Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 66
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
ھٰٓاَنْتُمْ : ہاں تم ھٰٓؤُلَآءِ : وہ لوگ حَاجَجْتُمْ : تم نے جھگڑا کیا فِيْمَا : جس میں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم فَلِمَ : اب کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْمَا : اس میں لَيْسَ : نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کچھ علم وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا : نہٰیں تَعْلَمُوْنَ : جانتے
دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
بحث ومباحثہ بغیر علم کے فضول ہے قول باری ہے۔ (ھا انتم ھئولاء حاججتم فیمالکم بہ علم فلم تحاجون فیمالیس لکم بہ علم، تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو ان میں تو خوب بحثیں کرچکے ہو اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہوں جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں) حق کی خاطر بحث ومباحثہ کرنے اور دلائل پیش کرنے کی صحت کی یہ آیت سب سے واضح دلیل ہے۔ اس لیئے کہ اگر ہر قسم کے بحث ومباحثہ کی ممانعت ہوتی تو علم کی بنیادپر اور علم کے بغیر بحث ومباحثہ کے درمیان فرق نہ کیا جاتا۔ قول باری (حاججتم فیمالکم بہ علم کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس سے مراد باتیں ہیں جو انہیں اپنی کتابوں سے ملی تھی۔ جس بات کا انہیں علم نہیں تھا تو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ان کا یہ کہنا کہ آپ یہودی یا نصرافی تھے
Top