Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 66
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
ھٰٓاَنْتُمْ : ہاں تم ھٰٓؤُلَآءِ : وہ لوگ حَاجَجْتُمْ : تم نے جھگڑا کیا فِيْمَا : جس میں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم فَلِمَ : اب کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْمَا : اس میں لَيْسَ : نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کچھ علم وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا : نہٰیں تَعْلَمُوْنَ : جانتے
دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
آیت نمبر : 66۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ھانتم ھولاء حاججتم “۔ یعنی تم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بارے میں جھگڑتے ہو کیونکہ وہ آپ ﷺ کی ان صفات کو جانتے تھے جو وہ اپنی کتاب میں پاتے تھے پس آپ کے بارے میں انہوں نے باطل اور غلط جھگڑا کیا۔ (آیت) ” فلم تحاجون فیما لیس لکم بہ علم “۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے اس دعوی پر کہ وہ یہودی تھے یا عیسائی (کیوں جھگڑنے لگے ہو جبکہ تمہیں اس بارے کچھ علم ہی نہیں) (آیت) ” ھآنتم “۔ دراصل أأنتم تھا اس میں پہلے ہمزہ کو ھا سے بدل دیا گیا کیونکہ یہ اس کی اخت ہے، ابو عمرو بن العلاء اور اکفش سے یہی منقول ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ اچھا اور حسین قول ہے، اور قنبل نے ابن کثیر سے ھانتم، ھعنتم کی مثل نقل کیا ہے اور اس سے احسن یہ ہے کہ ھا ہمزہ سے بدل کر آئی ہو اور اس کی اصل أأنتم ہو، اور یہ بھی جائز ہے کہ ھا تنبیہ کے لئے ہو اور یہ انتم پر داخل ہوئی ہو اور الف کو کثرت استعمال کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہو، اور ھؤلاء میں دو لغتیں ہیں یعنی مد اور قصر اور عربوں میں سے بعض اسے قصر کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ابو حاتم نے کہا ہے : لعمرک انا والاحالیف ھاؤلا لفی محنۃ اظفارھا لم تقلم۔ اس میں ھاؤ لاکو قصر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اور یہاں ھؤلاء محل نداء میں واقع ہے یعنی یا ھؤلاء، اور ھولاء کو انتم کی خبر بنانا بھی جائز ہے، اس بنا پر کہ اولاء بمعنی الذی ھو اور اس کا مابعد اس کا صلہ ہو۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ انتم کی خبر حاججتم ہو، اور یہ سورة البقرہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ والحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (2) آیت میں اس پر دلیل موجود ہے کہ اس کے بارے جھگڑنا منع ہے جس کے بارے علم نہ ہو اور اس سے روکنے اور منع کرنے کے ممنوع ہونے پر دلیل موجود ہے جو اس کے نزدیک متحقق اور ثابت نہ ہو پس اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ھانتم ھؤلاء حاججتم فیما لکم بہ علم فلم تحاجون فیما لیس لکم بہ علم “۔ اور اس کے بارے جھگڑنے کا حکم موجود ہے جس کے بارے علم اور یقین ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وجادلھم بالتی ھی احسن “۔ (النحل : 125) (اور ان سے بحث (ومناظرہ) اس انداز سے کیجئے جو بڑا پسندیدہ اور (شائستہ ہو) اور حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ ایک آدمی آپ کے پاس حاضر ہوا، اس نے اپنے بچے کا انکار کیا اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میری بیوی نے ایک سیاہ رنگ کے بچے کو جنم دیا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تیرے پاس اونٹ ہیں ‘؟ اس نے عرض کی ہاں آپ نے فرمایا : ” ان کی رنگت کیسی ہے ؟ “ اس نے عرض کی ؛ وہ سرخ رنگ کے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے عرض کی ہاں۔ آپ نے فرمایا : ” وہ کہاں سے آیا ؟ “ اس نے عرض کی : شاید اصل اس کی مشابہ ہو، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اور یہ بچہ شاید اصل اس کے مشابہ ہو۔ (1) (صحیح بخاری، باب اذا عرض بتفی الولد، حدیث نمبر 4893، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہی جھگڑے کی حقیقت اور رسول اللہ ﷺ کی جانب سے استدلال کو واضح اور ظاہر کرنے کی انتہا ہے۔
Top