Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 203
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۚ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۙ لِمَنِ اتَّقٰى١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
وَاذْكُرُوا : اور تم یاد رکھو اللّٰهَ : اللہ فِيْٓ : میں اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ : دن۔ گنتی کے فَمَنْ : پس جو تَعَجَّلَ : جلد چلا گیا فِيْ : میں يَوْمَيْنِ : دو دن فَلَآ : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر وَمَنْ : اور جس تَاَخَّرَ : تاخیر کی فَلَآ : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر لِمَنِ : لیے۔ جو اتَّقٰى : ڈرتا رہا وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جاؤگے
یاد رکھو کہ حج کے دن گنتی کے دن ہیں تم اللہ کی یاد میں مشغول رہو ، جو شخص واپسی میں جلدی کرے اور دو ہی دن بعد روانہ ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں اور جو کوئی تاخیر کرے تو وہ تاخیر بھی کرسکتا ہے لیکن یہ رخصت اس کیلئے ہے جس میں تقویٰ و پرہیزگاری بھی ہو ، پس ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولو کہ تم سب کو اسی کے حضور جمع ہونا ہے
حج کے دنوں کی مشغولیت صرف اللہ کی یاد ہے : 353: فریضہ حج کے قریباً تمام ضروری احکام آگئے اب ایک بات کو بیان کرنا باقی ہے کہ نویں ذی الحجہ میدان عرفات سے بعد از مغرب یعنی سورج غروب ہونے کے بعد نکلے تھے منیٰ میں واپس آکر جمرہ عقبیٰ پر رمی کر کے قربانی کی گئی تھی قربانی ہو چکنے کے بعد حجامت اور غسل کر کے طواف افاضہ کے لئے بیت اللہ میں حاضری دی تھی طواف و سعی کے بعد دو بارہ میدان منیٰ میں لوٹ گئے تھے کوئی دسویں شام تک فارغ ہوگیا کوئی گیارہویں روز واپس منیٰ پہنچ پایا۔ اب تم کو منیٰ میں قیام کرنا ہے 11 ، 12 ، 13 ذی الحج کو ان دنوں کو ایام تشریق کہا جاتا ہے ان دنوں کا مخصوص ذکر تو تینوں جمرات پر کنکریاں پھینکنا ہے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کا بلند کرنا ہے یعنی اللہ اکبر کہنا ہے۔ لیکن ان دنوں میں یعنی گیارہ اور بارہ تاریخ کو کنکریاں بعد از دوپہر پھینکی جانی چاہئیں ۔ اگر کوئی شخص 12/ذی الحجہ ہی کو واپس آنا چاہئے تو آسکتا ہے اور اگر ہاں تیرہویں تاریخ کی صبح ہوگئی یعنی منیٰ میں تو پھر تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا ہوں گی اور اس روز تیرہویں کو بعد دوپہر کی شرط نہ رہی اب سورج طلوع ہونے کے بعد کسی وقت بھی کنکریاں پھینک سکتا ہے۔ منیٰ میں دو دن کا قیام ہو یا تین دن کا اس میں کوئی بات گناہ کی نہیں البتہ ان دنوں میں نمازیں جمع کر کے پڑھنی ہوں گی یعنی ظہر و عصر کو ملا کر اور مغرب و عشاء کو ملا کر۔ ان دنوں میں اللہ کا ذکر ، قرآن کریم کی تلاوت ، درس ووعظ میں مصروف رہنا ہی بہتر ہے۔ ایک بات مزید یا رکھو اور اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ جس طرح آج اللہ کے حکم سے اس میدان اپنا اپنا زاد راہ لے کر آگئے ہو اور آئندہ بھی اگر امیر وقت ، امیر المؤمنین یا صدر مملکت یعنی مملکت اسلامی کے سربراہ کی اجازت یا معرفت جہاد فی سبیل کیلئے میدان جنگ میں آنے کی ضرورت پیش آئے تو لازماً آنا پڑے گا تاکہ اللہ کا قانون بلندو برتر ہو اور دنیا میں فساد نہ ہونے پائے اس وقت تمہارا فرض ہوگا یعنی جب تم کو حکم ملے گا تو اپنا اپنا سامان جنگ لے کر یا حکومت کی طرف سے جو فراہم کردہ ہوگا اس کو لے کر میدان حرب میں حاضر ہونا ضروری ہوگا۔ ارکانِ اسلامی کا ایک اہم رکن حج ہے ذوالحجہ جو اسلامی مہینوں سے سال کا آخری مہینہ ہے اس کی مقررہ تاریخوں میں کعبے کی زیارت اس کے مخصوص طریقوں کے ساتھ جو کی جاتی ہے اس کا نام ” حج “ ہے اور ان تاریخوں کے علاوہ کسی زمانے میں بھی جو زیارت کی جائے اس کو عمرہ کہا جاتا ہے۔ عمر میں ایک بار حج کرنا فرض ہے جب کہ سفر خرچ موجود ہو اور ایک بار عمرہ کرنا سنت ہے۔ ایک ہی سفر میں حج وعمرہ دونوں بھی ادا کئے جاسکتے ہیں۔ حج وعمرہ کے مبارک سفر میں اپنی حلال و طیب کمائی خرچ کریں اور ناپاک و حرام کمائی سے ہمیشہ پر ہیز کریں۔ روانگی سے قبل ہی بارگاہ ایزدی کی طرف جھک جائیں اور پہلے سے زیادہ عبادات میں حصہ لیں۔ نماز نفل بھی باقاعدگی کے ساتھ ادا کریں۔ صدقہ و خیرات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اگر زندگی میں کسی سے زیادتی کی ہے تو اس سے معافی طلب کرلیں ۔ کسی کا کوئی قرض وغیرہ دینا ہو تو اس کو ادا کرلیں۔ اگر آپ اہل خانہ کے کفیل ہیں تو ان کے اخراجات کا بندوبست بھی ضرور کریں اور اپنے مصارف سفر بھی اپنی ہی کمائی سے ادا کریں۔ کیونکہ حج ہی تب ہوتا ہے جب زاد راہ موجود ہو چناچہ ارشاد الٰہی بھی ہے کہ : حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا 1ؕ . اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ سے حج بیت اللہ تب ہی فرض ہے جیسا کہ اس کے پاس زادہ راہ بھی موجود ہو۔ حج عبادات اسلامی میں سے ایک عبادت ہے ۔ اس لئے عبادت اسلامی کو بھی اس طریقہ کے مطابق ادا کرنا چاہئے جو طریقہ عبادت حج کا رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے۔ یاد رہے کہ جو عمل سنت رسول ﷺ کے مطابق نہ ہو وہ مقبول نہیں ہوتا لہٰذا اس میں پوری احتیاط کریں کہ حج کے مناسک اسی طرح ادا کئے جائیں جس طرح نبی رحمت ﷺ نے بتائے ہیں ۔ چناچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ 0033 (محمد 47 : 33) ” اے ایمان والو ! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری بجالاتے رہو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔ “ بات واضح ہوگئی کہ جو عمل رسول اللہ ﷺ کی اطاعت فرمانبرداری اور آپ ﷺ کے طریقہ کے مطابق نہ ہو وہ گویا ضائع ہوگیا۔ احادیث پاک میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے کہ جو عمل بھی کرو اور جو دردو و وظیفہ بھی زبان سے ادا کرو وہ وہی ہونا چاہئے جو رسول اللہ ﷺ نے بتایا اور سمجھا یا ہو۔ مزید یاد رکھیں کہ شرک ایک ایسی چیز ہے جس سے تمام نیک اعمال بھی ضبط ہوجاتے ہیں اور کسی نیک سے نیک کام کا بھی کوئی اجر وثواب باقی نہیں رہتا۔ جب یہ اعمال بجالانے والا شرک کرتا ہے ۔ لہٰذا اس بیماری سے ضرور بچنے کی کوشش کریں چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ اگر نیک لوگ بھی شرک کے مرتکب ہوں تو ان کے اعمال ضبط ہوجاتے ہیں۔ وَ لَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ 0088 (الانعام 6 : 88) ” اگر یہ سارے نیک لوگ بھی شرک کرتے تو ان کا سارا کیا دھراکارت جاتا۔ “ یعنی کوئی نیک عمل بھی باقی نہ رہتا۔ حج بیت اللہ کے لئے جاتے وقت بالکل سادہ طریقہ کے ساتھ عازم سفر ہونا چاہئے کسی طرح کا شور و غوغا اور دعوتوں کا لمبا چوڑا پروگرام نہیں کرنا چاہئے اور اپنے مالک حقیقی کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت ہونا چاہئے۔ روانگی کے وقت وضو کر کے بڑے خلوص کے ساتھ اپنے گھر میں دو رکعت نوافل پڑھنے چاہئیں پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورة اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔ سلام کے بعد آیت الکرسی اور سورة ” ایلاف “ ایک ایک بار پڑھ لیں اور یہ دعا بھی اگر یاد ہو تو پڑھیں۔ یار رہے کہ یہ دعائیں یاد نہ ہوں تو ان کے مضمون پر باربار نظر کر کے ذہن نشین کرلیں اور اپنے اپنے وقت پر اپنی ہی زبان میں اس مضمون کو پیش نظر رکھ کر اپنی حاجت اللہ تعالیٰ سے طلب کریں۔ اللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِی سَفَرِنَا ہَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَی وَمِنْ الْعَمَلِ مَا تَرْضَی اللّٰهُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ اللّٰھُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَةُ فِی الْأَهْلِ اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُیءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَهْلِ وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ وَزَادَ فِیہِنَّ آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ۔ (صحیح مسلم : 782) ” اے اللہ ! ہم اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ کا اور ان اعمال کا سوال کرتے ہیں کہ جن سے تو راضی ہوتا ہے اے اللہ ! ہمارے اس سفر کو ہم پر آسان فرما اور اس کی مسافت کو تہہ فرما دے ، اے اللہ ! تو ہی اس سفر میں ہمارا رفیق ہے اور گھر والوں کا نگہبان ہے اے اللہ ! میں سفر کی تکلیفوں اور رنج وغم سے اور اپنے مال اور گھر والوں کے برے انجام سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور جب آپ ﷺ سفر سے واپس آتے تو یہی دعا پڑھتے اور ان میں ان کلمات کا اضافہ فرماتے ہم واپس آنے والے ہیں توبہ کرنے والے ہیں عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں “۔ گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے اہل و عیال کے لئے خلوص نیت کے ساتھ یہ دعا پڑھے۔ اِسْتَوْدِ عَکُمُ اللہُ الَّذِیْ لَا یَضَیِّعُ وَداَ ئِعَہٗ لَہٗ (حصن حین) ” اے گھر والو ! میں تمہیں اپنے مالک حقیقی کے سپرد کرتا ہوں جو اپنی امانتوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ “ جب گھر کے دروازہ سے باہر قدم رکھے تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کرے : بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ علَیَ اللہِ لَاحَوْلُ وَ لَا قُوَّۃُ إلَّا بِاللّٰہِ (مشکوٰۃ المصابیج) ” میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اللہ ہی کے سہارے چلا ہوں۔ اللہ کی مدد کے بغیر نہ میں گناہ سے بچ سکتا ہوں اور نہ ہی نیکی ادا کرسکتا ہوں۔ حج وعمرہ پر جانے والے کے لئے اس کو رخصت کرنے والے جب وہ ان سے رخصت ہو کر بیٹھ چکے تو یہ دعا کریں : اللّٰهُمَّ اَطْوِلَہُ البُعْدَ وَھُوِّنُ عَلَیْہِ السَّفَرَ (مشکوٰۃ المصابیج) ” اے اللہ ! اس عازم حج کے لئے مسافت کی دوری کم فرما دے اور اس اللہ کے بندے پر سفر آسان کردے۔ “ سوار ہوتے وقت جب بھی وہ کسی سواری پر سوار ہونے لگے خواہ وہ تانگہ ہو یا موٹر۔ بس ہو یا ریل۔ ہوائی جہاز ہو یا بحری جہاز تو یہ دعا پڑھ لیا کرے : اللہُ اکَبَّرَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَهُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (صحیح مسلم : 782) ” اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے مسخر کردیا ورنہ ہم اس کو اپنے کنٹرول میں نہیں لاسکتے تھے اور ہم بالاخر اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ “ اب راستہ میں جہاں کہیں قیام کرے ۔ ٹھہر جائے تو یہ دعا پڑھ لیا کرے : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (صحیح مسلم : 2377) ” پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ اس کی مخلوق کے شر ہے۔ “ حج وعمرہ کے لئے احرام باندھنا ضروری ہے مگر جب وہ میقات پر پہنچے ۔ یا میقات کے محاذ پر یعنی میقات کے برابر کسی جگہ پر ہم اہل ہندو پاک کے لئے جو میقات کا مقام مقرر ہے اس کا نام ” یلملم “ ہے۔ بحری جہاز سے جانے والے جب اس میقات کے قریب پہنچتے ہیں تو ان کو سائرن بجا کر اطلاع دی جاتی ہے لہٰذا وہیں نہا دھو کر احرام باندھ لیاجاتا ہے۔ لیکن جو لوگ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں چونکہ وہ میقات یا اس کے محاذ سے فوراً گزر جاتے ہیں اور انسانی دسترس سے یہ بات باہر ہے کہ وہ میقات یا اس کے محاذ کا خیال رکھ سکے لہٰذا جہاں سے وہ سوار ہوگا ” ایئرپورٹ “ پر انتظامات کئے گئے ہوتے ہیں وہاں غسل ووضو کر کے احرام باندھے۔ مردوں کے احرام میں صرف دو چادریں ہوتی ہیں جو سلی ہوئی بھی نہ ہوں تو بہتر ہے اور سفید رنگ ہوں لیکن رنگ دار کی بھی ممانعت نہیں ہے۔ ایک کمر میں تہ بند کی طرح باندھ لے اور دوسری سارے بدن پر اوڑھ لے۔ سرننگا رہنے دے۔ عورت قمیض شلوار اور ایک رومال یا چھوٹا دوپٹہ سر پر باندھ لے لیکن منہ پر نقاب نہ ڈالے اور نظریں سب لوگ نیچی رکھیں مرد ہوں یا عورتیں۔ محرم کے لئے یہ پابندیاں ہیں خوب اچھی یاد کرلو۔ مرد سلے کپڑے نہ پہنیں جو عام لباس میں پہنے جاتے ہیں اور احرام باندھ لینے کے بعد خوشبو استعمال نہ کریں جب تک محرم ہیں۔ بالوں کو کنگھی وغیرہ نہ کریں۔ ناخن نہ کاٹیں۔ حجامت نہ بنائیں اور جسم کے کسی حصہ سے بھی بال نہ کاٹیں اور نہ مونڈیں۔ عورت مرد یعنی میاں بیوی بوس و کنار نہ ہوں۔ حرم میں پہنچ کر گھاس اور سبزی وغیرہ نہ کاٹیں ۔ شکار نہ کھیلیں اور نہ ہی شکار میں کسی کی مدد کریں۔ ازداوجی تعلق قائم نہ کریں ۔ یہ وہ پابندیاں ہیں کہ ان میں سے کوئی پابندی نہ کی تو ایک قربانی کا جانور بطور فدیہ ادا کرنا ضروری ہوگا۔ محرم حالت احرام میں اگر غسل کرنا چاہئے تو کرسکتا ہے سرمہ لگا سکتا ہے ، شیشہ دیکھ سکتا ہے اور سر اور بدن کو آہستہ آہستہ کھجلا سکتا ہے اس طرح کہ بال نہ ٹوٹنے پائیں لیکن احتیاط بہتر ہے ۔ موذی جانور جیسے دیوانہ کتا ، چوہا ، سانپ ، پچھو ، چیل ، کوا اگر تنگ کریں تو مارے جاسکتے ہیں۔ وہ جانور جو شکار نہ کیا گیا ہو بکری ، مرغابی وغیرہ ذبح کر کے کھا سکتا ہے۔ اگر غیر محرم نے شکار کیا ہو جبکہ محرم نے کسی طرح کی مدد نہ کی ہو تو تب بھی وہ کھا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ حج کی تین اقسام ہیں یعنی تین طریقوں سے حج ادا کیا جاتا ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور جس قسم کا حج کرنا چاہیں اس طرح کی پابندیوں کا خیال رکھیں۔ وہ تین اقسام یہ ہیں : 1 ۔ حج افراد 2 ۔ حج قرآن 3 ۔ حج تمتع۔ 1: افراد یہ ہے کہ جب احرام باندھیں گے خواہ میقات یا محاذ میقات سے جیسے بحری جہاز سے یا خشکی کے راستے سفر کرنے والے اور خواہ اپنے ایئر پورٹ پر احرام باندھنے والے جو ہوائی جہاز کے راستے سے عازم حج ہیں وہ حج افراد کی نیت سے احرام باندھیں اور مکہ پہنچ کر باب ابی شیبہ سے بیت اللہ میں داخل ہو کر بیت اللہ کا طواف کریں اور صفا ومروہ کی سعی کریں لیکن اس کے بعد احرام برابر باندھ رکھیں 9/ذی الحجہ عرفات میں گزار کر جب 10/ذی الحجہ کو واپس منیٰ آئیں تو قربانی کر کے احرام کھولیں۔ اتنے وقت تک برابر احرام باندھے رہیں خواہ اس میں کتنے دن لگ گئے اور احرام کی ساری پابندیوں کا بدستور خیال رکھیں۔ 2: حج قران۔ قران کی صورت یہ ہے کہ میقات محاذ میقات یا ایئرپورٹ پر پہنچ کر حج وعمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھیں اور بیت اللہ پہنچ کر عمرہ ادا کریں یعنی طواف بیت اللہ اور سعی صفاو مروہ کر کے دس ذی الحجہ تک محرم رہیں۔ 9/ذی الحجہ کو عرفات اور دس کو باقی لوگوں کے ساتھ احرام کھول دیں۔ 3: حج تمتع ۔ یہ اس طرح کہ میقات یا محاذ میقات پر پہنچ کر یا ایئرپورٹ پر فقط عمرہ کی نیت سے احرام باندھیں اور حج کی نیت نہ کریں اور بیت اللہ حاضر ہو کر طواف وسعی کریں اور احرام کھولیں ۔ حجامت بنوائیں ، بال کترائیں ، خوشبو استعمال کریں اور حلال ہوجائیں یعنی احرام کھول دیں اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو غسل کر کے حج کی نیت سے احرام باندھ لیں اور حج ادا کریں۔ حج کی ان تینوں اقسام میں سے حج تمتع آسان ہے اور دور دراز سے سفر کر کے جانے والوں کو یہی زیادہ بہتر بھی ہے۔ جب احرام باندھ لیں خواہ وہ اپنے میقات یا محاذ میقات سے اور خواہ اپنے ایئرپورٹ پر احرام باندھ لینے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرنا ہے اور نماز کے سلام پھیرنے کے بعد تلبیہ پکار پکار کر کہنا سنت ہے اور یہ حج مبرو رکی نشانی ہے لہٰذا تلبیہ پکار کر کہنا سنت ہے اور تلبیہ کے معنیٰ لبیک کہنا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کہے : لَبَّیْکَ اللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ (صحیح مسلم) ” میں حاضر ہو۔ اے اللہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ بیشک اچھی تعریف تیرے ہی لئے ہے اور سب نعمتیں تیری ہی عطا کردہ ہیں اور ملک بھی تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ “ محرم جب تک حالت احرام میں ہے وہ تلبیہ پکارتا رہے گا لگاتار نہیں۔ بلکہ وقفہ وقفہ سے کبھی کبھی۔ ایک ، دو ، تین بار کہہ لیا۔ جب مکہ مکرمہ پہنچ جائیں توسنت یہ ہے کہ باب بنی شیبہ سے بیت اللہ میں داخل ہوں لیکن اگر دوسرے دروازے سے بھی داخل ہوگئے تو حج وعمرہ کا کوئی نقصان نہیں ہوا اور کعبہ کو دیکھیں تو یہ دعا پڑ لیں۔ اللّٰهُمَّ زِدْ ھٖذَا الْبَیْتَ تَشْرَیْفًا وَّتَعْظِیْمًا وَّ تَکْرِیْمًا (نیل الاوطار) ” اے اللہ ! اس گھر کی عزت و بزرگی میں اضافہ فرمادے۔ “ جب بیت اللہ میں داخل ہونے لگے تو وہی دعا پڑھے جو عام طور پر مسجد میں داخل ہوتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ اللّٰهُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ (مسلم : 1646) ” اے اللہ ! میرے لئے رحمت کے دروازے کھول دے۔ “ مسجدالحرام میں داخل ہو کر سب سے پہلے طواف کرنا شروع کرے اس طواف کو طواف القدوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسی کے پہلے چار چکروں میں رمل کرے یعنی کندھے ہلا کر قدم چھوٹے اور تیز تیز اور باقاعدگی کے ساتھ چلیں طواف اس طرح کریں کہ حجر اسود کے قریب جا کر اس کو بوسہ دیں اگر ممکن نہ ہو تو استیلام کریں۔ یعنی ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہیں اور یہاں سے اپنا چکر شروع کریں اور اسی جگہ پر پہنچ کر ایک چکر آپ کا مکمل ہوجائے گا۔ اس طرح سات چکر لگانا ایک طواف کہلاتا ہے ۔ سو چار چکر رمل کرنے کے بعد پھر تین چکر دلکی چال چلنا ہے لیکن یہ مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ۔ ہر چکر پر حجر اسود کو بوسہ دینا ہے تاکہ ایک چکر کی علامت مکمل ہوجائے اور اگر بھیڑ کی وجہ سے بو سہ نہ دے سکیں تو استیلام کرلیں جس کا طریقہ پیچھے بتایا گیا ہے۔ پورے طواف کے دوران یعنی سات چکروں میں درج ذیل دعا پڑھتے رہیں اور جب بھی طواف کا موقع ملے اور جب بھی طواف بیت اللہ کریں تو یہ دعا پڑھتے رہیں۔ بیشک آہستہ آہستہ پڑھیں لیکن چاہیں تو زبان سے بھی بآواز بلند بول کر پڑھ سکتے ہیں ۔ دعا یہ ہے : سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ (ابن ماجہ : 1117) ” پاک ہے اللہ ! اور سب اچھی تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اللہ بہت ہی بڑا ہے اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ ہم گناہوں سے بچ سکتے ہیں اور نہ ہی نیکی کرسکتے ہیں۔ “ بیت اللہ کی عمارت کے جنوب مغربی کونے کو رکن یمانی کہا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے طواف کے دوران اس کو بھی چھوا ہے آپ کو اگر بیت اللہ کے قریب جگہ مل جائے تو طواف کے دوران ہر چکر میں اس کونے کے پاس سے گزرتے ہوئے چھو سکتے ہیں لیکن نہ تو اسکو چوما جاسکتا ہے اور نہ ہی اسکا استیلام ہے۔ استیلام یا بوسہ علامت ہے ایک چکر پورا کرنے کی اور وہ یعنی چکر حجر اسود یا اس کے محاذ پر ہی پورا ہوتا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ اسکو بوسہ نہ دیا جائے ہاں ! چھونے کی اجازت ہے ۔ اسکو چھوتے وقت یا اسکے قریب سے گزرتے وقت یہ دعا بھی پڑھ لیا کریں : اللّٰهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (ایضًا) ” اے اللہ ! میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں اور دنیا و آخرت میں عافیت کا طلب گار ہوں اے ہمارے رب ! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرمادے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ “ سات چکر پورے کرنے کے بعد ایک طواف مکمل ہوگیا ۔ جب طواف پورا ہوگیا تو اب مقام ابراہیم کے پاس جائیں جو بیت اللہ کے دروازے کے چار پانچ قدم پیچھے ہٹ کر ایک طرف بالکل حطیم کی دیوار سے بھی پیچھے ہٹ کر ہے ۔ اس جگہ یا اس کے بالمقابل مزید پیچھے جہاں جگہ مل سکے دو رکعت نماز ادا کریں ۔ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد ” سورة الکافرون “ اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد ” سورة اخلاص “ پڑھیں اور سلام کے بعد پورے خلوص کے ساتھ اپنی حاجت و ضروریات اللہ سے طلب کریں۔ دعا کا یہ موقع آپ کو روز روز میسر نہیں ہوگا یہ مقام ابراہیم ہے جو دنیا میں صرف ایک جگہ پر یعنی بیت اللہ میں ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے کہ : وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى1ؕ ” مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ اور وہاں نماز ادا کرو۔ “ بعد از دعا یہاں سے اٹھیں اور سیدھے زمزم کے کنوئیں کے پاس سے گزرتے ہوئے مقام صفا پہاڑی کی طرف چلیں۔ اب پہاڑی کی پوری شکل تو وہاں موجود نہیں البتہ نشانات اب بھی موجود ہیں اور جب بالکل قریب جائیں تو یہ قرآن کریم کی آیت کا ٹکڑا تلاوت کریں۔ اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ 1ۚ ” بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں۔ “ اس پہاڑی کے نشان تک یعنی اس کے اوپر تک چلے جائیں اور اللہ اکبر کہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہوچکا یہ پہاڑی صفا کے نام سے معروف ہے اس کے اوپر کھڑے ہو کر قبلہ رخ ہوجائیں یعنی بیت اللہ کی عمارت کی طرف رخ کرلیں اور اس پر کھڑے کھڑے یہ دعا پڑھیں۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ (صحیح مسلم : 456) ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ ملک اسی کا ہے اور سب تعریف اسی کے لئے ہے وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ ہرچیز پر قادر ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی پوری پوری مدد کی اور تنہا اس نے سارے جتھوں کو شکست دی۔ “ صفا پہاڑی کے اوپر یعنی اس کے نشان پر یہ دعا پڑھیں آرام سے پڑھ کر صفا سے اتریں اور مروہ کی طرف چلنا شروع کریں صفاو مروہ دونوں پہاڑیاں تھیں لیکن اب صرف نشان موجود ہیں اور دونوں کے درمیان چلنے کے راستے میں آنے والوں کا الگ اور جانے والوں کا الگ اور ان دونوں پہاڑیوں کے نشانات کے تقریباً درمیان میں راستے میں آنے والے راستے پر بھی اور جانے والے راستے پر بھی ستون بنے ہیں ان کو ” سبز ستون “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہاں بھی ان ستونون پر نشان لگا کر وضاحت کردی گئی ہے ان دونوں ستونون کا درمیانی راستہ جو اگرچہ چند ہی قدم ہے دوڑ کر طے کریں گے اگر دوڑ سکتے ہیں ورنہ کچھ تیکھی چال چل لیں جتنا جلدی کرسکتے ہیں یا ممکن ہے اور پھر معمولی چال کے ساتھ چلتے ہوئے مروہ پہاڑی کے اوپر نشان پر چلے جائیں اور اللہ اکبر کہیں وہاں جتنا اوپر جاسکتے ہیں جائیں یہاں تک کہ بیت اللہ کی عمارت یعنی کعبہ دکھائی دینے لگے۔ اس جگہ بھی قبلہ رخ کھڑے ہو کر اوپر والی دعا جو صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر پڑھی تھی پڑھیں۔ یاد رکھیں یہ صفا سے مروہ تک آنے کو ایک پھیرے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے گویا آپ کا صفا سے مروہ تک آکر ایک پھیرا مکمل ہوگیا اور اس طرح آپ نے ساتھ پھیرے مکمل کرنے ہیں اور صفا سے مروہ کو جاتے وقت اور مروہ سے صفا کی طرف آتے وقت درمیانی راستہ میں چلتے وقت یہ دعا پڑھتے رہیں۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحْمُ اِنَّکَ اَنْتَ الاَعَزُّ الاَ کْرَمُ (حصن حصین) ” اے میرے رب ! میرے گناہ معاف فرمادے بلاشبہ تو بڑی ہی عزت والا ہے اور بڑی ہی بزرگی والا ہے۔ “ مروہ سے صفا کی طرف بھی چلتے ہوئے یہ دعا پڑھتے رہیں گے اور جب صفا کے اوپر چڑھ جائیں گے تو پھر قبلہ رخ ہو کر وہی دعا پڑھیں گے جو صفا پر اور پھر مروہ پر پڑھی جاتی ہے اور اس طرح سات پھیرے پورے کرنا ہیں اور آپ کا ساتواں پھیرا مروہ پر ختم ہوجائے گا۔ یعنی صفا سے مروہ تک ایک پھر مروہ سے صفا پر دو پھر صفا سے مروہ تک تین پھر مروہ سے صفا پر چار پھر صفا سے مروہ پر پانچ اور مروہ سے صفا پر چھ اور صفا سے مروہ پر سات۔ اس طرح آپ چار بار صفا پر جائیں اور چار بار ہی مردہ اور مردہ پر چوتھی بار جاکر سات چکر پورے کر کے مروہ پر وہ مخصوص دعا مانگ کر باب مروہ ہی سے باہر چلے جائیں۔ اب ماشاء اللہ آپ کا عمرہ مکمل ہوگیا۔ اگر آپ تمتع کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ نے ابھی تک حج کی نیت نہ کی تھی کیونکہ تمتع کا مطلب ہی یہ ہے کہ پہلے عمرہ کیا اور پھر حج کے دنوں میں حج کریں گے ۔ اس لئے باب مروہ سے نکل کر حجامت بنوائیں اور احرام کھول دیں عورتیں بھی اپنے بالوں میں سے بطور نشانی ایک لٹ بالوں کی کاٹ دیں۔ اب جہاں آپ کا قیام ہے وہاں اپنی قیام گاہ پر جائیں اور معمول کے مطابق زندگی کے دن گزاریں نمازیں حرم میں پہنچ کر ادا کریں اور جتنی بار ہوسکے طواف کرتے رہیں۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ طواف بیت اللہ یعنی کعبہ کے اردگرد سات چکر پورے کرنے کو طواف کہتے ہیں ۔ ہر طواف کے بعد دو رکعت مقام ابراہیم پر ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر حج قرآن ہے تو عمرہ کرنے کے بعد احرام نہیں کھولیں گے اور باقی روز جتنے بھی قیام ہیں وہ احرام کی پابندیوں کے ساتھ گزارنے ہوں گے۔ اگرچہ آج کل حج قران بہت ہی کم ہوتا ہے اور افراد والے پہلے ہی آٹھویں ذی الحجہ کو پہنچتے ہیں اور صرف حج میں شامل ہوتے ہیں۔ اگردن زیادہ ہیں اور تمتع آپ کر رہے ہیں تو ان دنوں میں مدینہ طیبہ مسجد نبوی میں کچھ نمازیں ادا کرنے کے لئے چاہیں تو چلے جائیں یہ حج کا حصہ تو نہیں لیکن مسجد نبوی میں ایک نماز ادا کرنے والے کو نبی کریم ﷺ نے پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کی بشارت سنائی ہے اس وقت سے فائدہ اٹھائیں اور مدینہ چلے جائیں۔ مدینہ طیبہ پہنچتے ہی سب سے پہلے مسجد نبوی میں داخل ہوں بشرطیکہ مسجد اس وقت کھلی ہو۔ وہاں دو رکعت نماز ادا کریں۔ یہ وہ مسجد ہے جس کو نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ پہنچتے ہی تعمیر فرمایا تھا اس میں ایک مقام ” ریاض الجنۃ “ کے نام سے معروف ہے اور اصحاب صفہ کا مقام صفہ بھی ہے۔ یہاں جگہ مل جائے تو سبحان اللہ کیا کہنے۔ جب تک مدینہ طیبہ میں رہو نماز باجماعت مسجد نبوی کے اندر ہی پڑھنے کی کوشش کرو۔ قرآن کریم کی تلاوت کرو وعظ و درس میں شامل ہوتے رہو۔ اللہ سے گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ مسجد نبوی ﷺ کے بالکل ملحق روضہ اطہر کے اندر رحمۃ للعالمین محمد رسول اللہ ﷺ کا جسد اطہر ہے۔ درود وسلام کے لئے وہاں حاضری دو بڑے درد و سوز کے ساتھ اپنے دل ہی میں بزبان حال کمال ادب و احترام سے : السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، جو روزانہ اپنی نمازوں کے ہر تشہد میں پڑھتے ہو پڑھو اور اس کے ساتھ پورا درود شریف : اَللّٰھُمَّ صلی علی محمد الخ بار بار پڑھتے رہو۔ دل میں خیال کرو کہ یہ مقام کیا ہے ؟ اور اس دنیا میں آخر کار مخلوق کا انجام کیا ہے ؟ ہر مخلوق کے لئے موت کا جام کتنا ضروری ہے ؟ یہ قبر اطہر رحمت للعالمین ، خاتم الانبیاء ، سید المرسلین ، اکرم الاولین والاخرین ، سید الثقلین ، شمس الضحیٰ ، بدر الدجی ، والی بطحا ، حبیب خدا ، اشرف الانبیاء ، شافع روز جزا محمد رسول اللہ ﷺ کے مخلوق ہونے کی کتنی بڑی دلیل ہے۔ اس قبر اطہر کا مقام کو نسا ہے ؟ یہ حجرہ سیدہ عائشہ صدیقہ ہی تو ہے اور اسکے اندر آپ ﷺ کے یار غار صدیق اکبر ؓ اور ان کے ساتھ ہی بالکل ملحق سیدنا عمر فاروق کی قبریں ہیں جو قیامت تک اس بات کا ثبوت مہیا کرتی رہیں گی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جتنے یہ دونوں یار نبی کریم ﷺ کے قریب تھے اتنا اور کوئی نہ تھا ۔ اس جگہ یہ دعا پڑھنا بھی بہت ضروری ہے جو زیارات قبور کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَهْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ بِکُم اللّٰهُ لَلَاحِقُونَ أَسْأَلُ اللّٰهَ لَنَا وَلَکُمْ الْعَافِیَةَ. (صحیح مسلم) مدینہ منورہ سے واپس آنے لگو تو مسجد نبوی ﷺ میں دو رکعت نماز ادا کرکے رو رو کر دعائیں مانگ کر وہاں سے رخصت ہو۔ کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد دوبارہ بیت اللہ یعنی مکہ مکرمہ آجائیں اور راستہ میں ذی الحلیفہ کے مقام سے عمرہ کا احرام باندھ کر ایک بار پھر عمرہ کی سعادت حاصل کرنا چاہیں تو کرلیں اس لحاظ سے یہ سفر مزید فائدہ مند ثابت ہوگا۔ تمتع کی صورت میں اب آپ ساتویں ذی الحجہ تک احرام میں نہیں بلکہ عام لباس میں ملبوس ہیں اور ظاہر ہے کہ احرام کی پابندیاں بھی آپ پر نہیں ہیں ۔ اب آٹھویں ذی الحجہ کو بعد از نماز فجر و ضو اور غسل کریں اور حج کا احرام باندھ لیں۔ آپ جس جگہ پر ہیں بالکل اسی جگہ سے احرام باندھ سکتے ہیں۔ یہاں سے احرام باندھ کر منیٰ کو نکل جائیں اور منیٰ میں پہنچ کر جہاں آپ کی جگہ موجود ہے وہاں قیام کریں اور ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں ملا کر ادا کریں۔ نماز باجماعت پڑھیں مسجد خیف قریب ہے اگر جگہ وہاں مل سکے تو وہاں ورنہ جماعت کرا لیں یعنی اپنے خیموں میں اسطرح رات منیٰ میں گزر گئی اور 9 /ذی الحجہ کی صبح کی نماز مسجد خیف میں یا اپنے مقام پر باجماعت ادا کریں۔ جب آفتاب نکل آئے اور دھوپ نظر آنے لگے یا اتنا وقت ہوجائے تو اس روز یعنی 9/ذی الحجہ کو منیٰ سے نکل کر میدان عرفات کی طرف جائیں اور عرفات میں دوپہر کے بعد دا خل ہوں ۔ یہاں مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ ہوگا حج کی نماز ادا ہوگی اور اس طرح مغرب کی نماز کے وقت تک یعنی سورج غروب ہونے تک آپ کو عرفات کے میدان میں رہنا ضروری ہے اور یہ سارا وقت دعا و استغفار میں گزارنا ہوگا۔ سورج کے غروب ہوتے ہی بغیر نماز ادا کئے عرفات کو چھوڑ دینا ہے اور عرفات سے نکل کر آگے میدان مزدلفہ آئے گا اس کو نشانات لگا کر واضح کردیا گیا ہے ۔ جب مناسب جگہ قیام کی مل جائے تورک کر باجماعت مغرب اور عشاء کو ادا کرنا ہے دونوں کو جمع کر کے ادا کیا جائے گا۔ پھر صبح کی نماز تک قیام مزدلفہ میں رہے گا۔ دسویں ذی الحجہ مزدلفہ صبح کی نماز صبح صادق ہوتے ہی ادا کر کے وہاں سے چل دینا ہے اور اس مزدلفہ کے میدان سے ستر کنکریاں بھی اٹھا لینا ہے جو جمرات پر پھینکی جائیں گی یا میدان محصر سے لے لینا یہ آپ کی سہولت پر ہے اس میدان میں یعنی میدان مزدلفہ میں ایک مقام ہے جس کا نام ” مشعر الحرام “ ہے اس کے قریب جگہ مل جائے تو بہتر ورنہ مزدلفہ کے اندر ہی جہاں جگہ مل سکے۔ یہ ” مشعر الحرام “ کے مقام کی دعا پڑھ لیں اور بار بار پڑھیں : لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ (صحیح مسلم : 456) سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ہی مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوجائیں۔ مزدلفہ کے بعد وادی محصر آئے گی اسی جگہ سے نکل کر میدان منیٰ میں داخل ہونا ہے۔ منیٰ پہنچ کر سب سے پہلے سیدھے جمرہ عقبیٰ پر آؤ اور وہاں ان کنکریوں میں سے سات کنکریاں ” اللہ اکبر “ کہہ کر باری باری مارو۔ یادرکھو کہ ساتوں کو اگر ایک بار پھینک دیا تو گویا ایک ہی کنکری پھینکی۔ لہٰذا ساتوں کو الگ الگ تکبیر بول کر پھینکو اور وہاں سے واپس آکر قربان گاہ کی طرف جاؤ ۔ قربانی کا جانور ذبح کرو۔ ذبیحہ کے بعد اپنے مقام پر واپس آجاؤ ۔ حجامت بنواؤ غسل کرو اور احرام کھول دو اپنے معمول کے کپڑے پہن کر اگر ہو سکے تو ظہر کی نماز یعنی دسویں ذی الحجہ کو ظہر کی نماز بیت اللہ میں ادا کرو۔ بعد از نماز طواف افاضہ میں مصروف ہوجاؤ ۔ آج بہت ہی رش ہے میدان حشر کا سماں ہے۔ گڑگڑانا ہے۔ آہیں ہی آہیں ہیں۔ طواف افاضہ کے بعد یہاں سے واپس منیٰ کی طرف چل دیں اور رات میدان منیٰ کے اندر ہی گزاریں۔ جہاں بھی ادا کرسکیں نماز باجماعت ہی ادا کرنے کی کوشش کریں۔ گیارہ ذی الحجہ کو نماز فجر مسجد خیف میں باجماعت ادا کریں اگر جگہ نہ مل سکے تو اپنے خیمہ میں جماعت کرا لیں اور اپنے مقام پر ہی ذکر و فکر میں محور ہیں۔ جب سورج ڈھل جائے تواکیس کنکریاں پھینکیں پھر جمرہ وسطی پر آکر سات کنکریاں ماریں اور اس کے بعد جمرہ عقبیٰ پر آکر بدستور سات کنکریاں ماریں ۔ اس کے بعد سارا دن آرام کریں۔ پھر بارہ ذی الحجہ کو دوپہر تک اپنے خیمہ میں رہیں اور بعد ازدوپہر اکیس کنکریاں لے کر چلیں اور گیارہ ذی الحجہ کی طرح جمرہ اولیٰ سے شروع کر کے سات سات کنکریاں مارتے رہیں۔ اگر آج یعنی بارہ ذی الحجہ ہی کو واپس مکہ جانے کا پروگرام ہے تو آنے والے روز کی بھی کنکریاں آج ہی پھینک دیں اور فارغ ہو کر مکہ مکرمہ آجائیں اگر وہاں ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو بارہ ذی الحجہ کو دوسرے روز کی کنکریاں نہ ماریں واپس اپنے خیمہ پر چلے جائیں ۔ تیرہ ذی الحجہ کو پھر پہلے دنوں کی طرح کنکریاں پھینک کر واپس چلے جائیں۔ گویا میدان منیٰ سے بارہ ذی الحجہ کو بھی واپس جایا جاسکتا ہے اور تیرہ ذی الحجہ کو بھی ۔ چونکہ اکثر لوگ اس پروگرام کو پورا کرتے لیٹ ہو ہی جاتے ہیں بلکہ عرفات سے واپسی پر ہی لیٹ ہونا شروع ہو کر پورے ایک دن کا کام لیٹ بھی ہوجاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دن کی گنجائش پہلے ہی روز سے رکھ دی ہے تاکہ لوگ اطمینان کے ساتھ ارکان حج ادا کرسکیں۔ منیٰ سے واپس آکر اپنے پروگرام کے مطابق واپسی کا انتطام کریں۔ جتنا وہاں مل جائے غنیمت ہے۔ زیادہ تربیت اللہ میں رہیں مستلزم سے لپٹ لیں۔ حطیم میں داخل ہوں نوافل بھی پڑھیں۔ طواف کریں۔ پورے حج کے دنوں میں کسی کو دکھ اور تکلیف نہ دیں دوسروں کے لئے آسانی پیدا کریں۔ اچھا سلوک کریں۔ کسی کو حاجت و ضرورت ہو تو بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ جہاں تک ہوسکتا ہے اپنے قافلہ والوں کو سہولت پہنچائیں اور آتی دفعہ ” طواف الوداع “ کر کے دعائیں مانگ کر الوداع ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو حج مبارک کرے۔ آمین ثم آمین۔ حج کی دُعائیں اور اذکار عرفات کے حدود ریگ راز میں قبلہ رخ کھڑے ہو کر باوضو یہ دعائیں مانگیں جب تھک جائیں۔ تو بیٹھ کر پڑھیں حضرت شافع روز جزاء ﷺ کی زبان کے موتی جو ان دعاؤں کی صورت میں ہیں : 1: لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ (ترمذی : 3477) ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ ملک اسی کا ہے۔ اور تعریف اسی کے لئے ہے ، اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “ 2: اللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَالَّذِی نَقُولُ وَخَیْرًا مِمَّا نَقُولُ اللّٰھُمَّ لَکَ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی وَإِلَیْکَ مَآبِی وَلَکَ رَبِّ تُرَاثِی اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الْاَمْرِ اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا تَجِیئُ بِهِ الرِّیحُ ۔ (ابن خزیمہ : 1929 ، ترمذی : 1475) ” اے اللہ ! سب تعریف تیرے ہی لئے ہے جس طرح تو کہتا ہے اور بہتر اس سے جو ہم کہتے ہیں۔ اے اللہ ! تیرے ہی لئے ہے نماز میری اور قربانی میری ، اور جینا میرا ، اور مرنا میرا ، اور تیری طرف ہے رجوع کرنا میرا۔ اور تیرے ہی لیے ہے اے رب میرے میراث میری ، اے اللہ تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور سینوں کے وسوسوں سے اور کام کی پریشانی سے ، اے اللہ ! میں مانگتا ہوں تجھ سے بھلائی اس چیز کی جو لاتی ہے اس کو ہوا۔ اور پناہ پکڑتا ہوں تیری اس چیز کی بدی سے کہ لاتی ہے اس کو ہوا۔ “ 3: لاَ اِلٰہَ الَّا اللہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍقَدِیْرٌ. اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا اَللّٰھُمَّ اشَرَحَ لِیْ صَدْرِی وَ یَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ وَسَاوِسِ الصَّدْرِِ وَشَتَاتِ الْاَمْرِ وَ فِتْنَۃِِ الْقَبْرِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّمَا یَلِجُ فْی النَّھَارِ وَ شَرِّمَا تَھِبُ بِہٖ الرِّیَاحِ ۔ (حصن حصین) ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ملک اسی کا ہے اور تعریف اسی کے لئے ہے اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! میرے دل میں روشنی اور میرے کام میں روشنی اور میری آنکھ میں روشنی ۔ اے اللہ ! تو میرے سینے کو کھول دے اور میرے کام کو آسان کر دے اور تیری پناہ مانگتا ہوں سینہ کے وسوسوں سے اور کام کی پریشانی سے اور قبر کے فتنے سے۔ اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اس چیز کی برائی سے جو رات میں داخل ہوتی ہے اور اس چیز کی برائی سے کہ چلاتی ہیں اس کو ہوائیں۔ “ 4: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ اِنَّمَا الْخَیْرُ الْاٰ خِرَۃً. (طبرانی) ” حاضر ہوں اے میرے اللہ حاضر ہوں سوائے اس کے نہیں کہ بھلائی تو صرف آخرت کی ہے۔ “ 5: اللہُ اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ اللہُ اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُاللہُ اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ ۔ اللّٰھُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا مَبْرُورًا وَذَنْبًا مَغْفُورًا۔ (طبرانی) ” اللہ بہت بڑا ہے اور اللہ ہی کے لئے تعریف ہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اور اللہ ہی کے لئے تعریف ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے اور اللہ ہی کے لئے تعریف ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہی ہے ، اور اسی کے لئے تعریف ہے ، اے اللہ ! تو اس حج کو قبول فرما اور گناہوں کو بخش دے۔ “ 6: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ وَتَرَی مَکَانِیْ وَ تَسْمَعُ کَلَا مِیْ وَ تَعْلَمُ سِرِّیْ وَ عَلَانِیَتِیْ وَلَا یَخْفٰی عَلَیْکَ شَیْءٌ مِنْ اَمْرِیْ وَاَنَا الْبَائِسُ الْفَقِیْرُ الْمُسْتَغِیْثُ الْمُسْتَجَیْرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمَقِرُّ الْمُعْتَرَفُ بِذَنْبِیِ اَسْئَلُکَ مَسْئَلَۃَ الْمِسْکِیْنِ وَاَبْتِھَلُ اِلَیْکَ اِبْتِھَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِیْلِ وَاَدْعُوْکَ دُعَآءَ الْخَائِفِ الضَّرِیْرِ وَ دُعَآءَ مَنْ خَضَعَتْ لَکَ رَقْبَتَہُ وَ فَاضَتْ لَکَ عَیْنَاہ وَنَحِلَ لَکَ جَسَدَہٗ وَرَغِمَ لَکَ اَنْفُہٗ ۔ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ بِدُعَآئِکَ شَقِیًّا وَّکُنَ رَّبِّیْ رَءُوْفًا رَّحِیْمَا۔ یَا خَیْرَا الْمَسْؤْلِیْنَ یَا خَیْرَ الْمُعْطِیْنَ یَا ارْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ آمین .(طبرانی) ” الٰہی تو (میرا حال) جانتا ہے اور میری جگہ کو دیکھتا ہے اور میرے کلام کو سنتا ہے اور جانتا ہے میرے باطن کو اور میرے ظاہر کو اور میرے کاموں میں سے کچھ بھی تجھ پر پوشیدہ نہیں اور میں ہوں تکلیف والا ، محتاج فریاد کرنے والا ، پناہ مانگنے والا ، خوف کھانے والا ، اقرار کرنے والا ، ماننے والا اپنے گناہوں کا ، تجھ سے مانگتا ہوں مسکینوں کا سامانگنا اور گڑگڑاتا ہوں تیری طرف گڑ گڑانا گنہگار رسوا کا اور پکارتا ہوں تجھ کو پکارنا خوفزدہ اندھے کا ، اور پکارنا اس شخص کا کہ جھک گئی ہو تیرے آگے گردن اس کی ، اور بہہ نکلیں تیرے لئے آنکھیں اس کی ، اور لاغر ہوا تیرے لئے جسم اس کا اور خاک آلودہ ہوئی تیرے لئے ناک اس کی ، الٰہی نہ کر تو مجھے اپنی دعا سے بےنصیب اور ہوجا مجھ پر نرمی کرنے والا مہربان۔ اے سب مانگے ہوؤں سے بہتر ، اے سب دینے والوں سے اچھے ، اے سب مہربانوں سے زیادہ مہربان اور تعریفیں سب اللہ کو ہیں جو پالنے والا ہے تمام جہانوں کا۔ الٰہی : قبول کر۔ “ 7: اَللّٰھُمَّ اھدنا بالھدی وزینا بالتقوی واغفرلنا فی الاخرۃ والا ولی اَللّٰھُمَّ انی اسلک رزقا حلال طیبا مبارکا اَللّٰھُمَّ انک امرتنی بالدعاء ولک الا جابۃ وانک لا تخلف المعیاد ولا تنکث عھدک اَللّٰھُمَّ ما احببت من خیر فحببہ الینا ویسرہ لنا وما کرھت من شرفکرھہ الینا وجنبناہ ولا تنزع منا الاسلام بعد اذھد یتنا . (طبرانی) ” الٰہی راستہ دکھا ہم کو ساتھ ہدایت کے اور زینت دے ہم کو ساتھ پرہیز گاری کے اور بخش دے ہم کو آخرت اور دنیا میں ، اے اللہ ! میں تجھ سے حلال پاکیزہ ، برکت دینے والی روزی مانگتا ہوں ۔ اے اللہ ! تو نے مجھ کو دعا مانگنے کا حکم دیا۔ (میں نے دعا مانگی) اور تیرا کام ہے قبول کرنا اور تحقیق تو وعدہ خلافی نہیں کرتا اور نہ عہد توڑتا ہے ، اے اللہ ! جو بھلائی (ہمارے لئے) تو نے پسند کی محبت دے اس کی ہم کو اور آسان کر اس کو ہم پر ، اور جو برائی تو نے ناپسند کی پس ناپسند دکھا وہ ہم کو اور بچا ہم کو اس سے ، اور نہ چھین لے ہم سے اسلام ہمیں ہدایت دینے کے بعد۔ “ 8: اللّٰھُمَّ أَنْتَ رَبِّی لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلَی عَهْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوئُ لَکَ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی فَإِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ .(بخاری : 1273) ” اے اللہ ! تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں حتی الوسع تیے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں ۔ میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں اپنے عمل کی برائی سے اقرار کرتا ہوں اپنے گناہ کا۔ پس بخش دے مجھ کو ، کہ تیرے سوا کوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں ہے۔ “ 9: اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی وَجَهْلِی وَإِسْرَافِی فِی أَمْرِی کُلِّهِ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّی اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِی خَطَایَایَ وَعَمْدِی وَجَهْلِی وَهَزْلِی وَکُلُّ ذَلِکَ عِنْدِی اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ وَأَنْتَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ .(بخاری : 1347) ” اے اللہ بخش دے مجھ کو خطا میری اور نادانی میری اور اپنے کام میں اسراف میرا اور وہ گناہ جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، اے اللہ بخش میرے گناہ کو قصداً کئے ہیں اور ہنسی سے کئے ہیں اور چوک کر کئے ہیں اور جان کر کئے ہیں اور یہ سب کچھ مجھ پر موجود ہے۔ اے اللہ بخش میرے لئے وہ گناہ کہ پہلے کئے میں نے اور پیچھے کئے میں نے اور جو پوشیدہ کئے میں نے اور جو ظاہر کئے میں نے اور وہ جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، تو ہی (نیکیوں میں ) آگے بڑھانے والا اور تو ہی (برائیوں میں) پیچھے ہٹانے والا ہے اور تو ہرچیز پر قادر ہے۔ “ 10: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَتُوبُ اَلَیکَ مِنھَا لَا اَرجَعَ الِیھَا اَبَدًا .(حاکم) ” اے اللہ میں گناہوں سے تیرے آگے ایسی توبہ کرتا ہوں۔ کہ کبھی ان کی طرف نہ لوٹوں گا۔ “ 11: اللّٰھُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی .(ترمذی) ” اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے ، عفو کو دوست رکھتا ہے ، پھر میرے گناہ معاف کر دے۔ “ 12: اَللّٰھُمَّ مَغۡفِرَتِکَ اَوۡسَع مِنۡ ذَنُوۡبِیۡ وَرَحۡمَتِکَ اَرۡجٰی عِنۡدِیۡ مِنۡ عَمَلِیۡ . (حاکم) ” اے اللہ تیری بخشش میرے گناہوں سے بہت زیادہ ہے اور مجھے تیری رحمت سے بہت امید ہے بہ نسبت اپنے عمل کے۔ “ 13: أَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ واَتُوْبُ اِلَیْہِ .(حصن حصین) ” میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، (اور) جو زندہ اور سب چیزوں کو قائم رکھنے والا ہے اور اس کے آگے توبہ کرتا ہوں۔ “ 14: اللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِی حُبَّکَ . (ترمذی) ” اے اللہ میں مانگتا ہوں تجھ سے تیری محبت اور محبت اس کی جو تجھ سے محبت رکھے اور کام جو پہنچائے مجھ کو تیری محبت تک۔ “ 15: اللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْهُدَی وَالتُّقٰہُ وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰہُ.(مسلم : 2403) ” اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں ہدایت اور پرہیز گاری اور پارسائی اور غنا۔ “ 16: اللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِی (وَقَالَ عُثْمَانُ ) عَوْرَاتِی وَآمِنْ رَوْعَاتِی . (ابو داؤد : 1666) ” اے اللہ میرے عیبوں کو ڈھانک ، اور مجھے ڈر سے بےخوف کر۔ “ 17: اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَجِیْرُکَ مِنَ النَّارِ ۔ (ترمذی) ” اے اللہ ! میں آگ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “ 18: اللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ فِی دِینِی وَدُنْیَایَ وَأَهْلِی وَمَالِی . (ابوداود : 1666) ” اے اللہ ! میں مانگتا ہوں تجھ سے معافی اور سلامتی اپنے دین میں اور اپنی دنیا میں اور اپنے گھر والوں میں اور اپنے مال میں۔ “ 19: اللّٰھُمَّ أَلْهِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی . (ترمذی : 1437) ” اے اللہ میرے دل میں ڈال دے میرے فائدے کی بات اور بچا مجھ کو میرے نفس کی برائی سے۔ “ 20: اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ مُنْکَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَهْوَائِ (ترمذی : 1548) ” اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ناپسندیدہ عادتوں سے اور برے کاموں اور بری خواہشوں اور بیماریوں سے۔ “ 21: اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ جَهْدِ الْبَلَائِ وَدَرَکِ الشَّقَائِ وَسُوئِ الْقَضَائِ وَشَمَاتَةِ الأَعْدَائِ. (صحیح بخاری : 1297) ” اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیری بلاؤں کی سختی سے اور پہنچنے بدبختی سے ، اور برے فیصلے سے اور دشمنوں کی ہنسی سے۔ “ پپپ 22: اَللّٰھُمَّ اکْفِنِی بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِی بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ .(ترمذی) ” اے اللہ مجھ کو حلال عطا کر کے حرام سے بچا اور اپنے فضل سے اپنے ماسوا سے بےنیاز کر دے۔ “ 23: اَللّٰھُمَّ اللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِی دِینِی الَّذِی ہُوَ عِصْمَةُ أَمْرِی وَأَصْلِحْ لِی دُنْیَایَ الَّتِی فِیہَا مَعَاشِی وَأَصْلِحْ لِی آخِرَتِی الَّتِی فِیہَا مَعَادِی وَاجْعَلْ الْحَیَاةَ زِیَادَةً لِی فِی کُلِّ خَیْرٍ وَاجْعَلْ الْمَوْتَ رَاحَةً لِی مِنْ کُلِّ شَرٍّ.(صحیح مسلم) ” اے اللہ سنوار دے میرے لئے دین میرا جو بچاؤ ہے میرے کام کا اور سنواردے میرے لئے دنیا میری کہ جس میں گزران ہے میری اور سنوار دے میرے لئے آخرت میری کہ جس میں مجھے پھرجانا ہے اور کر تو زندگی کو زیادہ میرے لئے بیچ ہر بھلائی کے اور کر تو موت کو راحت میرے لئے ہر ایک برائی سے۔ “ 24: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ. ( صحیح مسلم) ” اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیری اپنے کرتوتوں کی برائی سے اور ناکردہ گناہوں کی برائی سے۔ “ 25: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَائَةِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیعِ سَخَطِکَ. (صحیح مسلم) ” اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے تیری نعمت کے جانے سے اور تیری دی ہوئی عافیت کے بدلنے اور تیرے عذاب ناگہانی کے آنے اور تیرے ہر غضب سے۔ “ 26: اَللّٰھُمَّ انفعنی بما علمتنی وعلمنی ما ینفعنی وارزقنی علما تنفعنی بہ . (حصن حصین) ” اے اللہ نفع دے مجھ کو ساتھ اس کے جو تو نے مجھے سکھایا اور سکھا مجھ کو وہ بات جو نفع دے مجھ کو اور نصیب کر مجھے وہ علم جس کے ساتھ نفع دے تو مجھ کو۔ “ 27: اَللّٰھُمَّ قنعنی بما رزقتنی وبارک لی فیہ واخلف علی کل غائبۃ لی بخیر . (حصن حصین) ” اے اللہ قناعت دے مجھ کو اپنے دیئے ہوئے پر اور میرے لئے اس میں برکت دے ، اور حفاظت کر میری ہر غائب چیز پر ساتھ بھلائی کے۔ “ 28: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ . (ترمذی) ” اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔ “ 29: إِنَّا نَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَکَ مِنْهُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ (ترمذی) ” اے اللہ ہم مانگتے ہیں تجھ سے بھلائی اس چیز کی کہ مانگی تجھ سے تیرے نبی محمد ﷺ نے اور پناہ مانگتے ہیں ہم ساتھ تیرے اس چیز کی برائی سے کہ پناہ مانگی اس سے تیرے نبی محمد ﷺ نے اور تو ہی ہے جس سے مدد مانگی جائے اور تو ہی منزل مقصود تک پہنچانے والا ہے اور نہیں ہے گناہوں سے پھرنا اور نہ طاقت عبادت کی سوا اللہ کی مدد کے ۔ “ 30: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ . (صحیح بخاری) ” اے اللہ تحقیق میں پناہ مانگتا ہوں تیری ، فکر اور غم اور عاجزی اور کاہلی اور بخل اور نامردی اور قرض کے بوجھ اور لوگوں کی زیادتی ہے۔ “ 31: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دُعَاءَ لَا یَّسْمَعَ. (حصن حصین) ” اے اللہ تحقیق میں پناہ مانگتا ہوں تیرے اس علم سے کہ نہ نفع دے اور اس دل سے کہ نہ ڈرے اور اس نفس سے جو نہ سیر ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو۔ “ 32: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَی وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ قَلْبِی بِمَائِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِی مِنْ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ . (حصن حصین) ” اے اللہ تحقیق میں پناہ مانگتا ہوں ساتھ تیرے آگ کے عذاب سے اور آگ کے فتنے سے اور قبر کے فتنے سے اور قبر کے عذاب سے اور دولت مندی کے فتنے کی برائی سے اور محتاجی کے فتنے کی برائی سے ، اور کانے دجال کے فتنے کے شر سے ، اے اللہ ! دھو گناہ میرے برف کے پانی اور اولوں سے اور پاک کر دل میرا گناہوں سے ، جیسے پاک کیا جاتا ہے کپڑا سفید میل سے اور دوری ڈال درمیان میرے اور دمیان میرے گناہوں کے۔ جیسے دوری کی تو نے درمیان مشرق اور مغروب کے۔ “ 33: اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سُخْطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ . (ابو داؤد) ” اے اللہ ! میں پناہ مانگتا ہوں ساتھ تیری رضا کے تیرے غضب سے اور ساتھ تیرے عفو کے تیرے عذاب سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری ، تیرے غضب سے ، میں تیری پوری تعریف نہیں کرسکتا۔ تو نے جیسی اپنی تعریف فرمائی ہے ویسا ہی ہے۔ “ 34: اَللّٰھُمَّ اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَیِّئِ الْاَسْقَامِ .(نسائی) ” اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں ساتھ تیرے برص اور کوڑھ اور دیوانہ پن سے اور تمام بری بیماریوں سے۔ “ 35: اللَّهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُورِ کُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ (موطا مالک) ” اے اللہ ! ہمارا انجام اچھا کر دے جتنے کام ہیں سب کاموں میں اور ہم کو دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔ “ 36: اَللّٰھُمَّ اجعلنی صبورا واجعلنی شکورا واجعلنی فی عینی صغیرا فی اعین الناس کبیرا۔ (حصن حصین) ” اے اللہ مجھے بہت صبر کرنے والا بنادے اور بہت شکر کرنے والا بنا دے اور مجھے میری آنکھوں میں چھوٹا اور لوگوں کی آنکھوں میں بڑا بنا دے۔ “ 37: اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلَا تَکِلْنِی إِلَی نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِی شَأْنِی کُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ . (ابو داؤد) ” اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں ۔ مجھے نفس پر ایک لمحہ کے لئے بھی نہ سونپ دے اور میرے لئے میرا سارا حال درست فرما دے۔ تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں۔ “ 38: اَللّٰھُمَّ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِی وَأَنْتَ نَصِیرِی وَبِکَ ا أَحُولُ وَبِکَ أَصُولُ أُقَاتِلُ . ( ابوداؤد ، ترمذی) ” اے اللہ ! تو ہی میرا بازو ہے اور تو ہی میرا مددگار ہے۔ تیری قوت سے حیلہ کرتا ہوں اور تیری ہی قوت سے حملہ کرتا ہوں اور تیری قوت سے تیری راہ میں لڑتا ہوں۔ “ 39: اَللّٰھُمَّ انی اسلک الصحۃ والعفۃ والا مانۃ و حسن الخلق والرضا بالقدر .(مشکوٰۃ المصابیح) ” اے اللہ ! میں تجھ سے بدن کی تندرستی طلب کرتا ہوں اور حرام سے بچنے کی توفیق مانگتا ہوں اور امانت ، حسن خلق اور تری رضا راضی ہونے کی درخواست کرتا ہوں۔ “ 40: یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیثُ.(ترمذی) ” اے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے۔ زندگی بخشنے اور قائم رکھنے والے مخلوق کے ساتھ تیری رحمت کی فریاد رسی چاہتا ہوں۔ “ ناخواندہ حجاج کرام کے لئے تحفہ چالیس مذکورہ دعائیں جو میدان عرفات میں پڑھنے کے لئے تحریر کی گئی ہیں اگر ان پڑھ حاجی حضرات ان کے پڑھنے سے معذور ہوں تو وہ غم نہ کریں رسول اللہ ﷺ لوگوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کئے گئے تھے آپ ﷺ نے ایسے لوگوں کے لئے بالکل مختصر دعائیں ارشاد فرمائیں۔ ذرا خیال کر کے ایک ایک دو دو لفظ یاد کرلیں اور کثرت کے ساتھ پڑھیں اور ان کا ترجمہ سن کر مفہوم یاد کرلیں۔ پانچ دعائیں تحریر ہیں جو پورے حج کے لئے کفایت کرتی ہیں۔ 1: لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ . (صحیح مسلم : 456 ، ترمذی : 3477) ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہی صرف اسی کو سزا وار ہے۔ سب اچھی تعریفوں کے لائق صرف اسی کی ذات ہے اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “ 2: لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ 1ۖۗ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ0087 (القرآن) ” اے اللہ ! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ تو پاک ہے۔ بلاشبہ میں ہی اپنے اوپر زیادتیاں کرنے والا ہوں۔ “ 3: رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ 00201 (القرآن) ” اے ہمارے رب ! ہم کو اس دنیا میں نیکی عطا فرما اور آخرت میں اچھائی اور بہتری عطا فرما اور ہم کو عذاب آگ سے نجات عطا فرما۔ “ 4 : رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ 0023 ( القرآن) ” اے ہمارے رب ! ہم نے خود ہی اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں اور اگر تو ہم کو معاف نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم مسلسل گھاٹے میں رہیں گے۔ 5: أَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ واَتُوْبُ اِلَیْہِ .( مشکوٰۃ) ” اے اللہ ! تیری بخشش کا طلب گار ہوں۔ اس ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہی نہیں ہے اور میں بھی اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ “ میدان عرفات میں پانچ چھ گھنٹے وقت مل ہی جاتا ہے ان اوقات کو غنیمت جان کر ان ادعیہ کو بار بار دہراتے رہیں۔ ایک دعا کے لئے ایک گھنٹہ وقت نکال لیں اور گن گن کر پڑھنے کی ضرور نہیں اس بےحساب بخشش رکھنے والے کے ہاں اپنے گناہوں کو پیش کر کے معافی طلب کرنے کی ضرورت ہے اور وہ دلوں کے رازوں تک سے واقف ہے اس کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے ان گنت بار پڑھ کر ان گنت گناہوں کی معافی طلب کرلو شاید یہ وقت دوبارہ زندگی میں ہاتھ نہ آئے۔ اب حج کا بیان ختم ہوچکا ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کی تقلین دوبارہ شروع ہوگئی اور معاشرے میں دو ہری پوزشن کے لوگوں کا کردار واضح کیا جاتا ہے۔
Top