Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 117
مَتَاعٌ قَلِیْلٌ١۪ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
مَتَاعٌ : فائدہ قَلِيْلٌ : تھوڑا ۠وَّلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
(جھوٹ کا) فائدہ تو تھوڑا سا ہے مگر (اسکے بدلے) ان کو عذاب الیم بہت ہوگا۔
117۔ اوپر ذکر تھا کہ حرام حلال میں خاص اللہ تعالیٰ کا حکم درکار ہے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کسی چیز کو حرام یا حلال ٹھہرانا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھنے والے لوگ کبھی فلاح اور بہبودی کو نہیں پہنچ سکتے۔ اب فرمایا ایسے لوگ اپنی حلال حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کی چند روز تائید کرلیں مگر آخرت میں عذاب الیم سے انہیں رہائی نہیں ہوگی وہاں ان کے کردار کی سخت باز پرس ہو کر اس کی سزا پائیں گے اور سزا بھی ایسی جو نہایت ہی درد ناک ہوگی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے مستورد بن شداد کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا آخرت کی ہمیشہ کی زندگی مانند ایک دریا کے ہے اور اس کے مقابلہ میں دنیا کی چند روزہ زندگی ایسی ہے جیسے دریا میں کوئی شخص اپنی انگلی ڈبوئے اور اس کی انگلی پر پانی کی کچھ نمی آجاوے 1 ؎ یہ حدیث متاع قلیل کی گویا تفسیر ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن کم سے کم دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ دوزخی شخص کے پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہنادی جاویں گی جس سے اس کا بھیجا پگھل کر نکل پڑے گا 2 ؎۔ اس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ جب کم سے کم عذاب کا یہ حال ہے تو آیت میں سخت عذاب کا جو ذکر ہے اس عذاب کا کیا حال ہوگا : 1 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص 370 و 439۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 502 باب صفتہ النار واھلھا۔
Top