Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
تیرا اختیار کچھ نہیں یا ان کو توبہ دیوے خدا تعالیٰ یا ان کو عذاب کرے کہ وہ ناحق پر ہیں2
2 احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے جن میں حضور ﷺ کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ ؓ بھی تھے، مشرکین نے نہایت وحشیانہ طور پر شہداء کا مثلہ کیا (ناک کان وغیرہ کاٹے) پیٹ چاک کئے حتیٰ کہ حضرت حمزہ ؓ کا جگر نکال کر ہندہ نے چبایا۔ مفصل واقعہ آگے آئے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو بھی اس لڑائی میں چشم زخم پہنچا۔ سامنے کے چار دانتوں میں سے نیچے کا دایاں دانت شہید ہوا، خود کی کڑیاں ٹوٹ کر رخسار مبارک میں گھس گئیں، پیشانی زخمی ہوئی اور بدن مبارک لہو لہان تھا اسی حالت میں آپ ﷺ کا پاؤں لڑکھڑایا اور زمین پر گر کر بیہوش ہوگئے۔ کفار نے مشہور کردیا۔ اِنَّ مُحَمَّدَا قَدْ قُتِلَ (محمد ﷺ مارے گئے) اس سے مجمع بدحواس ہوگیا، تھوڑی دیر کے بعد آپ ﷺ کو ہوش آیا۔ اس وقت زبان مبارک سے نکلا کہ " وہ قوم کیونکر فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ زخمی کیا جو انکو خدا کی طرف بلاتا تھا "۔ مشرکین کے وحشیانہ شدائد و مظالم کو دیکھ کر آپ سے نہ رہا گیا اور ان میں سے چند نامور اشخاص کے حق میں آپ ﷺ نے بد دعاء کا ارادہ کیا یا شروع کردی جس میں ظاہر ہے آپ ﷺ ہر طرح حق بجانب تھے مگر حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ آپ اپنے منصب جلیل کے موافق اس سے بھی بلند مقام پر کھڑے ہوں، وہ ظلم کرتے جائیں آپ ﷺ خاموش رہیں۔ جتنی بات کا آپ کو حکم ہے (مثلا دعوت و تبلیغ اور جہاد وغیرہ) اسے انجام دیتے رہیں۔ باقی انکا انجام خدا کے حوالے کریں۔ اس کی جو حکمت ہوگی کرے گا آپکی بد دعا سے وہ ہلاک کردیئے جائیں کیا اسکی جگہ یہ بہتر نہیں کہ ان ہی دشمنوں کو اسلام کا محافظ اور آپ ﷺ کا جاں نثار عاشق بنادیا جائے ؟ چناچہ جن لوگوں کے حق میں آپ ﷺ بددعا کرتے تھے، چند روز کے بعد سب کو خدا تعالیٰ نے آپ ﷺ کے قدموں پر لا ڈالا، اور اسلام کا جانباز سپاہی بنادیا۔ غرض لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْءٌ میں آنحضرت ﷺ کو متنبہ فرمایا کہ بندہ کو اختیار نہیں نہ اس کا علم محیط ہے اللہ تعالیٰ جو چاہے سو کرے۔ اگرچہ کافر تمہارے دشمن ہیں اور ظلم پر ہیں۔ لیکن چاہے وہ ان کو ہدایت دے چاہے عذاب کرے تم اپنی طرف سے بد دعا نہ کرو۔ بعض روایات سے ان آیات کی شان نزول کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں فتح الباری میں کئی جگہ اس پر شافی کلام کیا ہے فلیر اجع۔
Top