Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
تم خدا کی وفا داری کا درجہ ہرگز نہیں حاصل کرسکتے جب تک ان چیزوں میں سے نہ خرچ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرو گے تو اللہ اس سے باخبر ہے۔
خدا کے ساتھ وفاداری کی شرط محبوب مال کا انفاق : لفظ ’ بِرّ ‘ کی تحقیق تفسیر سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ اس لفظ کی اصل روح ایفائے عہد اور ادائے حقوق وفرائض ہے عام اس سے کہ یہ خدا کے حقوق و فرائض ہوں یا اس کے بندوں کے۔ بنی اسرائیل ایفائے عہد اور ادائے حقوق کے معاملے میں تو بالکل صفر تھے لیکن محض چند رسوم کی ظاہردارانہ پیروی کر کے یہ سمجھتے تھے کہ خدا کی وفاداری میں جو مرتبہ و مقام ان کا ہے وہ کسی کا نہ ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ چناچہ اسی زعم میں وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم اور دوسرے تمام انبیاء کی وراثت کا تنہا اجارہ دار سمجھتے تھے اور یہ سوچنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ کوئی اس میدان میں ان کا حریف ہوسکتا ہے۔ قرآن نے یہاں ان کے اسی زعم باطل پر ضرب لگائی کہ خدا کی وفاداری کا مقام مجرد خالی خولی دعو وں اور چند رسموں کے ادا کردینے سے نہیں حاصل ہوجاتا بلکہ اس کے لیے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک تم خدا کی راہ میں اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو اس وقت تک تمہارا یہ دعوی بالکل بےدلیل ہے۔ محبت اور وفا داری کی جانچ کے لیے یہ کسوٹی ایک ایسی کسوٹی ہے جو فی الحقیقت بنی اسرائیل کا سارا بھرم کھول دینے کے لیے کافی تھی اس لیے کہ دینداری کی بےخرچ ظاہر داریاں تو وہ کسی نہ کسی حد تک نباہنے کی کوشش کرتے تھے لیکن جہاں معاملہ خرچ کرنے کا پیش آجائے اور وہ بھی محبوب مال کے خرچ کرنے کا، تو پھر ان کا سارا دعوائے عشق و محبت ہرن ہوجاتا۔ حالانکہ جن حضرت ابراہیم کی پیروی اور جن کی وراثت و نیابت کے وہ تنہا اجارہ دار بنے بیٹھے تھے ان کے متعلق جانتے تھے کہ ان کو خدا کی وفاداری کا جو مقام حاصل ہوا محض زبانی جمع خرچ سے نہیں حاصل ہوا بلکہ اپنے محبوب کے اکلوتے بیٹے کی قربانی سے حاصل ہوا۔ قرآن نے یہود کی اس رسمی دینداری پر جگہ جگہ تعریض کی ہے مثلاً فرمایا ہے ”لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ : خدا کی وفاداری کا حق اس سے ادا نہیں ہوجاتا کہ اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف کرو بلکہ اصل وفاداری تو ان کی ہے جو اللہ پر، یومِ آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے مال اس کے محبوب ہونے کے باوجود دیتے ہیں قرابت مندوں کو، یتیموں کو، مسکینوں کو، مسافر کو، سائلوں کو نیز اس کو خرچ کرتے ہیں گردنوں کو آزاد کرانے میں اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور جب عہد کر بیٹھیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہیں اور خاص کر وہ لوگ جو بھوک اور بیماری میں اور جنگ کے وقت ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں“ (بقرہ : 177)۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ (اور جو کوئی چیز بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس سے باخبر ہے) سے مقصود اس کا لازم ہے۔ یعنی خدا جب تمہارے خرچ کیے ہوئے پیسے پیسے سے باخبر ہے تو اطمینان رکھو، کوئی حبہ ضائع جانے والا نہیں ہے۔ اگر ایک خرچ کروگے تو دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک پاؤ گے اور اللہ کا فضل مزید براں ہے جس کی کوئی حد و نہایت ہی نہیں۔
Top