Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 66
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
ھٰٓاَنْتُمْ : ہاں تم ھٰٓؤُلَآءِ : وہ لوگ حَاجَجْتُمْ : تم نے جھگڑا کیا فِيْمَا : جس میں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم فَلِمَ : اب کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْمَا : اس میں لَيْسَ : نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کچھ علم وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا : نہٰیں تَعْلَمُوْنَ : جانتے
دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
ھٰٓاَنْتُمْ : کو فیوں کی قراءت پر پڑھا حرف تنبیہ اور انتم ضمیر مذکر مخاطب ہے اور قنبل و درش کی قراءت پر یہ لفظ بغیر مد کے ھَاَنْتم ہے جو اصل میں ءَ اَنْتُمْ تھا جیسے ھَرَقت اصل میں اَرَقْتُ تھا ہمزہ استفہامیہ کو ہ سے بدل دیا اس صورت میں جملہ استفہامیہ انکاریہ ہوگیا اور اوّل صورت میں مخاطب کو غفلت پر تنبیہ ہوگی۔ ھٰٓؤُلَاۗءِ : انتم مبتداء ہے اور ھولاءِ اس کی خبر ہے اور ائندہ جملہ اس جملہ کے مضمون کا بیان ہے۔ یا انتم مبتدا ہے اور حاججتم اس کی خبر اور ھٰولاء منادی ہے اور حرف نداء محذوف ہے یعنی اے لوگو ! تم نے باہم جھگڑا کیا ان امور میں جن کا تم کو علم ہے بعض لوگوں نیھٰؤلاءِ کو موصول کے معنی میں قرار دیا ہے کیونکہ کو فیوں کے نزدیک موصول کی جگہ اسم اشارہ کا استعمال جائز ہے یعنی کیا تم وہی لوگ ہو کہ تم نے جھگڑا کیا۔۔ حَاجَجْتُمْ : تم نے باہم جھگڑا کیا۔ فِيْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ : ان امور میں جن کا تم کو علم ہے یعنی تم نے موسیٰ اور عیسیٰ کے معاملہ میں جھگڑا کیا اور ان کے دین پر ہونے کا دعویٰ کیا حالانکہ تم واقف ہو کہ توریت و انجیل کا دین کیا ہے اور تم نے کتنی تلبیس کی ہے توریت و انجیل میں محمد رسول اللہ کے اوصاف موجود ہیں اور یہ بھی مذکور ہے کہ دین محمدی سے ان کے احکام منسوخ کردیئے جائیں گے مگر تم نے جانتے ہوئے ان باتوں کو چھپایا مگر اللہ نے یہ پردہ چاک کرکے تم کو رسوا کردیا۔ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ : پس اے بیوقوفو ! جو اپنے دعویٰ کی غلطی کی طرف سے غافل ہو تم ان امور میں کیوں جھگڑا کرتے ہو جن کا تم کو کچھ علم نہیں ہے یعنی ابراہیم کے دین و شریعت میں تم کیوں نزاع کرتے ہو وہ تم سے ہزاروں برس پہلے تھے اور توریت و انجیل میں ان کی شریعت کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ : اور ہر نبی پر جو احکام نازل کئے گئے ان کو اللہ ہی جانتا ہے۔ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ : اور تم نہیں جانتے۔ مگر اتنا ہی جتنا تمہاری کتاب میں اللہ نے تم کو بتادیا۔ بلکہ تم کو کچھ علم ہی نہیں کیونکہ جو کچھ اللہ نے کتاب میں نازل کیا تھا اس کو تم نے چھوڑ دیا اور اللہ کی کتاب کو پس پشت پھینک دیا۔ یہاں تک کہ تم محمد ﷺ پر ایمان نہ لائے حالانکہ اللہ تم سے اس کا پختہ وعدہ لے چکا تھا پس اس مناظرہ بازی میں بھی تم کو رسوائی ہوگی کیونکہ تم جاہل ہو اور جاہل عالم سے مناظرہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس آیت میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ رسول اللہ کی طرف سے دین ابراہیم (علیہ السلام) کے سلسلہ میں مناظرہ صحیح ہے کیونکہ اللہ کے بتانے سے آپ کو دین ابراہیم (علیہ السلام) کا علم ہوگیا تھا۔
Top