Ashraf-ul-Hawashi - Al-Ghaafir : 51
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَنَنْصُرُ : ضرور مدد کرتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْمُ : کھڑے ہوں گے الْاَشْهَادُ : گواہی دینے والے
اور کچھ نہیں ہم تو دنیا کی زندگی میں بھی اپنے پیغمبروں اور ایماند داروں کی مدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ گواہی کے لئے کھڑے ہونگے اس دن بھی ان کی مدد کریں گے2
1” اس لئے وہ اپنے دشمنوں پر غالب آتے ہیں “۔ مطلب یہ ہے کہ آخر کار دین حق غالب ہو کر رہتا ہے اور جن پیغمبروں کو شہید کردیا گیا ان کا دشمنوں سے طرح انتقام لیا گیا کہ ان کے دشمنوں پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا جو انہیں ذلیل و خوار کرتے رہے۔ چناچہ جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو سولی دینے کا پروگرام بنایا، ان پر رومیوں کو مسلط کیا گیا جنہوں نے انہیں ہر طریقہ سے ذلیل و خوار کیا اور پھر حق کی فتح کے لئے مادی غلبہ اور نصرت شرط نہیں ہے۔2 گواہوں سے مراد فرشتے ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور انبیاء ( علیہ السلام) کے حق میں گواہی دینگے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا اور کافروں کے خلاف یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے تیرے پیغام کو جاننے اور پہچاننے کے بعد بھی ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ( شوکانی از مجاہد و سدی) ۔
Top