Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور مدد چاہو صبر اور نماز سے اور بیشک یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں
لفظ صلوٰۃ کی تحقیق بقرہ کی آیت ۳ کی تفسیر کرتے ہوے بیا ن ہو چکی ہے اس وجہ سے یہاں ہم صرف لفظ صبر کی تحقیق پر کفایت کریں گے۔ لفظ صبر کے اصل معنی روکنے کے ہیں یعنی نفس کو گھبراہٹ، مایوسی اور دل برداشتگی سے بچا کر اپنے موقف پر جمائے رکھنا۔ قرآن مجید میں اسی حقیقت نے کچھ زیادہ پاکیزہ صورت اختیار کر لی ہے۔ یعنی قرآن میں عموماً اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ بندہ پوری طمانیت قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عہد پر ڈٹا رہے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھے اور اس راہ میں اس کو جن مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑے ان کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہ دے۔ صبر کا مفہوم لوگ عام طور پر عجزومسکنت سمجھتے ہیں لیکن لغت عرب اور استعمالات قرآن میں اس کا یہ مفہوم نہیں ہے۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر سورہ والعصر میں کلام عرب کی روشنی میں اس عام خیال کی تردید مندرجہ ذیل الفاظ میں فرماتے ہیں: “لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عربوں کے نزدیک صبر عجزوتذلل کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے جو بے بسوں اور درماندوں کا شیوا ہے بلکہ یہ عزم اور قوت کی بنیاد ہے کلام عرب میں اس کا استعمال بہت ہے اور اس کے تمام استعمالات سے اسی مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ حاتم طائی کہتا ہے: وغمرۃ موت لیس فیھا ھوادۃ یکون صدور المشرفی جسورھا اور موت و ہلاکت کے کتنے ہولناک دریا ہیں جن پر تلواروں کے پل ہیں۔ صبرنالہ فی نھکھا ومصابھا باسیافناحتٰی یبوخ سعیرھا ہم نے ان کے تمام آفات و شدائد کے مقابل اپنی تلواروں کے ساتھ ثابت قدمی دکھلائی۔ یہاں تک کہ وہ ٹھنڈے پڑ گئے۔ اصبغ کا شعر ہے۔ یا ابن الجحاجحۃ المدارہ والصابرین علی المکارہ اے شریف سرداروں اور شدائد پر صبر کرنے والوں کی اولاد۔ زہیر بن ابی سلمیٰ نے کہا ہے کہ۔ قود الجیاد واصھار الملوک وصبر فی مواطن لوکانوا بھا سئموا اصیل گھوڑوں کی سواری، پادشاہوں کی دامادی اور ایسے مورچوں میں ثابت قدمی جہاں دوسرے ہمت ہار بیٹھیں۔ صبر کے اصلی معنی قرآن مجید نے خود بھی واضح کر دئیے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے: وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ (۱۷۷ بقرہ) اور ثابت قدمی دکھانے والے سختی میں، تکلیف میں اور لڑائی کے وقت۔ اس آیت میں صبر کے تین موقعے ذکر کئے ہیں۔ غربت، بیماری اور جنگ۔ غور کیجئے تو تمام مصائب وشدائد کے سرچشمے یہی تین ہیں۔ اوپر عہد الہٰی کو ازسر نو استوار کرنے کے لئے بنی اسرائیل کو جن باتوں کا حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے ان کا اختیار کرنا یا ان سے بچنا نفس کے لئے نہایت شاق ہے اس وجہ سے وہ نسخہ بھی بتا دیا ہے جو اس مشکل کام کو آسان بنا سکتا ہے۔ یہ نسخہ صبر اور نماز کے دو جزوں پر مشتمل ہے۔ ان دوچیزوں کے اختیار کرنے سے نفس کے لئے یہ چڑھائی آسان ہو جاتی ہے۔ صبر کا تعلق اخلاق وکردار سے ہے اور نماز کا تعلق عبادات سے ہے۔ انسان کے اندر اگر مشکلات وموانع کے علی الرغم حق پر ڈٹے رہنے کی خصلت موجود نہ ہو تو وہ دنیا میں کوئی اعلی کام تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا، لیکن مشکلات وموانع کے علی الرغم کسی صحیح موقف پر ڈٹے رہنے کی خصلت انسان کے اندر آسانی سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ ریاضت سے پیدا ہوتی ہے جس کا طریقہ نماز ہے۔ آدمی اگر ایک صحیح راہ پر چلنے کا عزم کر لے اور اس پر چل کھڑا ہو اور ساتھ ہی برابر اپنے رب کو یاد رکھے اور اس سے مدد مانگتا رہے (جس کی بہترین شکل نماز ہے) تو اس کے عزم کی قوت ہزار گنی بڑھ جاتی ہے، کوئی مشکل سے مشکل حالت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے نہیں دیتی، اگر حالات کی نزاکت سے آدمی کے پاوں لڑکھڑانے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا وہ تعلق جو نماز کے واسطہ سے قائم ہوتا ہے، اس کو گرنے سے بچا لیتا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں صبر کا جو حکم دیا ہے وہ اس لئے دیا ہے کہ اس وصف کو پیدا کئے بغیر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے عہد پر قائم نہیں رہ سکتی اور نماز کا حکم اس لئے دیا ہے کہ یہی چیز صبر کے پیدا کرنے، اس کو ترقی دینے اور اس کو درجہ کمال تک پہنچانے کا وسیلہ وذریعہ ہے۔ آگے ان آیات پر تدبر کے سلسلہ میں چونکہ اس مسئلہ پر ہم تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے اس وجہ سے یہاں صرف اشارہ پر کفایت کرتے ہیں۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے، اگرچہ اس کو ہم نے اختیار نہیں کیا ہے لیکن ہے وہ نہایت لطیف۔ آگے ہم اس کی وضاحت کریں گے۔ وَاِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلْخَٰشِعِينَ: اس ٹکڑے میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ“وَاِنَّهَا”میں“ھَا”کا مرجع کیا ہے؟ مجاہد کے نزدیک اس کا مرجع صلوٰۃ ہے۔ اسی قول کو امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ترجیح دی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ نماز نفس پر بہت بھاری ہے۔ صرف وہی لوگ اس بارگراں کو اٹھا سکتے ہیں جن کے اندر خدا کا خوف ہو اور جن کے دل آخرت کی بازپرس کے ڈر سے ہروقت خدا کے آگے جھکے رہتے ہوں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس کا مرجع وہ ہدایت ونصیحت ہے جو پچھلے جملہ میں مذکور ہوئی ہے۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ پہلے قول کے حق میں ہیں اور اس کی تائید میں انہوں نے چند دلیلیں بھی پیش کی ہیں ان کے نزدیک یہاں“صبر”کو نظر انداز کر کے، صرف نماز کے بھاری ہونے اور مشکل ہونے کے ذکر کرنے کی تین وجہیں ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ صبر کا شاق اورگراں ہونا بالکل واضح تھا اس وجہ سے اس کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی مثال وہ آیت وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ؂۱ (مدد چاہو صبر اور نماز کے ذریعہ سے، بے شک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے۔ ۱۵۳ بقرہ) پیش کرتے ہیں کہ اس میں یہ فرمایا کہ اللہ صابروں کے ساتھ ہے، یہ نہیں فرمایا کہ نماز پڑھنے والوں کےساتھ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز میں اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہونا اس قدر واضح ہے کہ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح صبر کا مشقت طلب ہونا چونکہ واضح تھا اس وجہ سے اس کا ذکر نہیں کیا، صرف نماز کا ذکر کیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صبر نماز کے لازمی شرائط میں سے ہے۔ صرف وہی لوگ نماز پر قائم رہ سکتے ہیں جن کے اندر صبر کی خصلت موجود ہے۔ نماز کی اس خصوصیت کو سامنے رکھ کر غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ جب یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ نماز ایک بھاری اور مشکل چیز ہے تو گویا اس کے بھاری اور مشکل ہونے کے پہلو کی طرف خودبخود اشارہ ہو گیا کہ یہ اس وجہ سے بھاری اور مشکل ہے کہ اس کے لئے صبر درکار ہے۔ اس اشارہ نے صبر کے تصریح کےساتھ ذکر کرنے کی ضرورت سے مستغنی کر دیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ صبر کا ایک سخت چیز ہونا چونکہ واضح ہے اس وجہ سے اس کی سختی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا حکم دینا مخاطب کی طبیعت پر گراں گزرتا اس وجہ سے اس کی سختی کا حوالہ نہیں دیا۔ صرف نماز کی سختی کا حوالہ دیا جو بہ ظاہر ایک آسان چیز ہے۔ یہ نکتے اگرچہ نہایت لطیف ہیں اور ان سے زیر بحث آیات کے بعض نہایت اہم گوشے روشنی میں آتے ہیں لیکن میرا اپنا رجحان دوسرے قول کی طرف ہے۔ یعنی“ھا”کا مرجع میرے نزدیک صبر و صلوٰۃ سے استعانت کی وہ تلقین ہے جو اوپر والے ٹکڑے میں وارد ہوئی ہے۔ عربی زبان اور قرآن مجید میں اس اسلوب بیان کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ ہم قرآن مجید سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فرمایا۔ وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا یُلَقَّاہَا اِلَّا الصَّابِرُوْنَ (۸۰ قصص) اور جن لوگوں کو علم عطا ہوا تھا انہوں نے کہا، تمہارا برا ہو، اللہ کا اجر ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کے لئے ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے لیکن ایمان اور عمل صالح کا مرتبہ عطا نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو صبر کرنے والے ہوں۔ دوسری جگہ فرمایا ہے۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (34) وَمَا یُلَقّٰہَا اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَا اِلَّا ذُوْ حَظِّ عَظِیْمٍ (۳۴۔۳۵ حٰم السجدہ) اور بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہو سکتیں، تم ان کی برائی کو بھلائی سے دفع کرو تو تم دیکھو گے کہ جس کے درمیان اور تمہارے درمیان شدید عداوت ہے، وہ تمہارا سرگرم حامی بن گیا ہے اور یہ حکمت نہیں عطا ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کریں اور یہ دانش نہیں ملتی مگر نصیبہ ور کو۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ مذکور بالا آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ ای وما یلقی ھٰذہ الوصیۃ الا الذین صبروا وما یلقا ھا ای یوتا ھا ویلھمھا الا ذوحظ عظیم- یعنی یہ ہدایت نہیں عطا ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرنے والے ہوں وما یلقٰھا کے معنی ہیں کہ یہ ہدایت نہیں ملتی یا نہیں الہام ہوتی مگر ان کو جو بڑے نصیب والے ہوں۔ اس قول کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں“ھا”کی ضمیر کا تعلق صرف نماز سے نہیں رہ جاتا بلکہ صبر اور نماز دونوں سے ہو جاتا ہے۔ یہ بات عربی زبان کے قواعد کے بھی مطابق ہے اور اصل حقیقت کے بھی، کیوں کہ نفس پر شاق درحقیقت یہ دونوں ہی چیزیں ہیں۔ صبر کے مشکل ہونے میں تو کسی کو کلام ہو ہی نہیں سکتا۔ نماز بھی مداومت اور پابندی کی شرط کے ساتھ اتنی سخت چیز بن جاتی ہے کہ اہل توفیق ہی ہیں جو اس کو نباہ سکتے ہیں۔ لَكَبِيۡرَةٌ: کبرۃ کے معنی یہاں بھاری، ثقیل اور شاق کے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسرے مواقع پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ (۱۴۳ بقرہ) بے شک بھاری چیز ہے مگر ان کے لئے جن کو خدا ہدایت دے دے- وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْْکَ اِعْرَاضُہُمْ (۳۵ انعام) اور اگر ان کا اعراض تم پر گراں گزر رہا ہے۔ اِلَّا عَلَى ٱلْخَٰشِعِينَ: خشوع کی اصل حقیقت پستی اور فروتنی اور عجز وتدلل ہے۔ آواز پست ہو تو یہ لفظ اس کے لئے بھی بولا جائے گا، نگاہ جھکی ہوئی ہو تو اس کے لئے بھی بولا جائے گا۔ اونٹ کا کوہان لاغری کے سبب سے بیٹھ جائے تو اس کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہو گا۔ اوپر عہد الہٰی پر استوار رہنے کے لئے صبر اورنماز سے استعانت کی جو نصیحت کی گئی ہے اس کے متعلق یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ راہ سہل انہی کے لئے ہے جن میں خشوع ہو، جو خدا سے ڈرنے والے ہوں، جو غروروسرکشی کی بیماری سے پاک ہوں اور جن کے دل خدا کے حضور جواب دہی کے تصور سے ہر وقت اندیشہ ناک رہتے ہوں۔ وہ لوگ اس راہ پر نہیں چل سکتے جن کے سینے خوف خدا سے خالی ہوں، جو قومی و نسلی غرور کے گھمنڈ میں مبتلا ہوں اور جو خدا اور آخرت سے زیادہ اپنی امارت وسیادت کی ساکھ جمائے رکھنے کی فکروں میں مبتلا ہوں۔ یہ خشوع صبر اور نماز دونوں کی بنیاد ہے۔ صبر سے یہاں مراد، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، ہر طرح کے مصائب وشدائد اور ہر قسم کے ایذاواستخفاف کے باوجود خدا کے عہد پر جمے رہنا ہے اور یہ بات وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل پر خدا کی ایسی ہیبت وعظمت طاری ہو کہ اس کے مقابل میں ہر مصیبت وذلت اس کو اَہۡوَن معلوم ہوتی ہو۔ اسی طرح نماز کے متعلق ہر صاحب علم پر یہ حقیقت واضح ہے کہ اس کی بنیاد ہی خشوع وخضوع پر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے۔ مثلاً۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلٰوتِہِمْ خَاشِعُوْنَ (۱۔۲ مومنون) ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیں۔ دوسرے مقام میں ہے: وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ (۹۰ انبیاء) وہ ہمیں پکارتے ہیں امید وبیم کے ساتھ اور وہ ہم سے عاجزی کرنے والے ہیں۔
Top