Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 51
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَنَنْصُرُ : ضرور مدد کرتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْمُ : کھڑے ہوں گے الْاَشْهَادُ : گواہی دینے والے
ہم اپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے
51۔ 52۔ اس سورة میں کئی جگہ ذکر آیا کہ مشرک لوگ قرآن شریف کی آیتوں میں طرح طرح کے جھگڑے اور حجتیں نکالتے تھے اور آنحضرت ﷺ اور مسلمان لوگ ان کو حق بات سمجھاتے تھے تو نہیں مانتے تھے اس سے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو ایک طرح کا رنج ہوتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کی تسکین کے لئے فرمایا کہ گھبرانا نہیں چاہئے حق بات کا مددگار اللہ ہے ہمیشہ سے جس طرح اللہ نے اپنے پیغمبروں کے فرمانبرداروں کی مدد دی ہے اب بھی دین دنیا میں اللہ ان کی مدد کرے گا اور پھر اس مدد کے وعدہ کے بعد حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا ذکر مثال کے طور پر فرمایا تاکہ اس مثال سے سمجھ میں آجائے کہ حضرت موسیٰ کی نبوت کے شروع زمانہ میں بنی اسرائیل کس طرح سے فرعون کی زیادتی اور ظلم میں گرفتار تھے پھر اللہ کی مدد سے کتنا بڑا ان کا قوی دشمن ہلاک ہوا اور اس کا لاؤ لشکر بھی سب غارت ہوگیا اور بنی اسرائیل یا تو اس خواری اور ذلت میں پھنسے ہوئے تھے یا تمام ملک مصر اور ملک شام ان کے قبضہ میں آگیا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے جس طرح آنحضرت کی نبوت کے شروع زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ان مکی آیتوں میں وعدہ فرمایا تھا جب اللہ کی مدد کا وقت آگیا تو ہجرت کے بعد ہر طرح کے سب سامان اللہ کے مدد سے بنتے چلے گئے اور دن بدن نئے نئے ملک فتح ہو کر تمام مخالف ہلاک ہوگئے یہ تو اللہ کی دنیا کی مدد کا حال ہے آخرت کی مدد کا ذکر جو اس آیت میں ہے اس کی تفصیل حدیث شریف میں ہے قبض روح کے وقت سے جنت میں داخل ہونے کے زمانہ تک اپنے رسول کے فرمانبرداروں کی اللہ تعالیٰ طرح طرح کی مدد فرمائے گا مثلاً صحیح سند سے صحیح ابن حبان اور ابن 1 ؎ ماجہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ اچھے لوگوں کی قبض روح کے وقت رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور جان کنی کی سختی آسان ہونے کے لئے طرح طرح کی خوش خبری ان کو دیتے ہیں پھر دفن کرنے کے بعد منکر نکیر جب آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں پر اپنی رحمت سے کچھ خوف اور ہول کا اثر نہیں آنے دیتا تاکہ منکر نکیر کے سوال کا جواب اچھی طرح ہوش و حواس سے ادا ہوجائے۔ اسی طرح ترمذی 2 ؎ ابن ماجہ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم کی عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی معتبر سند کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ بعضے اہل کلمہ گناہ گاروں کے وزن اعمال کے وقت اللہ تعالیٰ ایسی مدد فرمائے گا کہ ایک کلمہ توحید کے ثواب کے بوجھ سے ان لوگوں کے نیکی کے پلڑے کو بھاری کر دے گا۔ صحیحین 3 ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے گناہ گار قیامت کے دن جب اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ یہ فرما کر ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا کہ جس طرح میں نے دنیا میں تم کو تمہارے گناہوں کے سبب سے رسوا نہیں کیا آج بھی میں تمہارے گناہوں کو معاف کرتا ہوں معتبر سند سے مسند 4 ؎ امام احمد اور صحیح ابن حبان میں ابوامامہ ؓ باہلی سے روایت ہے کہ ستر ہزار اہل اسلام امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے جنت میں داخل فرما دے گا اور ان میں ہر ہزار کے ساتھ اور ستر ہزار جنتی قرار پائیں گے پھر ملائکہ انبیا صلحا کی شفاعت کو اللہ تعالیٰ قبول فرما کر بہت سے گناہ گاروں کو عذاب دوزخ سے نجات بخشے گا۔ صحیحین 5 ؎ میں حضرت ابو سعید ؓ خدری کی شفاعت کی بہت بڑی حدیث ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ سب کی شفاعت کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ملائکہ اور انبیا اور صلحا تو شفاعت کرچکے اب ارحم الراحمین کی باری ہے یہ فرما کر بےگنتی گناہ گاروں کو دوزخ میں سے نکال کر جنت میں داخل فرما دے گا اسی طرح اور بھی حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل کلمہ کی آخرت میں طرح طرح کی مشکل کے وقت مدد فرمائے گا۔ بعضے پیغمبروں کو اگر تقدیر الٰہی کے موافق مخالفوں نے شہید بھی کر ڈالا ہے تو اللہ تعالیٰ نے پھر مخالف لوگوں سے پورا بدلا لیا ہے۔ یحییٰ (علیہ السلام) کے شہید ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بخت نصر بابلی کو بنی اسرائیل پر مسلط کیا جو چھ لاکھ کے قریب فوج ساتھ لے کر بابل سے ملک شام کو آیا اور ہزارہا آدمی بنی اسرائیل کے قتل کر ڈالے اور ہزارہا آدمیوں کو قید کر کے بابل لے گیا۔ مسند امام احمد بخاری ترمذی 6 ؎ وغیرہ کی روایتوں کا ذکر سورة بقر میں گزر چکا ہے کہ جب نافرمان امتیں قیامت کے دن اپنے پیغمبروں کو جھٹلائیں گے اور کہیں گے کہ یا اللہ ہم کو تیرا حکم کسی پیغمبر نے نہیں پہنچایا تو قرآن کے حوالہ سے امت محمدیہ کے نیک لوگ پیغمبروں کے سچے ہونے کی گواہی ادا کریں گے اسی طرح صحیح 1 ؎ مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں ہاتھ پیروں کی گواہی کا ذکر ہے قیامت کے دن کو گواہوں کے کھڑے ہونے کا دن جو فرمایا اس کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے اب ان گواہوں کے بعد منکروں کا کوئی عذر نہ سنا جائے گا اور رحمت الٰہی سے محروم کیا جا کر دوزخ میں ان کو جھونک دیا جائے گا گواہی کے ذکر کے بعد یہ اسی کا ذکر ہے۔ (1 ؎ مشکوۃ شریف باب فیما یقال عند من حضرہ الموت ص 141۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی باب فیمن یموت وھو یشھدا ان لا الہ الا الہ ص 103 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری باب ستر المومن علی نفسہ ص 896 ج 2۔ ) (4 ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی الحساب والقصاص والمیزان ص 486۔ ) (5 ؎ صحیح مسلم اثبات رویۃ المومنین فی الاخرۃ ربھم ص 103 ج 1۔ ) (6 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة البقرۃ ص 141 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح مسلم فصل فی بیان ان الاعضاء منطقۃ شاھدۃ ص 409 ج 2۔
Top