Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کردوں
28 تا 32۔ بنو قریظہ کے قصہ کے بعد اللہ کے رسول ﷺ کی بی بیوں کا ذکر اس سبب سے آیا کہ بنو قریظہ کا اکثر مال اللہ کے رسول ﷺ نے مہاجرین کو دے دیا تھا جس کے سبب سے مہاجرین کو کسی قدر آسودگی ہوگئی تھی۔ مہرجرین کی یہ آسودگی دیکھ کر اللہ کے رسول ﷺ کی بی بیوں کو بھی آسودگی کا خیال ہوا اور انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے نان نفقہ کی مقدار میں کچھ زیادتی کردینے کی خواہش پیش کی اللہ کے رسول ﷺ نے اس خواہش کے پورا کردینے کو اپنے اختیار سے باہر دیکھا اس لیے ان کی خواہش کو سن کر آپ کو ایک طرح کا رنج ہوا اسی رنج کے سبب سے آپ نے مہینہ بھر تک گھر میں نہ آنے کی قسم کھائی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے اس رنج کے فیصلہ کے طور پر یہ آیتیں نازل فرمائی ‘ یہ شان نزول جابربن عبداللہ ؓ کی روایت سے صحیح مسلم 3 ؎ میں ہے (3 ؎ مشکوۃ ص 281 باب عشرۃ النسائ ‘ الخ) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بی بیوں کے نان نفقہ کے معاملہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے یہ قسم کھائی تھی کہ مہینہ بھر تک آپ گھر میں نہ آویں گے صحیح بخاری 1 ؎ ومسلم میں حضرت عمر ؓ کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو جو روایت ہے (1 ؎ صفحہ 781 ج 2 باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجہا۔ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ ؓ کے معاملہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے وہ قسم کھائی تھی کہ مہینہ بھر تک آپ گھر میں نہ آویں گے اور اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس بات میں تو ان دونوں حدیثوں کا مضمون ایک ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جو قسم کھائی تھی اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں مگر قسم کھانے کا سبب دونوں روایتوں میں الگ الگ ہے حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری 2 ؎ میں اس اختلاف کے بیان کو یوں رفع کردیا ہے (2 ؎ صفحہ 299 ج 4 طبع دہلی۔ ) کہ دونوں سببوں کے مجموعہ پر اللہ کے رسول ﷺ نے وہ قسم کھائی اور آپ کی قسم کے فیصلہ کے طور پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکا ہے کہ چند باتوں کے مجموعہ پر اکثر آتیں نالز ہوئی ہیں حضرت حفصہ ؓ کے قصہ کی پوری تفصیل تو سورة التحریم میں آوے گی مگر صحیح بخاری ومسلم کی حضرت عائشہ ؓ کی روایت 3 ؎ کے موافق اس قصہ کا حاصل یہ ہے (3 ؎ مشکوۃ ص 283 باب الخلع والطلاق۔ ) کہ آنحضرت ﷺ اکثر حضرت زنیب ؓ کے حجرہ میں جا کر بیٹھا کرتے تھے اور بار ہا حضرت زنیب آنحضتر ﷺ کی خاطر داری کے طور پر شہد آپ ﷺ کے سامنے رکھا کرتی تھیں اور آپ وہ شہد چاٹا کرتے تھے حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ کو یہ امرنا گوار ہوا اس لیے ان دونوں نے مپس میں صلاح کر کے آنحضرت ﷺ سے یہ کہا کہ آپ ﷺ کے منہ میں سے اوپری بو آتی ہے یہ بات سن کر آپ ﷺ نے حضرت زنیب ؓ کے حجرہ میں زیادہ بیٹھنے اور شہد کے چاٹنے کی قسم کھائی اور حضرت حفصہ ؓ کو منع کیا کہ اس قسم کے کھانے کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا اس ممانعت سے آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اس کا چرچہ ہو کر حضرت زنیب ؓ کو اس کا رنج ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے حجرہ میں زیادہ بیٹھنا چھوڑ دیا حضرت عمر ؓ کے حوالہ سے ضحرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث جو اوپر گزری اس میں یہ ہے کہ حضرت حفصہ ؓ نے اس ممانعت کی پابندی نہیں کی اور اسی پر خفا ہو کر مہینہ بھرتک گھر میں نہ آنے کی قسم اللہ بی بیوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی رونق چاہتی ہو تو آؤفائدہ دوں میں تم کو اور رخصت کرو تم کو رخصت کرنا اچھا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رونق کی خواہش رسول کے گھر میں پوری نہیں ہوسکتی اس لیے آؤتم کو کچھ دے کر طلاق دے دی جاوے پھر فرمایا اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کی بہبودی کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے رکھ چھوڑا ہے واسطے نیکی کرنے والیوں کی تم میں سے اجر بڑا ان دونوں امر میں سے حضرت ﷺ کی ازواج مطہرات نے اللہ کو اور اس کے رسول کی رضا مندی کو اختیار کیا اور دنیا کی زندگی پر آخرت کے گھر کو ترجیح دی بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا کی خوبی اور آخرت کے ثواب کو جمع کردیا صحیح بخاری 1 ؎ میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے (1 ؎ صفحہ 791 جلد 2 باب من خیر لنساء الخ۔ ) جس کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلعم کو ازواج مطہرات کے دنیا یا آخرت کو پسند کرنے کا اختیار دیا تو اللہ کے رسول پہلے پہل میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں مگر تم اپنے ماں باپ کے مشورہ بغیر اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا اس کے بعد حضرت ﷺ نے ان آیات کو مجھے سنایا میں نے عرض کیا میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں دوسری روایت 2 ؎ میں بخاری (رح) نے اس قدر اور زیادہ بیان کیا ہے (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 480 ج 3۔ ) کہ اس کے بعد آپ کی سب ازواج نے ایسا ہی کیا جیسے میں نے کیا پھر فرمایا (رح) اے نبی کو عورتوں جو لاوے تم میں سے کوئی بےحیائی ظاہر دوچند ہو اس کو عذاب اور ہے یہ اللہ پر آسان اور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے اور کام بھی اچھے کرے دیں ہم اس کو اجر دو بار اور تیار کی ہم نے اس کے واسطے روزی عزت کی “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی ازواج کو جنہوں نے خدا اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کیا خاص حکم فرمایا وہ یہ ہی ہے کہ ان میں سے جو کھیلی بےحیائی کرے گی اس کے واسطے دوچند عذاب ہے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کا قول 3 ؎ ہے (3 ؎ تفسیر ابن کثیرص 481 ج 3) کہ یہاں بیحیائی سے مرادنا فرمانی 4 ؎ ہے (4 ؎ یعنی آنحضرت ﷺ کی بحیثیت خاوند ‘ عدم اطاعت (ع ‘ ح) غرض کہ جب آنحضرت ﷺ کی بی بیاں بڑے مرتبہ والیا تھیں تو بھی مناسب تھا کہ ان کے قصور کو بھی سخت ٹھہرایا جاوے کیوں کہ ان کی حفاظت اسی میں ہے مجاہد (رح) کا قول ہے کہ دوچند عذاب سے مقصود دنیا اور آخرت کا عذاب ہے اب آگے فرمایا اے نبی کی بی بیو اگر تم اللہ سے ڈر کر نیک کام کرتی ر ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارا مرتبہ امت کی نیک عورتوں سے دنیا اور عقبیٰ میں بڑھ کر ہے کیوں کہ دنیا میں درجہ میں تمہارا مقام ہوگا اور جب امت کے ہر مرد کو حکم ہے کہ وہ اپنی ماں کے برابر تمہاری عزت کرے کسی بدکار مرد سے تم ایسی دبی ہوئی عورتوں کی سی بات نہ کرو جس سے اس بدکار شخص کے دل میں کوئی برا خیال پیدا ہو اور اسلام سے پہلے جس طرح عورتیں اپنا بناؤسنگار اجنبی مردوں کو دکھاتی پھرتی تھیں اس طرح کی عادت بھی تم میں نہیں ہونی چاہئے بلکہ تم تو اپنے گھروں میں بیٹھ کر نماز زکوۃ اور اسی طرح کے اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کے کاموں میں لگی رہو۔ سورة النساء میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سب سے بڑا مرتبہ انبیاء کا ہے ان کے بعد صدیقوں کا ان کے بعد شہیدوں کا اور پھر عام نیک لوگوں کا۔ صدیق وہ ہیں جن میں وحی کی صداقت کا مادہ زیادہ ہو صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی وہ حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھ کو اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء پر فضیلت دی ہے سورة النور میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ اچھے لوگوں کے نکاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے اچھی عورتوں کو منتخب کیا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ کہ جب انبیاء سب بندوں میں اور خاتم النبیین ﷺ سب انبیاء میں افضل ہیں تو جن بی بیوں کو اللہ تعالیٰ نے افضل الانبیاء کے نکاح کے لیے منتخب کیا ہے ان کی فضیلت کا کیا ٹھکانا ہے اسی واسطے فرمایا ان کی فضیلت کے موافق ان کا اجر بھی دوگنا ہے اور اس فضیلت میں بوٹا لگانے کی صورت میں سزا بھی دوگنی ہے اور اللہ کی قدرت کے آگے نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیولوں کی طرح کسی نبی کی نافرمان بیوی کو سزا میں پکڑلینا کچھ مشکل نہیں وقلن قولا معر وفاط اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مرد سے بات کرنے میں شریعت کی پابندی کا لحاظ رکھو وقرن فی بیوتکن میں بعضے سلف نے قرن کو وقار سے لیا ہے اور بعضوں نے قرار سے پہلی صورت میں یہ معنے ہیں کہ اے نبی کی بیویو تم اپنے گھروں میں عزت اور وقار سے بیٹھی رہو کوئی بات اپنے رتبہ کے برخلاف نہ کرو دوسری صورت میں یہ معنے ہیں کہ بلا ضرورت گھروں کے باہر نہ نکلو ‘ اس سورة میں آگے پر دہ کا حکم ہے اس لیے آیت میں یہ ٹکڑا گویا پردہ کی پیش بندی ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے جو روایتیں 1 ؎ ہیں (1 ؎ مشکوۃ ص 481 باب لاتقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس۔ ) ان کا حاصل یہ ہے کہ اسلام سے پہلے جس طرح بت پرستی دنیا میں پھیلی ہوئی تھی قیامت کے قریب دنیا میں وہی حال پھر ہوجاویگا اسلام سے پہلے کی حالت کو الجاھلیۃ الاولیٰ جو فرمایا اس کا مطلب ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے قریب دوسری دفعہ نادانی کا زمانہ پھر آنے والا ہے۔
Top