Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور صبر اور نماز کا سہارا پکڑو اور البتہ نماز شاق ہے مگر ان پر نہیں جو عاجزی کرتے ہیں
[38] '' لفظ صبر '' کے اصل معنی روکنے کے ہیں یعنی نفس کو گھبراہٹ، مایوسی اور دل برداشتگی سے بچا کر اپنے موقف پر جمائے رکھنا۔ اس کا قرآنی مفہوم یہ ہے کہ بندہ پوری طمانیّتِ قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عہد پر ڈٹا رہے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھے اور راہ حق میں اس کو جن مشکلات سے بھی دوچار ہونا پڑے ان کو ذرہ برابر بھی وقعت نہ دے۔ صبر کے اصل معنی قرآن نے خود بھی واضح کردیئے ہیں، چناچہ سورة بقرہ میں فرمایا (وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ 177۔ ) 2 ۔ البقرة :177) (177) (اور ثابت قدمی دکھانے والے سختی میں تکلیف میں اور لڑائی کے وقت) یہاں صبر کے تین مواقع کا ذکر کیا گیا ہے یعنی غربت، بیماری اور جنگ، غور کیجئے تو تمام مصائب و شدائد کے سرچشمے یہی تین ہیں۔ ان سے بچنا نفس کے لئے نہایت شاق ہے اس لئے وہ نسخہ بھی بتادیا ہے جو اس مشکل کام کو آسان بنا سکتا ہے۔ یہ نسخہ صبر اور نماز کے دو جزوں پر مشتمل ہے۔ صبر کا تعلق اخلاق و کردار سے اور نماز کا تعلق عبادات سے ہے۔ انسان کے اندر مشکلات کے خلاف حق پر ڈٹے رہنے کی صفت موجود نہ ہو تو وہ کوئی اعلیٰ کام تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا، لیکن مشکلات و موانع کے خلاف کسی صحیح موقف پر ڈٹے رہنے کی صفت انسان کے اندر آسانی سے نہیں پیدا ہوتی بلکہ ریاضت سے پیدا ہوتی ہے جس کا طریقہ نماز ہے۔ آدمی اگر ایک صحیح راہ پر چلنے کا عزم کرلے اور اس پر چل کھڑا ہو اور ساتھ ہی برابر اپنے رب کو یاد رکھے اور اس سے مدد مانگتا رہے (جس کی بہترین شکل نماز ہے) تو اس کے عزم کی قوت ہزار گنا بڑھ جاتی ہے اور کوئی مشکل سے مشکل حالت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے نہیں دیتی۔ اگر حالات کی نزاکت سے آدمی کے پاؤں لڑکھڑانے لگیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا وہ تعلق جو نماز کے واسطے سے قائم ہوا ہے اس کو گرنے سے بچا لیتا ہے۔
Top