Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں
قول باری ہے : واستعینوا بالصبروا الصلوۃ اور صبر اور نماز کے ذریعے مدد کرو) اس میں صبر کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ فرائض کی ادائیگی اور اس کے معاصی سے اجتناب پر فرض نماز کو بروئے کار لانے کے ساتھ متعلق ہے۔ سعید نے قتادہ سے روایت بیان کی ہے کہ صبر اور نماز دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نماز کی ادائیگی، گناہوں سے اجتناب اور فرائض کی بجا آوری میں بڑی ممد و معاون ہیں جس طرح یہ قول باری ہے : (بےشک نماز بےحیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی رہتی ہے) یہاں بھی احتمال ہے کہ آیت میں مذکورہ صبر اور صلوۃ سے مستحب صبر و صلوۃ ، مثلاً نفلی روزے اور نفلی نماز مراد ہو، مفروض صبر و صلوۃ مراد نہ ہوں تاہم زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ ان کی مفروض صورتیں مراد ہیں اس لئے کہ امر کے صیغے کا ظاہر ایجاب کے لئے ہوتا ہے اور دلالت کے بغیر اسے کسی اور معنی کی طرف موڑا نہیں جاسکتا۔ قول باری ہے : وانھا لکبیرۃ (اور بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے) اس میں ضمیر مئونث مذکورہ دو باتوں میں سے ایک کی طرف راجع ہے حالانکہ پہلے ان دونوں باتوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : واللہ و رسولہ احق ان یرضوا (حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حق دار تھے کہ یہ لوگ انہیں راضی کرتے) نیز ارشاد ہے : واذا راوجارۃ اولھوان انفقضوا الیھا (جب یہ لوگ کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ ) شاعرکا شعر ہے۔ فمن یک امسی بالمدینۃ رحلہ فانی وقیار بھا لغریب جس شخص کا کجا وہ مدینہ میں ٹک گیا ہے ، یعنی وہ اس شہر میں رہائش پذیر ہوگیا ہے تو وہ وہاں رہائش پذیر ہوگیا لیکن جہاں تک میرا اور قیار کا تعلق ہے تو ہم اس شہر میں اجنبی اور مسافر ہیں۔ )
Top