Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
ہرگز نہ پاؤ گے تم بھلائی کو یہاں تک کہ خرچ کرو اس چیز میں سے جس سے تم محبت کرتے ہو، اور جب وہی چیز خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو جانتے والا ہے۔
فی سبیل اللہ مجبوب مال خرچ کیا جائے اس آیت میں اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ خیر (کامل) تمہیں نہیں مل سکتی جب تک کہ اپنی محبوب چیز اللہ کی رضا کے لیے خرچ نہ کرو، حضرات صحابہ کرام ایک ایک حکم پر عاشق تھے، جب آیت بالا نازل ہوئی تو انہوں نے اپنی محبوبات پر نظر ڈالی کہ ہماری محبوب چیزیں کیا کیا ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ انصار مدینہ میں باغوں کی ملکیت کے اعتبار سے سب سے زیادہ مالدار حضرت ابو طلحہ ؓ تھے، مسجد نبوی کے مقابل ان کا باغ تھا جس میں ایک کنواں بیر حاء کے نام سے موسوم تھا، رسول کریم ﷺ کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور بیر حاء کا پانی پیتے تھے، حضرت ابو طلحہ ؓ کا یہ باغ ان کو اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ اس آیت کے نازل ہونے پر حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے تمام اموال میں بیرحاء مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں اور اس کے ثواب کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کے یہاں اس کو ذخیرہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ جس کام میں پسند فرمائیں اس کو اپنی صوابدید سے جیسے اللہ آپ کے دل میں ڈالے خرچ فرما دیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ عظیم منافع کا باغ ہے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنے اقرباء میں تقسیم کر دو ، حضرت ابو طلحہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کے اس مشورہ کو قبول فرمایا اور اپنے اقرباء اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم فرما دیا۔ (صحیح بخاری صفحہ 197: ج 1) حضرات صحابہ ؓ کے بعض واقعات : تفسیر درمنثور میں اس طرح کے اور بھی واقعات لکھے ہیں۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اپنے مال میں ایک رومی لونڈی جس کا نام مرجانہ تھا سب سے زیادہ محبوب تھی۔ آیت شریفہ سن کر انہوں نے اسے آزاد کردیا۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو حضرت عمر ؓ نے لکھا کہ جلولاء کے قیدیوں میں سے ایک باندی میرے لیے خرید لو جب وہ باندی آگئی تو حضرت عمر ؓ نے آیت بالا پڑھی اور اسے آزاد فرمایا۔ حضرت محمد بن المکندر نے بیان فرمایا کہ جب آیت بالا نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ ؓ نے اپنا گھوڑا صدقہ میں دے دیا۔ کیونکہ وہ ان کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (صفحہ 20: ج) ہر شخص کی محبوبات الگ الگ ہیں اور جس شخص کے پاس پیسہ کم ہو وہ اس میں سے اللہ کے لیے خرچ کر دے تو وہ بھی اس آیت کے مفہوم میں شامل ہے۔ کیونکہ کم مال ہونے کی وجہ سے پیسہ زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ آیت کے عموم سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ ہو یا صدقات واجبہ یا نافلہ ان میں سب سے اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے اور اپنی محبوب چیزیں مستحقین میں خرچ کی جائیں۔ اگر کوئی شخص ایسی چیز کو اللہ کی راہ میں دیدے جو اس کی ملکیت تو ہے لیکن ضرورت سے زائد ہے جیسے پرانے اتارے ہوئے کپڑے تو اس کا بھی اجر ہے۔ البتہ جس چیز سے محبت ہو اس کے خرچ کرنے میں زیادہ ثواب ہے اسی لیے بعض مفسرین نے الْبِرّ کی تفسیر الخیر الکامل سے کی ہے۔ یعنی کامل ثواب اسی میں ہے جبکہ محبوب چیز خرچ کی جائے۔ آیت کا مطلب یہ نہیں کہ جو چیزمحبوب نہیں اسے خرچ نہ کرو مطلب یہ ہے کہ محبوب چیز خرچ کرنے کی طرف رغبت کرو۔ آیت کے آخر میں جو فرمایا (وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ) اس کے عموم سے اس طرف اشارہ ملتا ہے۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے نیا کپڑا پہنا پھر یوں کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَا اُوَارِیَ بِہٖ عَوْرَتِیْ وَ اَتَجَمَّلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِیْ (سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے کپڑا پہنایا جس کے ذریعہ اپنی شرم کی جگہ کو چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس کے ذریعہ جمال حاصل کرتا ہوں) پھر اس کے بعد اس کپڑے کو صدقہ کردیا جسے پرانا کیا تھا تو اللہ کی حفاظت میں اور اللہ کی طرف سے پردہ پوشی میں ہوگا۔ زندگی اور موت کے بعد۔ (رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ کمافی المشکوٰۃ صفحہ 377)
Top