Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 168
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ ظَلَمُوْا لَمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ طَرِیْقًاۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَظَلَمُوْا : اور ظلم کیا لَمْ يَكُنِ : نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيَغْفِرَ : کہ بخشدے لَهُمْ : انہیں وَلَا : اور نہ لِيَهْدِيَهُمْ : انہیں ہدایت دے طَرِيْقًا : راستہ (سیدھا)
بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم بھی تو اللہ انہیں کبھی بخشنے والا نہیں نہ انہیں کوئی راہ دکھائے گا
جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور ظلم کیا ان کے لئے سیدھی راہ گم ہوگئی۔ 359: بعض کفر ‘ کفر کرنے والوں تک محدود ہوتا ہے لیکن بعض کفر ایسے بھی ہوتے ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہگار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں۔ کفر کے ساتھ ظلم کا لفظ جب بھی اور جہاں بھی قرآن کریم میں آیا ہے یہ ایسے کفر کا ذکر ہے جو صرف کفر کرنے والے تک محدود نہیں ہوتا یہ وہی کفر ہوتا ہے جو پوری سوسائٹی کو تباہ و برباد کردیتا ہے یہ کفر وہی کفر جس کے کرنے والے ہی اس کی زد میں نہیں آتے بلکہ یہ ان کے لئے بھی اتنا ہی نقصان دہ ہوتا ہے جتنا کرنے والوں کے لئے۔ اس کی مثال اس طرح بیان کی جاسکتی ہے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں ان کا اثرمحدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو لیکن جب وہاں گندگی عام ہوجاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا ‘ زمین اور پانی ہرچیز میں پھیل جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو وباء آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے اور اسی گندے ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود ہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں لن کہ جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہوجاتا ہے ‘ جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اس میں نہیں رہتی جب اس کے درمیان برے اور بےحیاء اور بد اخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو اعلانیہ اچھالنے اور پھیلانے لگتے ہیں اور اچھے لوگ بد عملی اختیار کر کے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر خاموش ہوجاتے ہیں تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ چناچہ ارشادہوتا ہے کہ : ” بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہیں لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہے ” ظلموا منکم خاصہ “ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزاد ینے والا ہے۔ “ ’ الانفال 8:25) اور اس ظلم سے مراد شرک بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ بھی دراصل وبائی مرض ہے اور جس معاشرہ میں پھیلتا ہے پھیلتا ہی چلا جاتا ہے اور کوئی علاج بھی اس پر اتنا جلد اثر نہیں کرتا اس وبائی پھوڑے کا نشتر کے سوا کوئی علاج نہیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” اس پر شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے ؟ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ “ (الانعام 6:21) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹ بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہنمائی کرے یقینا اللہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔ “ (الانعام 6:144) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیت کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے ؟ جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں انہیں اس روگردانی کی پاداش میں ہم بدترین سزادے کر رہیں گے۔ “ (الانعام 6:107) ظاہر ہے کہ اللہ کی آیت سے مراد اس کے وہ ارشادات بھی ہیں جو قرآن کریم کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کئے جا رہے تھے اور وہ نشانیاں بھی جو نبی کریم ﷺ کی شخصیت اور آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگی میں نمایاں نظر آرہی تھیں اور وہ آثار کائنات بھی جنہیں قرآن کریم اپنی دعوت کی تائید میں شہادت کے طور پر پیش کر رہا تھا۔ فرمایا کہ ” جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم میں بھی بےباک ہوگئے اور مرتے دم تک اسی حالت میں سرشار رہے تو خدا نہیں کبھی بخشنے والا نہیں نہ انہیں کامیابی کی کوئی راہ دکھائے گا۔ “ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ ایسی راہ پر چلنے کے لئے تیار نہیں اور مجبور کر کے سیدھی راہ پر لگانا قانون الٰہی کے خلاف ہے اور اللہ اپنے قانون کے خلاف کبھی نہیں کرتا۔
Top