Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا
: اور تم مدد حاصل کرو
بِالصَّبْرِ
: صبر سے
وَالصَّلَاةِ
: اور نماز
وَاِنَّهَا
: اور وہ
لَکَبِیْرَةٌ
: بڑی (دشوار)
اِلَّا
: مگر
عَلَى
: پر
الْخَاشِعِیْنَ
: عاجزی کرنے والے
اور مدد چاہو صبر اور نماز سے اور بیشک یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں
لفظ صلوٰۃ کی تحقیق بقرہ کی آیت ۳ کی تفسیر کرتے ہوے بیا ن ہو چکی ہے اس وجہ سے یہاں ہم صرف لفظ صبر کی تحقیق پر کفایت کریں گے۔ لفظ صبر کے اصل معنی روکنے کے ہیں یعنی نفس کو گھبراہٹ، مایوسی اور دل برداشتگی سے بچا کر اپنے موقف پر جمائے رکھنا۔ قرآن مجید میں اسی حقیقت نے کچھ زیادہ پاکیزہ صورت اختیار کر لی ہے۔ یعنی قرآن میں عموماً اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ بندہ پوری طمانیت قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عہد پر ڈٹا رہے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھے اور اس راہ میں اس کو جن مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑے ان کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہ دے۔ صبر کا مفہوم لوگ عام طور پر عجزومسکنت سمجھتے ہیں لیکن لغت عرب اور استعمالات قرآن میں اس کا یہ مفہوم نہیں ہے۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر سورہ والعصر میں کلام عرب کی روشنی میں اس عام خیال کی تردید مندرجہ ذیل الفاظ میں فرماتے ہیں: “لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عربوں کے نزدیک صبر عجزوتذلل کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے جو بے بسوں اور درماندوں کا شیوا ہے بلکہ یہ عزم اور قوت کی بنیاد ہے کلام عرب میں اس کا استعمال بہت ہے اور اس کے تمام استعمالات سے اسی مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ حاتم طائی کہتا ہے: وغمرۃ موت لیس فیھا ھوادۃ یکون صدور المشرفی جسورھا اور موت و ہلاکت کے کتنے ہولناک دریا ہیں جن پر تلواروں کے پل ہیں۔ صبرنالہ فی نھکھا ومصابھا باسیافناحتٰی یبوخ سعیرھا ہم نے ان کے تمام آفات و شدائد کے مقابل اپنی تلواروں کے ساتھ ثابت قدمی دکھلائی۔ یہاں تک کہ وہ ٹھنڈے پڑ گئے۔ اصبغ کا شعر ہے۔ یا ابن الجحاجحۃ المدارہ والصابرین علی المکارہ اے شریف سرداروں اور شدائد پر صبر کرنے والوں کی اولاد۔ زہیر بن ابی سلمیٰ نے کہا ہے کہ۔ قود الجیاد واصھار الملوک وصبر فی مواطن لوکانوا بھا سئموا اصیل گھوڑوں کی سواری، پادشاہوں کی دامادی اور ایسے مورچوں میں ثابت قدمی جہاں دوسرے ہمت ہار بیٹھیں۔ صبر کے اصلی معنی قرآن مجید نے خود بھی واضح کر دئیے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے: وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ (۱۷۷ بقرہ) اور ثابت قدمی دکھانے والے سختی میں، تکلیف میں اور لڑائی کے وقت۔ اس آیت میں صبر کے تین موقعے ذکر کئے ہیں۔ غربت، بیماری اور جنگ۔ غور کیجئے تو تمام مصائب وشدائد کے سرچشمے یہی تین ہیں۔ اوپر عہد الہٰی کو ازسر نو استوار کرنے کے لئے بنی اسرائیل کو جن باتوں کا حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے ان کا اختیار کرنا یا ان سے بچنا نفس کے لئے نہایت شاق ہے اس وجہ سے وہ نسخہ بھی بتا دیا ہے جو اس مشکل کام کو آسان بنا سکتا ہے۔ یہ نسخہ صبر اور نماز کے دو جزوں پر مشتمل ہے۔ ان دوچیزوں کے اختیار کرنے سے نفس کے لئے یہ چڑھائی آسان ہو جاتی ہے۔ صبر کا تعلق اخلاق وکردار سے ہے اور نماز کا تعلق عبادات سے ہے۔ انسان کے اندر اگر مشکلات وموانع کے علی الرغم حق پر ڈٹے رہنے کی خصلت موجود نہ ہو تو وہ دنیا میں کوئی اعلی کام تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا، لیکن مشکلات وموانع کے علی الرغم کسی صحیح موقف پر ڈٹے رہنے کی خصلت انسان کے اندر آسانی سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ ریاضت سے پیدا ہوتی ہے جس کا طریقہ نماز ہے۔ آدمی اگر ایک صحیح راہ پر چلنے کا عزم کر لے اور اس پر چل کھڑا ہو اور ساتھ ہی برابر اپنے رب کو یاد رکھے اور اس سے مدد مانگتا رہے (جس کی بہترین شکل نماز ہے) تو اس کے عزم کی قوت ہزار گنی بڑھ جاتی ہے، کوئی مشکل سے مشکل حالت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے نہیں دیتی، اگر حالات کی نزاکت سے آدمی کے پاوں لڑکھڑانے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا وہ تعلق جو نماز کے واسطہ سے قائم ہوتا ہے، اس کو گرنے سے بچا لیتا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں صبر کا جو حکم دیا ہے وہ اس لئے دیا ہے کہ اس وصف کو پیدا کئے بغیر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے عہد پر قائم نہیں رہ سکتی اور نماز کا حکم اس لئے دیا ہے کہ یہی چیز صبر کے پیدا کرنے، اس کو ترقی دینے اور اس کو درجہ کمال تک پہنچانے کا وسیلہ وذریعہ ہے۔ آگے ان آیات پر تدبر کے سلسلہ میں چونکہ اس مسئلہ پر ہم تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے اس وجہ سے یہاں صرف اشارہ پر کفایت کرتے ہیں۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے، اگرچہ اس کو ہم نے اختیار نہیں کیا ہے لیکن ہے وہ نہایت لطیف۔ آگے ہم اس کی وضاحت کریں گے۔ وَاِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلْخَٰشِعِينَ: اس ٹکڑے میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ“وَاِنَّهَا”میں“ھَا”کا مرجع کیا ہے؟ مجاہد کے نزدیک اس کا مرجع صلوٰۃ ہے۔ اسی قول کو امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ترجیح دی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ نماز نفس پر بہت بھاری ہے۔ صرف وہی لوگ اس بارگراں کو اٹھا سکتے ہیں جن کے اندر خدا کا خوف ہو اور جن کے دل آخرت کی بازپرس کے ڈر سے ہروقت خدا کے آگے جھکے رہتے ہوں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس کا مرجع وہ ہدایت ونصیحت ہے جو پچھلے جملہ میں مذکور ہوئی ہے۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ پہلے قول کے حق میں ہیں اور اس کی تائید میں انہوں نے چند دلیلیں بھی پیش کی ہیں ان کے نزدیک یہاں“صبر”کو نظر انداز کر کے، صرف نماز کے بھاری ہونے اور مشکل ہونے کے ذکر کرنے کی تین وجہیں ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ صبر کا شاق اورگراں ہونا بالکل واضح تھا اس وجہ سے اس کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی مثال وہ آیت وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ۱ (مدد چاہو صبر اور نماز کے ذریعہ سے، بے شک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے۔ ۱۵۳ بقرہ) پیش کرتے ہیں کہ اس میں یہ فرمایا کہ اللہ صابروں کے ساتھ ہے، یہ نہیں فرمایا کہ نماز پڑھنے والوں کےساتھ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز میں اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہونا اس قدر واضح ہے کہ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح صبر کا مشقت طلب ہونا چونکہ واضح تھا اس وجہ سے اس کا ذکر نہیں کیا، صرف نماز کا ذکر کیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صبر نماز کے لازمی شرائط میں سے ہے۔ صرف وہی لوگ نماز پر قائم رہ سکتے ہیں جن کے اندر صبر کی خصلت موجود ہے۔ نماز کی اس خصوصیت کو سامنے رکھ کر غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ جب یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ نماز ایک بھاری اور مشکل چیز ہے تو گویا اس کے بھاری اور مشکل ہونے کے پہلو کی طرف خودبخود اشارہ ہو گیا کہ یہ اس وجہ سے بھاری اور مشکل ہے کہ اس کے لئے صبر درکار ہے۔ اس اشارہ نے صبر کے تصریح کےساتھ ذکر کرنے کی ضرورت سے مستغنی کر دیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ صبر کا ایک سخت چیز ہونا چونکہ واضح ہے اس وجہ سے اس کی سختی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا حکم دینا مخاطب کی طبیعت پر گراں گزرتا اس وجہ سے اس کی سختی کا حوالہ نہیں دیا۔ صرف نماز کی سختی کا حوالہ دیا جو بہ ظاہر ایک آسان چیز ہے۔ یہ نکتے اگرچہ نہایت لطیف ہیں اور ان سے زیر بحث آیات کے بعض نہایت اہم گوشے روشنی میں آتے ہیں لیکن میرا اپنا رجحان دوسرے قول کی طرف ہے۔ یعنی“ھا”کا مرجع میرے نزدیک صبر و صلوٰۃ سے استعانت کی وہ تلقین ہے جو اوپر والے ٹکڑے میں وارد ہوئی ہے۔ عربی زبان اور قرآن مجید میں اس اسلوب بیان کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ ہم قرآن مجید سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فرمایا۔ وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا یُلَقَّاہَا اِلَّا الصَّابِرُوْنَ (۸۰ قصص) اور جن لوگوں کو علم عطا ہوا تھا انہوں نے کہا، تمہارا برا ہو، اللہ کا اجر ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کے لئے ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے لیکن ایمان اور عمل صالح کا مرتبہ عطا نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو صبر کرنے والے ہوں۔ دوسری جگہ فرمایا ہے۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (34) وَمَا یُلَقّٰہَا اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَا اِلَّا ذُوْ حَظِّ عَظِیْمٍ (۳۴۔۳۵ حٰم السجدہ) اور بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہو سکتیں، تم ان کی برائی کو بھلائی سے دفع کرو تو تم دیکھو گے کہ جس کے درمیان اور تمہارے درمیان شدید عداوت ہے، وہ تمہارا سرگرم حامی بن گیا ہے اور یہ حکمت نہیں عطا ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کریں اور یہ دانش نہیں ملتی مگر نصیبہ ور کو۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ مذکور بالا آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ ای وما یلقی ھٰذہ الوصیۃ الا الذین صبروا وما یلقا ھا ای یوتا ھا ویلھمھا الا ذوحظ عظیم- یعنی یہ ہدایت نہیں عطا ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرنے والے ہوں وما یلقٰھا کے معنی ہیں کہ یہ ہدایت نہیں ملتی یا نہیں الہام ہوتی مگر ان کو جو بڑے نصیب والے ہوں۔ اس قول کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں“ھا”کی ضمیر کا تعلق صرف نماز سے نہیں رہ جاتا بلکہ صبر اور نماز دونوں سے ہو جاتا ہے۔ یہ بات عربی زبان کے قواعد کے بھی مطابق ہے اور اصل حقیقت کے بھی، کیوں کہ نفس پر شاق درحقیقت یہ دونوں ہی چیزیں ہیں۔ صبر کے مشکل ہونے میں تو کسی کو کلام ہو ہی نہیں سکتا۔ نماز بھی مداومت اور پابندی کی شرط کے ساتھ اتنی سخت چیز بن جاتی ہے کہ اہل توفیق ہی ہیں جو اس کو نباہ سکتے ہیں۔ لَكَبِيۡرَةٌ: کبرۃ کے معنی یہاں بھاری، ثقیل اور شاق کے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسرے مواقع پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ (۱۴۳ بقرہ) بے شک بھاری چیز ہے مگر ان کے لئے جن کو خدا ہدایت دے دے- وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْْکَ اِعْرَاضُہُمْ (۳۵ انعام) اور اگر ان کا اعراض تم پر گراں گزر رہا ہے۔ اِلَّا عَلَى ٱلْخَٰشِعِينَ: خشوع کی اصل حقیقت پستی اور فروتنی اور عجز وتدلل ہے۔ آواز پست ہو تو یہ لفظ اس کے لئے بھی بولا جائے گا، نگاہ جھکی ہوئی ہو تو اس کے لئے بھی بولا جائے گا۔ اونٹ کا کوہان لاغری کے سبب سے بیٹھ جائے تو اس کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہو گا۔ اوپر عہد الہٰی پر استوار رہنے کے لئے صبر اورنماز سے استعانت کی جو نصیحت کی گئی ہے اس کے متعلق یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ راہ سہل انہی کے لئے ہے جن میں خشوع ہو، جو خدا سے ڈرنے والے ہوں، جو غروروسرکشی کی بیماری سے پاک ہوں اور جن کے دل خدا کے حضور جواب دہی کے تصور سے ہر وقت اندیشہ ناک رہتے ہوں۔ وہ لوگ اس راہ پر نہیں چل سکتے جن کے سینے خوف خدا سے خالی ہوں، جو قومی و نسلی غرور کے گھمنڈ میں مبتلا ہوں اور جو خدا اور آخرت سے زیادہ اپنی امارت وسیادت کی ساکھ جمائے رکھنے کی فکروں میں مبتلا ہوں۔ یہ خشوع صبر اور نماز دونوں کی بنیاد ہے۔ صبر سے یہاں مراد، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، ہر طرح کے مصائب وشدائد اور ہر قسم کے ایذاواستخفاف کے باوجود خدا کے عہد پر جمے رہنا ہے اور یہ بات وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل پر خدا کی ایسی ہیبت وعظمت طاری ہو کہ اس کے مقابل میں ہر مصیبت وذلت اس کو اَہۡوَن معلوم ہوتی ہو۔ اسی طرح نماز کے متعلق ہر صاحب علم پر یہ حقیقت واضح ہے کہ اس کی بنیاد ہی خشوع وخضوع پر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے۔ مثلاً۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلٰوتِہِمْ خَاشِعُوْنَ (۱۔۲ مومنون) ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیں۔ دوسرے مقام میں ہے: وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ (۹۰ انبیاء) وہ ہمیں پکارتے ہیں امید وبیم کے ساتھ اور وہ ہم سے عاجزی کرنے والے ہیں۔
Top