلاکت کا بھی ایک وقت مقرر تھا اور جب تک وہ وقت نہ آیا ان کو ہلاک نہ کیا گیا اور جب وقت آیا تو ان کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا اور کوئی نہ ہوا جو اس کی مزاحمت کرتا اور ان کو ہلاک ہونے سے بچا لیتا ، اسی طرح قریش مکہ کو یہ بات بھی سمجھا دی کہ آج اگر تم کو مہلت دی جا رہی ہے تو یہ بھی عین اس کے قانون کے مطابق ہے اگر تمہارے یہی چلن رہے تو یقینا تمہارے ساتھ بھی وہی ہوگا جو پہلی دعوتوں کے ساتھ ہوچکا لہذا بہتر ہے کہ تم باز آجاؤ اور آج بھی یہ حکم بدستور اسی طرح قائم ہے اور وقتا فوقتا عذاب دیئے جاتے ہیں تاکہ لوگ باز آئیں لیکن لوگ ہیں کہ گزشتہ اقوام کی طرح بدستور کسی بڑے عذاب کا انتظار کر رہے ہیں جس کا آنا یقینی ہے اور اس کے وقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
Top