Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور بعض آدمی ایسے ہیں کہ دنیوی زندگی کے بارے میں ان کی باتیں تمہیں بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنے ضمیر کی پاکیزگی پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں اور خصومت میں بڑے ہی سخت ہوتے ہیں
دوہری پوزیشن کے لوگوں کا حال بھی عجیب ہوتا ہے : 354: دوہری پوزشن کے لوگ کون ہیں ؟ وہی جن کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ اور۔ شریعت اسلام نے کچھ اعمال ہر مسلم پر لازم کردیئے ہیں تاکہ ان کی پابندی سے اخلاق فاضلہ اور جذبات صادقہ پیدا ہوں۔ لیکن جو لوگ ان اعمال شرعیہ کے مقاصد کو فراموش کردیتے ہیں ان کی محنت رائیگاں جاتی ہے گذشتہ آیات میں بھی دو قسم کے لوگوں کا حال بیان کیا گیا تھا اور اب بھی ان ہی کے خصائص وامتیازات پر اور روشنی ڈالی جارہی ہے تاکہ اہل و نااہل میں تمیز رہ جائے اور وہ حسب ذیل ہیں : وہ لوگ ایسے ہیں کہ دنیاوی امور میں نہایت ہی دور بینی اور حزم و احتیاط کا اظہار کرتے ہیں۔ مصلحت اندیشی اور عاقبت بینی کے پیکر مجسم نظر آتے ہیں۔ جب قومی ، جوش ملی اور ولولہ دین ان کے فقرے فقرے سے ٹپکتا ہے ۔ خدا کا دین اسلام اور سرفروشی ملت ان کا دعویٰ ہوتا ہے۔ عام مجمع میں یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر اپنے مذہبی جوش کا اعلان کرتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ان کے اعمال حیات ہی ان کی پردہ دری کردیتے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ : چوں بخلوت می روند آں کا ردیگری کنند پھر جب ان کی غداری اور ملت فروشی کا اظہار ہوتا ہے اور لوگ ان سے احتساب کرتے ہیں تو اپنی غلط کاری تسلیم کرنے کے بجائے جھگڑے پر اتر آتے ہیں اور ان کا جھگڑے پر اترنا معمولی نہیں ہوتا اس کو کہتے ہیں کہ چور بھی اور چتر بھی ان کی اسی حالت کو قرآن کریم نے ” الدالخصام “ فرمایا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ ان ہی خصوصیات کا حامل ایک آدمی جس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا بڑا خوش منظر وخوش تقریر اخنس بن شریق نامی تھا جب رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آتا خوب لمبے چوڑے دعوے اپنے ایمان و اسلام کے بیان کرتا۔ بات بات پر اللہ کو گواہ ٹھہراتا لیکن جب مجلس سے اٹھ کر چلا جاتا تو طرح طرح کی عملی شرارتوں میں لگ جاتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس وقت اس طرح کا صرف یہ ایک ہی آدمی تھا یا بعد زمانہ میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانے میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ہاں ! اس آیت سے البتہ یہ بات ضرور نکلتی ہے کہ منافق کے نفاق کا علم آیت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ورنہ آپ ﷺ تو اس کی ان باتوں سے خوش ہو رہے تھے۔ اگر آپ ﷺ اسے منافق پہچان گئے ہوتے تو ظاہر ہے کہ اسکی گفتگو سے لطف اندور ہی کیوں ہوتے ؟
Top