Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 66
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
ھٰٓاَنْتُمْ : ہاں تم ھٰٓؤُلَآءِ : وہ لوگ حَاجَجْتُمْ : تم نے جھگڑا کیا فِيْمَا : جس میں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم فَلِمَ : اب کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْمَا : اس میں لَيْسَ : نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کچھ علم وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا : نہٰیں تَعْلَمُوْنَ : جانتے
سنتے ہو تم لوگ جھگڑ چکے جس بات میں تم کو کچھ خبر تھی اب کیوں جھگڑتے ہو جس بات میں تم کو کچھ خبر نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے1
1  جیسے دعوائے اسلام و توحید سب میں مشترک تھا اسی طرح حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی تعظیم و تکریم میں بھی سب شریک تھے اور یہود و نصاریٰ میں سے ہر ایک فرقہ دعویٰ کرتا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے دین پر تھے یعنی معاذ اللہ یہودی تھے یا نصرانی، اسکا جواب دیا کہ تورات و انجیل جن کے پیرو یہودی یا نصرانی کہلائے ابراہیم (علیہ السلام) سے سینکڑوں برس بعد اتری۔ پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو نصرانی یا یہودی کیسے کہہ سکتے ہیں بلکہ جس طرح کے تم یہودی یا نصرانی ہو، اس معنی سے تو خود موسیٰ یا عیسیٰ (علیہما السلام) کو بھی یہودی یا نصرانی نہیں کہا جاسکتا۔ اور اگر یہ مطلب ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت ہمارے مذہب سے زیادہ قریب تھی تو یہ بھی غلط ہے۔ اس کا علم تم کو کہاں سے ہوا ؟ تمہاری کتابوں میں مذکور نہیں۔ نہ خدا نے خبر دی نہ تم کوئی ثبوت پیش کرسکتے ہو پھر ایسی بات میں جھگڑنا جس کا کچھ علم آدمی کو نہ ہو حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ جن چیزوں کی تمہیں کچھ تھوڑی بہت خبر تھی گو محض ناتمام اور سرسری تھی مثلا مسیح (علیہ السلام) کے واقعات یا نبی آخرالزماں کی بشارات وغیرہ ان میں تم جھگڑ چکے، لیکن جس چیز سے تمہیں بالکل مس نہیں نہ اسکی کبھی ہوا لگی، اسے تو خدا کے سپرد کردو۔ وہ ہی جانتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کیا تھے اور آج دنیا میں کونسی جماعت کا مسلک اس سے قریب تر ہے۔
Top