Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
(مو منو ! ) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (راہ خدا) میں صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کرسکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
راہ خدا میں محبوب چیز قربان کرنا قول باری ہے (لن تنالوالبرحتی تنفقوامما تحبون، تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیزرکھتے ہو) البر کے معنی دواقوال ہیں اول جنت عمروبن میمون اور سدی سے یہی منقول ہے۔ دوم نیکی کا کام جس کی بناپربندے اجر کے مستحق قرارپاتے ہیں نفقہ سے مراد اللہ کی راہ میں صدقہ وغیرہ کی صورت میں پسند یدہ چیزیں دے دینا ہے۔ یزیدبن ہارون نے حمید سے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ جب درج بالاآیت نازل ہوئی نیزیہ آیت (من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا، کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے) تو حضرت ابوطلحہ ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ، میراباغ جو فلاں جگہ ہے اسے میں اللہ کے لیے دیتا ہوں، اگر میں اس بات کو پوشیدہ رکھ سکتا تو ہرگزا سے ظاہرنہ کرتا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا۔ یہ باغ اپنے رشتہ داروں یا قرابت داروں کودے دو ۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اعلی مثال یزیدبن ہارون نے محمد بن عمرو سے انہوں نے ابوعمروبن حماس سے انہوں نے حمزہ بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ، میری نظر سے یہ آیت گذری ہیں نے ان تمام چیزوں کے متعلق غور کیا جو اللہ نے مجھے عطاکی تھیں۔ ان میں میرے لیے سب سے زیادہ پیاری چیزمیری لونڈی امیمہ تھی، میں نے فوراکہا کہ یہ لوجہ اللہ آزاد ہے۔ اگر اللہ کی راہ میں دی ہوئی چیز کو واپس لینا میرے لیئے ممکن ہوتاتو میں ضرور اس سے نکاح کرلیتا۔ لیکن چونکہ یہ ممکن نہ تھا اس لیئے میں نے نافع سے اس کا نکاح کردیا۔ اب وہ اس کے بیٹے کی ماں ہے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی انہیں حسن بن ابی الربیع نے انہیں عبدالرزاق نے انہیں معمرنے ایوب اور دوسرے راویوں سے کہ جب آیت (لن تنا لوا البرحتی تنفقوامما تحبون) نازل ہوئی تو حضرت زیدبن حارثہ ؓ اپنا ایک پسندیدہ گھوڑاحضور ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور عرض کیا کہ، یہ گھوڑا اللہ کے راستے میں دیتا ہوں۔ حضور ﷺ نے وہ گھوڑا ان کے بیٹے اسامہ بن زید کو سواری کے لیے دے دیاحضرت زید کے چہرے پر اس کی وجہ سے کچھ کبیدگی کے آثارنمودارہوگئے۔ جب حضور ﷺ نے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمالیا ہے حسن بصری سے مروی ہے کہ البر سے مراد زکوۃ نیز مال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررکردہ فرائض ہیں۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرکا آیت کی تاویل کے بموجب لونڈی کو آزاد کردینا اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی رائے میں ہر وہ چیزجو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کی خاطر اس کے راستے میں دے دی جائے اس کا تعلق اس نفقہ سے ہوتا ہے جو آیت میں مراد ہے نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے نزدیک اس نفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم عموم کی حیثیت رکھتا تھا یعنی اس کا تعلق فرض سے بھی ہوسکتا تھا اور نفل سے بھی۔ اسی طرح حضرت ابوطلحہ ؓ اور حضرت زیدبن حارثہ ؓ کے اقداماتاس پر دلالت کررہے ہیں۔ کہ انفاق فی سبیل اللہ صرف فرض تک محدود نہیں تھا کہ نفل اس میں داخل نہ ہو۔ اس صورت میں قول باری (لن تنالوا البر) کا مفہوم یہ ہوگا کہ ، تم اس نیکی کو حاصل نہیں کرسکتے جو تقرب الی اللہ کی اعلی ترین منزل ہے۔ جب تک تم اپنی عزیز چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کروگے، اس لیئے قول باری (حتی تنفقوامماتحبون) ترغیب انفاق کے سلسلے میں بطورمبالغہ ذکرہوا ہے اس لیئے پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا خود اس کی صدق نیت پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے (لن ینال اللہ لحومھا ولادماء ھاولکن ینالہ التقوی منکم، ان قربانیوں کا گوشت اور نہ ہی ان کا خون اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ بلکہ اللہ تک پہنچے والی جو چیز ہے وہ تمھاراتقوی ہے) لغت میں اس کا اطلاق درست ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں سرے سے اس فعل کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ نفی کمال مراد ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لیس المسکین الذین تردہ اللقمۃ واللقمتان والتمرۃ والتمرتان ولکنالمسکین الذی لایجدماینفقولایفطن لہ فیتصدق علیہ، مسکین وہ نہیں ہے جو ایک یادولقمے یا ایک یادرکھجوریں لے کر واپس چلاجائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔ لوگوں کو اس کی حالت کا علم بھی نہ ہوسکے کہ بطورصدقہ ہی اسے کچھ مل جائے۔ حضور ﷺ نے اسے مسکنت کے وصف سے بطورمبالغہ موصوف کرنے کی خاطر اس پر اس لفظ کا اطلاق کیا اس سے مقصدیہ نہیں تھا کہ دوسروں سے فی الحقیقت مسکنت کی نفی کردی جائے۔
Top