Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور مدد مانگو تم اپنے (رب سے) صبر اور نماز کے ذریعے2 بیشک یہ نماز بڑی بھاری ہے مگر ان عاجزی کرنے والوں پر
135 مدد ہمیشہ اللہ ہی سے مانگنے کی تعلیم و تلقین : کہ مدد دینے والا بہرحال وہی وحدہ لاشریک ہے، جیسا کہ مشہور حدیث میں فرمایا گیا ۔ " اِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہ وَاِذَا سأَلْتَ فَاسْأَل اللّٰہَ " ۔ " جب تم مدد مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب تم سوال کرو تو اللہ ہی سے کرو " ۔ اسی لئے مومن کو تعلیم دی گئی کہ وہ اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں اپنے رب کے حضور اپنی عرض والتجاء اس طرح پیش کرے۔ { اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } ۔ کہ " مالک ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، اور مانگتے رہیں گے "۔ پھر یہاں پر جیسا کہ سورة فاتحہ کی تفسیر میں بھی گزر چکا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ مدد و استعانت کی دو صورتیں ہیں " ماتحت الاسباب “ اور " مافوق الاسباب "۔ ماتحت الا سباب سے مراد وہ مدد ہے جو عام دنیوی اسباب و وسائل کے دائرہ میں ہو۔ جیسے کسی سے قرض لینا، کسی کو کسی کام کے لئے کہنا، ڈاکٹر سے دوالینا وغیرہ۔ تو یہ مدد جب اسباب کے درجے میں ہی ہو تو دوسروں سے لینا جائز ہے، کہ اس عالم اسباب کا مزاج و تقاضا یہی ہے۔ اور دین حق نے اس بارے اپنی پاکیزہ تعلیمات میں بھی یہی درس دیا ہے، اور ہمارے پیغمبر ﷺ نے عملی طور پر بھی یہ سب کچھ ہمیں کرکے بتلایا ہے ۔ صَلوَات اللّٰہ وَسَلاَمُہُ عَلَیْہ ۔ البتہ اس ضمن میں دین حق نے ہمیں یہ بھی سکھایا اور بتایا ہے کہ اس سلسلے میں بھی اصل نظر اسباب پر نہیں، بلکہ مسبب الاسباب پر ہونی چاہیئے کہ سب کچھ اسی وحدہ لاشریک کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ جب کہ استمداد و استعانت کی دوسری قسم جو کہ عام اسباب سے ہٹ کر اور مافوق الاسباب طریقے سے ہو، وہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفت اور اسی کا خاصہ ہے۔ اس کے سوا اور کوئی ایسی مدد نہ کرسکتا ہے، اور نہ ہی اسطرح کی کوئی مدد مخلوق میں سے کسی سے مانگنا جائز ہے۔ پس غائبانہ کسی کو مدد کے لئے پکارنا، یا کسی فوت شدہ ہستی سے مدد مانگنا خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہستی کیوں نہ ہو، یا کسی آستانہ اور قبر پر جھکنا اور وہاں کے پھیرے لگانا، وغیرہ سب ناجائز اور شرک ہے۔ وَالْعِیَاذ باللَّہ الْعَظِیْمِ ۔ پس مومن صادق کے عقیدہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دل کا بھروسہ و اعتماد بھی اللہ وحدہ لاشریک ہی پر رکھے، اور مدد و امداد بھی ہمیشہ اسی سے مانگے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کہ وہی ہے ہر کسی کی مدد کرنے والا اور ہر کسی کی حاجب روائی اور مشکل کشائی فرمانے والا ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 136 صبر وصلوہ کی اہمیت اور عظمت شان کا ذکر وبیان : ۔ سو للہ تعالیٰ کی مدد سے سرفراز ہونے کیلئے یہ دو اہم ذریعے ہیں یعنی صبر اور صلوٰۃ : پس مدد دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے مگر اس سے مدد لینے کے یہ دو عظیم الشان ذریعے اور طریقے ہیں۔ پس جس قدر تم صبر و صلوٰۃ کی پابندی اور اس کا التزام و اہتمام کرو گے، اسی قدر وہ قادر مطلق تمہیں اپنی نصرت و مدد اور عنایات سے نوازتا چلا جائیگا، کہ اس کا کام اور اس کی شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے کہ وہ اکرم الاکرمین ہے۔ پس مدد ہمیشہ اور ہر حال میں اسی وحدہ لاشریک سے مانگی جائے اور اس کے دو بڑے ذریعے یہاں ارشاد فرمائے گئے ہیں، یعنی صبر اور نماز۔ اور صبر کی آگے تین صورتیں ہیں۔ " صبر عن المعصیۃ " یعنی برائی سے رکنا یعنی اس کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ دینا۔ جبکہ اس کی دوسری قسم ہے " صبر علی الطاعۃ " یعنی نیکی اور اطاعت پر جم جانا۔ یعنی اس پر پکا رہے اور استقامت سے کام لے۔ اور تیسری قسم صبر کی ہے " صبر علی المکارہ والمصائب " یعنی تکلیفوں اور مصیبتون پر صبر و برداشت سے کام لینا۔ اور یہ سب کچھ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت کے بغیر ممکن نہیں، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے سرفرازی کا ذریعہ نماز ہے، جو کہ ایک عظیم الشان اور بےمثال عبادت اور رب تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں سے فائز المرام ہونے کا ایک بےمثال ذریعہ و وسیلہ ہے، اس لیے صبر و صلوۃ کے ان دو وسیلوں اور ذریعوں سے رب تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علي ما یحب ویرید۔ 137 خشوع و خضوع کی عظمت شان : ۔ سو خشوع و خضوع کی صفت بڑی عظیم الشان اور اہم صفت ہے اور اسکا اثر و نتیجہ بھی بڑا اہم ہے۔ " خشوع " کا لفظ اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے بھی استعمال ہوتا ہے، اور اس کا اطلاق اقوال و اصوات پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَخَشَعَت الْاَصْوَات للرَّحْمٰن فَلاَ تَسْمَعُ الاَّ ہَمْسًا } ۔ " اور آوازیں [ اس روز ] خدائے رحمن کے حضور ایسی پست ہوجائیں گی کہ تم ایک سرسراہٹ کے سوا کچھ سننے نہیں پاؤ گے "۔ مگر اس کا اصل تعلق دل کے ساتھ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب دل جھک گیا، تو باقی تمام اعضاء وجوارح اور ان سے صادر ہونے والے افعال و اعمال آپ سے آپ جھک پڑیں گے۔ پس معلوم ہوا کہ اپنے خالق ومالک کے حضور صدق دل سے جھک جانا ہی شاہ کلید ہے۔ تمام کامیابیوں اور فائز المرامیوں کی، جیسا کہ سورة حج میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ { وَبَشِّر الْمُخْبِتِیْنَ } ۔ یعنی " خوشبخری سنا دو ان عاجزی کرنے والوں اور صدق دل سے اپنے رب کے حضور جھک جانے والوں کو "، جن کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ یہاں پر یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو یہ خوشخبری کس چیز کی سنائی جائے، اس لئے اس عموم و اطلاق سے یہ بات خود ظاہر ہوجاتی ہے کہ ان کے لئے ہر اچھائی اور ہر خوبی کی خوشخبری ہے۔ پس ایسے " خاشعین " اور " مخبتین " کے لئے نماز ادا کرنا بھاری نہیں، بلکہ ان کیلئے اس کا چھوڑنا اور ترک کرنا بھاری ہوتا ہے، کہ نماز تو ایسوں کے لئے ایک ایسی لذت ہے کہ اس جیسی دوسری کوئی لذت ہو ہی نہیں سکتی، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : " جُعِلَتْ قُرَّۃُُ عَیْنِیْْ فِی الصَّلٰوۃ ِ " ۔ کہ " میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے "۔ اسی لئے آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے ۔ " اَقِم اٰلصَّلٰوۃَ یَا بلالُ اَرِحْنِیْ بِہَا " ۔ " بلال نماز قائم کرکے میرے لئے راحت و آرام کا سامان کرو " جبکہ لذت یقین اور دولت خشوع سے محروم لوگوں کے لئے یہ نماز واقعی ایک کوہ گراں ہوتی ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ اسی لئے اس کو یہاں پر ۔ { وَاِنَّہَا لَکَبِیْرۃٌ } ۔ کے تاکیدی الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے، کہ ایسے لوگوں کیلئے نماز یقینا بڑی ہی بھاری ہے کہ اس میں کئی چیزیں صبر آزما ہیں ۔ " واشتمالہا علی ضروب من الصبر " ۔ ( المحاسن وغیرہ ) ۔
Top