Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
(لوگو) تم کو ہرگز نیکی نہ ملے گی جب تک کہ تم کچھ اپنی دل پسند چیز میں سے خرچ نہ کرو گے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو سو اس کو خدا خوب جانتا ہے۔
ترکیب : مما بمعنی الذی یانکرہ موصوف ہے اور مصدر یہ نہیں ہوسکتا ‘ بہ کی ضمیر شیء کی طرف رجوع کرتی ہے الا ما حرم موضع نصب میں ہے کس لئے کہ یہ استثناء خبر کان سے ہے۔ من قبل متعلق ہے حرم سے من بعد ذلک متعلق ہے افترٰی سے۔ الطعام بمعنی المطعومات والمراد اکلہا اور حل مصدر ہے اس میں جمع اور واحد مذکر مونث سب یکساں ہیں۔ تفسیر : اگلی آیت میں ذکر تھا کہ قیامت میں کفار اگر زمین بھر کر بھی سونا دیں گے تو ہرگز قبول نہ ہوگا۔ اس مناسبت سے دنیا میں اللہ کی راہ میں صرف کرنے کا ذکر آگیا کہ تم کو بر یعنی نیکی اور جزائے کامل اور ابرار لوگوں کا مرتبہ جب ہی ملے گا کہ جب تم اپنی دل پسند چیز کو صرف کرو گے۔ یہ کہ ایک ایسے پاکیزہ الفاظ میں مطلب ادا کیا ہے کہ جس میں ہزاروں اسرار کی طرف اشارہ ہے مثلاً اول انسان کی محبوب چیز اس کی جان ہے۔ اس کا صرف کرنا یہ کہ روح کو اس کے مشاہدہ جمال میں محو کر دے پھر اس کا بر وصال حقیقی ہے یا اس کو اللہ کے دین اور اشاعت خیر میں صرف کرکے شہید ہوجائے پھر اس کی حبّ جاہ اور رنگارنگ کی طبعی اور بہیمی بیجاخواہشیں ہیں ان کا صرف کرنا ان کو چھوڑ دینا ہے اور بعد : المل بالکسر مقدار مایملاء الشیء والمل بالفتح مصدر والمعنی مقدار مایملاء الارض 1 ؎ جیسا کہ حرب بن سوید انصاری مرتد ہوگیا تھا مگر اس نے توبہ کی اور اس کی توبہ قبول ہوگئی۔ عبداللہ بن عباس ؓ نے اس آیت کا یہ قصہ شان نزول قرار دیا ہے (ک) ۔ 12 منہ اس کے اس کا مال 1 ؎ اور اس کے عمدہ عمدہ علوم اور فائدہ بخش کام ہیں۔ ان کو بھی اس کی راہ میں صرف کرے۔ اسی طرح غصہ میں دشمن سے انتقام لینا بھی بڑی مرغوب چیز ہے اس کو بھی صرف کرے تاکہ مجلس ابرار اور عالم قدس میں رتبہ پاوے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ صحابی ؓ نے حضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا حضرت میرے پاس مرغوب مال صرف ایک باغ بیر حاء نامی ہے۔ آپ اس کو خدا کی راہ میں جیسا مناسب جانیں صرف کردیں (بخاری) اس وقت عرب کی قوم نے سب سے اول اس مسئلہ پر عمل کرکے دنیا اور دین کی سلطنت حاصل کی تھی اور اسی لئے خدا پرست لوگ ہمیشہ لذائذ اور قوی بہیمہ کو جوش میں لانے والی چیزوں کو صرف کرتے اور ان کا کھانا ترک کردیتے تھے جیسا کہ اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اونٹ کا گوشت اور بعض چیزیں جو شرعاً ملت ابراہیمیہ پر حلال تھیں اپنے اوپر حرام کرلی تھیں اور یہ معاملہ تورات سے پہلے کا ہے۔ چناچہ ان کی تقلید سے بنی اسرائیل میں بھی ان کی حرمت چلی آتی تھی جس پر مدینہ کے یہود آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرنے لگے کہ آپ ملت ابراہیمیہ کے مدعی ہو کر یہ چیزیں کیوں کھاتے ہیں ؟ خدا تعالیٰ نے اس کے ضمن میں ان کو جواب دیا کہ اونٹ کا گوشت اور یہ بعض چیزیں ہرگز ابراہیم پر حرام نہ تھیں تم جو تورات کا حوالہ دیتے ہو تو اچھا تورات 2 ؎ لا کر اس میں دکھائو کہ یہ چیزیں خدا نے ابراہیم پر حرام کی تھیں ؟
Top